کیا محض پروفیسر، ادبی نقاد ہو سکتا ہے؟


یہ گزشتہ روز کی بات ہے بہت ہی محترم استاد اور نقاد، جو کہ بہا الدین زکریا یونی ورسٹی ملتان میں شعبہ اردو کے سربراہ بھی رہے، کی فیس بک پر یکے بعد دیگرے چار ادبی پوسٹ نظر سے گزریں۔ ایک پوسٹ کی تحریر اور نیچے دی گئی تصاویر نے مجھے زیادہ چونکایا ”تنقید کے نئے چراغ۔ ان ہی کے دم سے روشنی ہے“ اس میں سولہ ”نئے چراغوں“ کی تصاویر تھیں۔ میری کم علمی اور کوتاہ قامتی اپنی جگہ لیکن ان سولہ میں سے دو سے تین ”نئے چراغوں“ کے علاوہ میں کسی کو پہچان نہ پایا۔

گزشتہ روز سے ہی، میں چند دوستوں سے رابطہ کر کے ”نئے چراغوں“ کے ”ادبی کام“ سے آگاہی کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہاں ایک پہلو کی وضاحت ازحد ضروری ہے، میرے لیے تمام پڑھنے لکھنے والے انتہائی قابل عزت اور قابل قدر ہیں، ان چار پوسٹ میں متعارف کروائے گئے جملہ احباب اپنا قابل قدر کام بھی رکھتے ہوں گے، جیسا کہ ایم خالد فیاض، رفیق الاسلام، محمد عباس، افتخار شفیع ہیں اور دیگر، میرا ان میں سے کسی کی شخصیت پر سوال اٹھانا نہیں، نہ ہی کسی کے ادبی کام کو چیلنج کرنا یا کم درجے کا قرار دینا ہے، میری تشویش دو طرح کی ہے، ایک تو یہ کہ میں کیونکر مذکورہ شخصیات کے علمی سرمائے سے استفادہ نہ کر سکا؟

اور دوسری یہ کہ محض پروفیسر کو ادبی نقاد کہا جاسکتا ہے؟ ہر پروفیسر یا اردو زبان و ادب کا استاد جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کرتا ہے، اس سے گن پوائنٹ پر دو تھیسز لکھوائے جاتے ہیں، وہ ان تھیسز کی بنیاد پر ترقی پاتا ہے، یہ تھیسز کتابی شکل میں چھاپ بھی دیے جاتے ہیں، البتہ جو ذرا سیانے قسم کے استاد ہوتے ہیں، وہ تھیسز لکھنے اور ڈگری لینے کے بعد تھیسز چھپا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ دو تھیسز اور ایچ ای سی کے سند یافتہ رسائل میں چھپنے والے ”ریسرچ آرٹیکلز“ کی بنیاد پر کوئی ادبی نقاد کے درجے پر فائز ہو سکتا ہے؟

علاوہ ازیں ادبی نقاد کے منصب پر فائز ہونے کے لیے کسی نظریہ کا حامل بھی ہونا ضروری ہوتا ہے؟ یا نہیں۔ نظریہ سے مراد نقاد کی فکر کا وہ اسلوب جو مسلسل پڑھنے اور لکھنے کے بعد طویل عرصہ بعد ترتیب پاتا ہے۔ شاید میں اپنی بات واضح نہیں کر پا رہا، یہاں دو مثالیں دیتا ہوں، جاوید احمد غامدی کا مذہبیات پر جو کام ہے، وہ طویل عرصہ کی لگن، مطالعہ اور غور و فکر کا نتیجہ ہوگا، غامدی صاحب نے تمام مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا ہوگا، انسانی تاریخ و تمدن، ثقافت و کلچر کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدت لگائی ہوگی، فلسفہ کی راہداریوں میں چلے ہوں گے، تب جا کر وہ اپنی ایک فکر بنانے میں کامیاب ہوئے ہوں گے۔

یوں وہ ”نئی بات، نئی فکر اور نئی تفہیم“ کی خصوصیات کے حامل ٹھہرے ہوں گے۔ اسی طرح حالیہ ادبی تنقید کی تاریخ میں ناصر عباس نیئر ہیں، جنھوں نے اپنے مطالعہ، لگن، جستجو، غور و فکر کی بنیاد پر اپنے لیے الگ راہ نکالی اور شناخت بنوائی۔ یعنی میرا تصور نقاد کیا ہے؟ اس کی مثال حالیہ ادبی نقادوں میں ناصر عباس نیئر کی دیتا ہوں، ناصر عباس نیئر نے ایم فل اور پی ایچ ڈی تھیسز کے علاوہ متعدد کتابیں تنقید پر لکھی ہیں اور وہ نئی بحث کو جنم دینے میں کامیاب رہے ہیں۔

لہٰذا ہم، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تھیسز کو کتابی شکل دینے والے ادب کے استادوں کو نقاد کہہ سکتے ہیں؟ ہمارے ہاں ایک المیہ یہ ہے کہ ہمارے شاگرد اور احباب، جو کہ ہماری سوچ سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، بڑے نقاد اور شاعر قرار دیے جاتے ہیں، کیا یہ جینوئن لکھنے والوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی؟ نیز یہ کہ ادب بے وقار نہیں ہوتا؟ ”تنقید کے نئے چراغوں“ کی پوسٹ میں سے میں ایک ایسے ”چراغ“ کو بھی جانتا ہوں، جو شمس الرحمن فاروقی کی کتابوں کے شاید نام بھی نہ بتا سکے۔

ڈاکٹر روش ندیم، جو کہ معاصر ادبی منظر نامہ میں اپنی شناخت نقاد، شاعر و دانشور کی رکھتے ہیں، کے مطابق ”ادبی نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسان، خدا اور کائنات کے حوالے سے اپنا ایک نقطہ نظر رکھتے ہوں، یہ نقطہ نظر کوئی لگا بندھا بھی نہ ہو بلکہ اس کے اندر تازگی اور تخلیق سے بھرپور پہلو ہمہ وقت موجود ہو، ادبی نقاد اپنے سوالات، فکری مباحث کے ذریعے سے لکھت اور سوچ کے عمل کو ایک نئے جہان تازہ کی طرف دھکیل سکے“

یہ بھی گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ لیہ سے میرے محترم اور قابل عزت استاد نے فون پر میری ایک نوجوان سے بات کروائی۔ (واضح رہے کہ نوجوان سے فون پر بات کروانے والے وہ استاد اور ادبی نقاد نہیں تھے، جو اپنی درجن سے زائد تبصرہ نما کتابوں کو تنقید کی کتابیں کہتے ہیں اور جو میرے بارے میں اپنے کو ماتحت اساتذہ کو کہتے ہیں کہ دیکھو! اس نے (یعنی میں ) میری عزت (خوشامد) نہیں کی، لیکچرر نہیں لگ سکا اب دھکے کھاتا پھر رہا ہے ) نوجوان نے مجھے بتایا کہ وہ فلاں افسانہ نگار پر تھیسز لکھ رہا ہے اور اس کے پاس اس افسانہ نگار کی کوئی کتاب نہیں، لہٰذا میں اس کو اسلام آباد سے کتابیں خرید کر بھیجوں۔ میں حیران رہ گیا کہ جس ”سکالر“ نے افسانہ نگار کا ایک افسانہ بھی نہیں پڑھا اور نہ ہی اس نے دیگر علامتی اور تجریدی افسانہ نگاروں کو پڑھا ہوا ہے، وہ کیونکر تھیسز لکھ پائے گا؟ یقیناً وہ تھیسز لکھے گا اور یہ تھیسز پھر کتابی شکل میں چھپ بھی جائے گا، یہ ”سکالر“ نقاد بھی بن جائے گا۔

جہاں تک ملتان کے دبستان کی بات ہے، تو اس سرزمین پر بہت اچھے شاعر، ادیب اور نقاد پیدا ہوئے ہیں۔ نئی اور پرانی نسل کے بہت سارے لوگ اس وقت بھی اچھا ادب تخلیق کر رہے ہیں، خصوصاً نئی نسل میں نظم کے میدان میں متنوع ذائقوں کی شاعری سامنے آئی ہے، اس کی بہترین مثال ساحر شفیق کی نظم ہے، ساحر کے ساتھ دیگر نوجوان بھی بہت اچھی شاعری تخلیق کر رہے ہیں، اسی طرح افسانہ نگاروں میں پروفیسر لیاقت علی نے قارئین کو اچھے افسانے دیے ہیں۔ تنقید میں خاور نوازش کے کام کی بہت قدر ہے، لیکن یہ ”نئے چراغوں“ کی فہرست میں شامل نہیں۔ اسی طرح لیہ کا نوجوان خالد محمود سامٹیہ جو ناول کی تنقید میں شاندار اضافہ کے طور پر سامنے آیا ہے، کا کوئی ذکر نہیں۔ مجھے اپنی تشویش پر مبنی سوالات کے جوابات درکار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments