عورتوں کا عالمی دن اور ہمارے رویے


ہمارے پیارے پاکستان میں سوچنے، سمجھنے اور سوال کرنے کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اور اسے ریاستی سطح پر زبردست مزاحمت کا سامنا ہے۔ ملکی اشرافیہ، بالخصوص رولنگ ایلیٹ اور اقتدار پر قابض اسٹیبلشمنٹ کے کارندے ایسے بھڑک اٹھتے ہیں جیسے کسی نے ان کی دکھتی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ ایسی ہی ایک جھلک چند روز قبل ایک ٹی وی مذاکرے میں دیکھنے کو ملی جہاں ایک خاتون سماجی کارکن نوشین بٹ کو ایک مذہبی شخصیت کے سامنے بٹھا کر مذاکرے کی صورت میں نظر آئی۔

عورتوں کا عالمی دن بالکل ایسے ہی ہے جیسے قومی دن یا یوم آزادی۔ دنیا میں یوم آزادی صرف چراغاں کرنے اور قومی پرچم کی جھنڈیاں بن اکر  لہرانے کا نام نہیں ہوتا، بلکہ یہ آزادی کی جدوجہد اور اس کے لیے دی گئی قربانیوں سمیت حصول آزادی کے مقاصد اور نتائج کا از سر نو جائزہ لینے کا نام ہے، تاکہ ہم تکمیل آزادی میں کی گئی کوتاہیوں کی نشان دہی کر سکیں اور ان کا ازالہ کرتے ہوئے بہتر مستقبل کے لیے لائحۂ عمل طے کیا جا سکے۔ بالکل اسی طرح ہر سال زندگی کے مختلف شبعوں میں عالمی دن منائے جاتے ہیں۔

یہ عالمی دن ایسے خاص تہوار یا مواقع ہوتے ہیں جن کو ساری دنیا مناتی ہے، تاکہ عالمی مسائل کے بارے میں عوام کا شعور بیدار کیا جائے، ماضی کے واقعات کو یاد رکھا جائے۔  اس لیے دنیا بھر میں بہت سی سرگرمیاں اور تقریبات ہوتی ہیں۔ عام طور پر یہ عالمی دن اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد کے حصول میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اہم سیاسی، سماجی ثقافتی، انسانیت سوزیا پھر انسانی حقوق کے امور بارے آگاہی اور منظم عمل کو فروغ دیتے ہیں۔ لیکن بعض ایسے عالمی دن بھی منائے جاتے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک کے عوام نے سماجی ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف منظم جدوجہد کر کے منوائے ہیں۔ ان میں سب سے اہم 8 مارچ، عورتوں کا عالمی دن اور یکم مئی محنت کشوں کا عالمی دن ہیں۔

خواتین کے عالمی دن کو ایک صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کا پہلا اجتماع 1911 میں ہوا تھا۔ یہ صنعتی دنیا میں زبردست توسیع اور ہنگامہ آرائی کا دور تھا۔ اس وقت وسائل کے مقابلے میں آبادی میں اضافہ ہو گیا تھا اور بنیاد پرست نظریات عروج پر تھے۔ 1908 تک دنیا بھر کی خواتین میں افراتفری اور تنقیدی مباحثے چل رہے تھے۔ معاشرے میں جاری جبر اور عدم مساوات نے خواتین کو زیادہ سے زیادہ متحرک اور تبدیلی کے عمل میں سرگرم ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

پھر 1908 میں 1500 خواتین نے کام کے اوقات کار میں کمی، بہتر اور مساوی تنخواہ اور عورتوں کے ووٹنگ کے حق کے مطالبے کے لیے امریکہ کے شہر نیویارک کی گلیوں میں مارچ کیا۔ 1909 میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی کے ایک اعلامیے کے تحت 28 فروری کو امریکہ میں پہلا قومی وومن ڈے منایا گیا۔ اس کے بعد 1913 تک خواتین فروری کے آخری اتوار کو نیشنل وومن ڈے مناتی رہیں۔

8 مارچ کو انٹرنیشنل وومن ڈے یا عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منانا جرمن کمیونسٹ راہنما کلارا زیٹکین نے 111 برس قبل، 1910 میں منعقد ہونے والی دوسری سوشلسٹ انٹرنیشل میں تجویز کیا۔ اس کا مقصد 1857 اور 1908 میں امریکہ میں گارمنٹس کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی کارکن عورتوں کی جدوجہد کو یاد کرنا اور عورتوں کی بطور مزدور، مرد مزدوروں کے برابر حیثیت کو اجاگر کرنا تھا۔ دوسری سوشلسٹ انٹرنیشنل دنیا کی سوشلسٹ اور لیبر پارٹیوں کی تنظیم تھی جو کہ 14 جولائی 1889 کو پیرس میں بنائی گئی تھی۔

1889 میں یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کا ڈیکلریشن اور 1910 میں عورتوں کے عالمی دن کا ڈیکلریشن دوسری سوشلسٹ انٹرنیشنل کے مشہور سیاسی فیصلوں میں سے تھے۔ بعد ازاں 1914 میں، بحث مباحثے کے بعد 23 مارچ کی بجائے 8 مارچ کو عورتوں کا دن منانے کا فیصلہ ہوا۔

خواتین کا عالمی دن ان کی معاشرتی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی کامیابیوں کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن صنفی مساوات کو تیز کرنے کے لیے جدوجہد کرنے اور اپنے اپنے ممالک میں صنفی مساوات اور خواتین کے سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے مطالبات کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں نمایاں سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، کیونکہ اس روز خواتین کی تنظیمیں، سیاسی اور سماجی گروپس، ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے اجتماعات میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس روز خواتین اپنی کامیابیوں کا جشن مناتی ہیں۔ جنسی بنیاد پر مساوات اور برابری کا شعور اجاگر کرتی ہیں۔ صنفی برابری کے لیے سماج کے دوسرے ہم خیال طبقات اور گروپوں سے اتحاد کر کے لابنگ کرتی ہیں اور بعض ممالک میں تو خواتین کی بہبود و ترقی کے لیے مصروف خیراتی اداروں کے لیے فنڈز بھی جمع کیے جاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں عورتوں کے سماج میں کردار کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ کس طرح سے سماج کے دوہرے استحصال اور سماجی ظلم اور جبر کا شکار ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ ہر باشعور شہری کی ذمہ داری ہے کہ سماجی آگاہی اور شعور اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مذہبی بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی بھی عورت کی برابری، آزادی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ملک میں سٹیٹس کو کی حامی قوتیں مذہب کو علم و شعور کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے 8 مارچ ملک کے ہر روشن خیال انسان کو منانا چاہیے اور خواتین کی آزادی اور سماجی برابری کے لیے جدوجہد کے ساتھ یک جہتی کا اظہار اور اس جدوجہد آزادی کو تیز کرنے میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب سے انسانی سماج طبقات میں تقسیم ہوا ہے، عورتوں کا سماج میں مقام مرد کی نسبت بہت کم تر ہو گیا ہے اور سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی میں اس کی حیثیت غلاموں کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ ذاتی ملکیت کا تصور آج بھی اپنی پوری شدت سے قائم ہے، جس کی بنیاد پر عورت آج کے جدید دور میں بھی ظلم اور معاشرتی جبر کا شکار ہے۔ گھریلو خواتین گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہیں، جس کی بدولت ہی مرد حضرات اپنے کاموں اور بچے اپنے تعلیمی اداروں کو جا پاتے ہیں۔

گھریلو خواتین کے اس کام کو پیداواری عمل کا حصہ ہی نہیں گردانا جاتا، جبکہ وہ 24 گھنٹے کام پر ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس عورت مرد کے ظلم کا نشانہ نہ صرف گھریلو سطح پر بنتی ہے بلکہ یہ ظلم عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی، اغواء، عورتوں کی خرید و فروخت، کنزیومر سوسائٹی کو بڑھاوا دینے کے لیے بل بورڈز پر عورت کی نمائش، حتیٰ کہ وہ فیکٹریوں اور کھیت کھلیانوں میں بھی اس کا نشانہ بنتی ہے۔ اور پھر مرد خاندان اور برادری کی عزت و وقار قائم رکھنے کے لیے اس کا قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ خواہ وہ کاروکاری کی صورت میں ہو یا اس کا وراثت سے حصہ دبانے کے لیے اس کی قرآن شریف سے شادی کر کے خاموش کرنا ہو۔ یہ سب بالادست اور استحصالی سماجی اقتصادی ڈھانچہ کے مختلف مظاھر ہیں۔

پاکستان میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود نہ ان کو مردوں کے برابر عزت و احترام دیا جاتا ہے اور نہ ہی مساوی کام کی مساوی اجرت ملتی ہے، ماسوائے اس کے کہ اسے ووٹ کا برابر حق حاصل ہے اور وہ بھی ملک کے بہت سے علاقوں میں ٹرائبل اور جاگیردارانہ روایات کی وجہ سے سلب کر لیا جاتا ہے۔ جہاں اس کا حق ہے بھی، وہ اس حق کا استعمال بھی مردوں کی مرضی کے بغیر کرنے سے گھبراتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر انہیں اس حق سے محروم رکھنے کے لیے ملا اور دیگر رجعتی عناصر برابر کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

خواتین کا عالمی دن نہ تو کسی ملک، گروپ یا تنظیم سے متعلق ہے اور نہ ہی عالمی یوم خواتین کے لئے کوئی بھی حکومت، این جی او، چیریٹی، کارپوریشن، تعلیمی ادارہ، خواتین کا نیٹ ورک، یا میڈیا حب مکمل طور پر ذمہ دار ہے بلکہ اس دن کا تعلق تمام گروہوں سے اجتماعی طور پر ہر جگہ ہے۔

گلوریا اسٹینیم، ایک عالمی شہرت یافتہ نسائی ماہر، صحافی اور کارکن نے ایک بار وضاحت کی کہ ”خواتین کو برابری کے لئے جدوجہد کرنے کی کہانی کسی ایک فیمینسٹ عورت کی نہیں، نہ ہی کسی ایک تنظیم کی ہے بلکہ انسانی حقوق کی پروا کرنے والے سب انسانوں کی اجتماعی کاوشوں سے متعلق ہے۔“ لہٰذا خواتین کے عالمی دن کو اپنا دن بنائیں اور خواتین کے لئے صحیح معنوں میں ایک مثبت فرق پیدا کرنے کے لیے وہ سب کچھ کریں جو آپ کر سکتے ہیں۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments