زندگیاں بچانے والی رضا کار خواتین امدادی کارکن: ’کسی مرد کو بچی نکالنے کی اجازت نہیں دیں گے، آپ ہماری مدد کریں‘


رضا کار خواتین

سنہ 2011 میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے لیاری میں ایک عمارت زمین بوس ہوئی جس میں سرکاری اطلاعات کے مطابق 23 خواتین سمیت کم از کم 27 افراد ہلاک ہوئے۔ امدادی سرگرمیوں میں مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب متاثرہ خاندانوں کے مردوں نے مرد امدادی کارکنان کو اپنی گھروں کی خواتین کو ملبے سے نکالنے کی اجازت دینے سے دوٹوک انکار کر دیا۔

وہ ایک نازک موقع تھا۔ موقع پر موجود مختلف اداروں کے امدادی کارکن اور انتظامیہ سب اضطراب اور بے چینی کا شکار تھے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس مسئلے کا حل کیسے تلاش کیا جائے۔ ان حالات میں امید کی کرن اس وقت پیدا ہوئی جب آغا خان ایجنسی فار ایبیٹیٹ سے منسلک خواتین رضا کاروں نے موقع پر پہنچ کر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

روزینہ قادر نے اس آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ہم موقع پر پہنچے تو کئی مرد زوروقطار رو رہے تھے۔ ’وہاں کا ماحول بہت دھشت زدہ کردینے والا تھا جس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔‘

جب میں اپنی دیگر خواتین رضا کار ساتھیوں کے ہمراہ پہنچی تو ہمیں کہا گیا کہ ابھی تک امدادی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئی ہیں اور اب یہ سارا مشکل اور طویل آپریشن ہم ہی لوگوں پر انحصار کر رہا ہے۔

روزینہ قادر کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشکل آپریشن تھا کیونکہ ملبہ کئی کئی فٹ پڑا ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

BBCShe#: بلوچستان کی نڈر خواتین

پاکستان کی آٹھ نرسیں عالمی فہرست میں شامل، ملک میں اس شعبے کی بہتری کیسے ممکن؟

تھرپارکر کی خواتین ڈمپر ڈرائیورز

’ہم بڑے مبلے کو ہٹانے کے لیے بڑی مشکل سے کچھ مرد ریسیکو اہلکاروں کی مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں جبکہ دبی ہوئی لاشیں نکالنے کے لیے خود ہی گہنتی اور بیلچہ استعمال کیا۔ اس دوران ہم لوگوں نے کوئی 23 خواتین کی لاشیں نکالی تھیں۔ انھیں ڈھانپا اور مختلف ایمبولینسوں میں رکھوایا تھا۔‘

یہ آپریشن دو روز دن رات جاری رہا تھا۔ جس میں ان خواتین کے کام کو ہر حلقے نے زبردست انداز میں سراہا تھا۔

آغا خان ایجنسی فار ایبیٹیٹ

اس حادثے کے متاثرہ ایک خاندان کے فرد الہٰی بخش کا کہنا تھا کہ ’جب حادثہ ہوا تو میں اور دیگر مرد نماز کے لیے گئے ہوئے تھے۔ ہماری بازوں میں اتنی طاقت تھی کہ ہم خود کام کر سکتے تھے مگر قیامت کے لمحے میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اگر یہ سبز وردی والی خواتین موقع پر نہ پہنچتیں تو پتا نہیں کب تک ہماری خواتین ملبے تلے دبی رہتیں۔‘

سال 2011 میں لیاری آپریشن میں حصہ لینے والی روزینہ قادر کئی سال تک خدمات انجام دینے کے بعد اب ریٹائر ہو چکی ہیں مگر ان کی جگہ پر اب کئی اور رضا کار خواتین نے لے لی ہے۔

آغا خان ایجنسی فار روول ڈویلپمنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفسیر نواب علی خان کے مطابق اس وقت آغا خان ایجنسی فار ایبیٹیٹ کے پاس تین بڑی امدادی ٹیمیں کام کر رہی ہیں جس میں رضا کاروں کی تعداد 48 ہے اور ان میں میں 15 خواتین بھی شامل ہیں جبکہ کئی مقامات پر چھوٹی ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔

نواب علی خان کا کہنا تھا کہ خواتین رضا کاروں کی ضرورت کو زیادہ محسوس کیا جا رہا ہے۔

خواتین امدادی کارکن

’اس وقت ہم کمیونٹی کی سطح پر گروپوں کو مزید منظم کرنے کے علاوہ کوشش کرنے کے علاوہ رضا کار خواتین کی تعداد پچاس فیصد تک پہچانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ کسی بھی چھوٹے بڑے حادثے اور آفت کے موقع پر ہر خاتون اور بچے کو امداد فراہم کی جا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اکثر اوقات مختلف حادثات اور آفات کے موقع پر دیکھا گیا ہے کہ خاندانی، ثقافتی اور تربیت یافتہ افراد کی کمی کے باعث حادثات اور آفات سے زیادہ متاثر خواتین اور بچے ہی ہوتے ہیں اور اس لیے ہم خواتین کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی اور تربیت دے رہے ہیں۔‘

’کمیونٹیز کی سطح پر امدادی کارکناں کے گروپ فوری طو رپر حرکت میں آ کر نقصانات کو کم سے کم کرسکتے ہیں جبکہ خواتین امدادی کارکناں کی موجودگی میں خواتین تک بروقت مدد پہچنے کے امکانات زیادہ ہوسکتے ہیں۔‘

مکمل تربیت یافتہ مگر رضا کار ہیں

بی بی سی نے کراچی اور گلگت میں خواتین امدادی کارکنوں سے بات کی ہے۔ یہ تمام خواتین امدادی کارکنان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مختلف پیشوں میں اپنی خدمات سر انجام دینے کے ساتھ رضا کارانہ طور پر امدادی سرگرمیوں میں نہ صرف حصہ لیتی ہیں بلکہ مکمل طور پر تربیت یافتہ بھی ہیں۔

گلگت کے نواحی علاقے دیانیور سے تعلق رکھنے والی شمیم بانو پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں۔ وہ کئی برسوں سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے افغانستان جا کر مرد و خواتین کو امدادی سرگرمیوں کی تربیت بھی فراہم کی تھی۔

خواتین امدادی کارکن

وہ بتاتی ہیں کہ ’ میں بچپن میں کچھ حادثات کی چشم دیدہ گواہ ہوں۔ جن میں محرم اور غیر محرم کی بنیاد پر خواتین متاثر ہوئیں تھیں۔ جس کے بعد میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کچھ ایسا کروں جس سے میں کسی کی مدد کر سکوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب ہمارے علاقے میں تربیت کا آغاز ہوا تو میں نے بھی تربیت حاصل کی تھی اور اس وقت میں امدادی سرگرمیوں میں تیر کر جان بچانے سمیت تمام سرگرمیاں کر سکتی ہوں۔

وہ کہتی ہیں ’شروع میں میرے بھائی سخت مخالفت کرتے تھے مگر میرے خاوند نے ہر موقع پر میرا ساتھ دیا۔ بھائیوں کی مخالفت بھی اس وقت ختم ہو گئی جب علاقے کے کئی لوگوں نے بتایا کہ میری وجہ سے ان کی مدد ہوئی ہے، کسی کی جان بچی اور کسی کو بروقت طبی امداد میسر آ گئی تھی۔‘

منیرہ برکت کراچی کی رہائشی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ ایک کمپنی میں ہیومن ریسورس کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ زمانہ طلب علمی میں گرلز گائیڈ رہی ہیں اور شادی سے پہلے ہی امدادی کارکن بن چکی تھی۔ وہ اب تک کراچی میں دو بڑے اور کئی چھوٹے آپریشنز میں حصہ لے چکی ہوں۔

وہ کہتی ہیں ’میرے خاوند مجھ سے پورا تعاون کرتے ہیں مگر جب میں نے تربیت لینے کا فیصلہ کیا تھا تو اسوقت میری والدہ نے سخت مخالفت کی تھی۔ میں بڑی مایوس تھی۔ اب سب کچھ والد پر منحصر تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے والد سے بات کی تو مجھے انتہائی خوشی ہوئی کہ انھوں نے ایکدم میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی اجازت دے دی۔‘

منیرہ برکت

’والدہ نے انتہائی غصے سے کہا کہ کیوں اجازت دی ہے تو میرے پاپا نے کہا کہ اگر یہ دوسروں کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے تو اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے سے افضل کام کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں۔‘

شمائلہ شاہ بھی کراچی کی رہائشی اور طالب علم ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اپنے ماں باپ اور بھائیوں کی اجازت بلکہ حوصلہ افزائی سے تربیت حاصل کی۔ اس کے بعد دو بڑے آپریشنز میں حصہ لیا بلکہ اپنے علاقے میں کمیونٹی کی بھی مختلف اوقات میں مدد کی۔

عطا آباد جھیل حادثہ میں دن رات کام کیا تھا

شمیم بانو کا کہنا تھا کہ اپنے علاقے میں تقریباً ہر وقت ہی کوئی نہ کوئی مصروفیت ہوتی ہے۔

’مجھے اچھی طرح یا دہے کہ جب میں نے تربیت مکمل کرلی تھی تو اس کے بعد میرے پڑوس میں ایک خاتون جو کہ خود نرس بھی تھیں اپنے کچن میں اپنی بچی کو اٹھا کر کام کررہی تھی کہ ککر پھٹ گیا۔‘

’دھماکے کی آواز سن کر میں دوڑ کر گئی تو وہ مکمل طور پر خواس باختہ تھیں۔ انھوں نے اپنی کم عمر بچی میری طرف پھینکی۔ میں نے اپنی تربیت کو بروئے کار لاتے ہوئے فوراً اس کو ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔ علاقے کے لوگوں کے پہچنے سے پہلے گاڑی کا انتظام کر کے بچی کو ہسپتال تک پہنچایا جس وجہ سے اس کی جان بچ گئی تھی۔‘

شمیم بانو کا کہنا تھا کہ اسی دوران عطا آباد جھیل کا واقعہ بھی پیش آیا۔

’میں بھی دیگر اپنے ساتھی رضا کاروں کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئی تھی۔ ایک ایک خاندان کے آٹھ، آٹھ نو نو لوگ دبے ہوئے تھے۔ اس وقت ہمارے پاس جدید آلات نہیں تھے۔ میں نے بیلچہ اور کہنتی استعمال کرکے لوگوں کو ملبے تلے سے نکالا تھا۔‘

’میں واحد خاتون امدادی کارکن تھی اور مجھے خواتین کے مسائل کا اندازہ تھا۔ محفوظ رہ جانے والی خواتین تک پہنچ کر ان کے مسائل حل کیے تھے۔ کئی ایک خواتین کو فوری طبی امداد کی ضرورت تھی ان کو وہ فراہم کی تھی۔‘

شمیم بانو کا کہنا ہے کہ اس کے بعد علی آباد میں چار سیاح لڑکے برفانی تودے میں دب گے تھے۔ اس موقع پر بھی وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہاں پہنچی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ وہ تیرنے میں مہارت کے علاوہ پہاڑی علاقے میں امدادی سرگرمیوں میں بھی مکمل مہارت رکھتی ہیں۔

امدادی کارکن

پندرہ سالہ بچی تک پہنچنا مشکل اور تکلیف دہ تھا

منیرہ برکت کا کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے لئے وہ مکمل تربیت یافتہ ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ شہری علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں زیادہ تر سرچ اینڈ ریسیکو آپریشن ہوتا ہے۔ جس کے لئے عموماً رسیوں کی مدد سے بھی آپریشن کرنا پڑتا ہے۔ اس کی تربیت ہم لوگ ہر ماہ لیتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ گزشتہ سال کراچی کے علاقے گولی مار میں ایک عمارت حادثے کا شکار ہوئی تو ہم لوگ موقع پر پہنچ گئے تھے۔

’میں اور دیگر خواتین کارکنان جن میں شمائلہ شاہ بھی شامل تھی، فرسٹ ایڈ کے ذریعے سے زخمیوں کو مدد فراہم کر کے ان کو ایمبولینس تک منتقل کررہے تھے۔‘

منیرہ برکت کا کہنا تھا کہ اس ملبے تلے ایک بچی دبی ہوئی تھی جن کے مرد لواحقین دوڑتے ہوئے ہمارے پاس آئے اور کہا کہ ہم کسی مرد کو بچی نکالنے کی اجازت نہیں دیں گے، آپ ہماری مدد کریں۔

منیرہ کہتی ہیں ’ہم نے سب کچھ چھوڑ دیا اور بچی کی مدد کے لئے دوڑ پڑے۔ بچی جس مقام پر دبی ہوئی تھی وہ انتہائی مشکل مقام تھا۔ وہاں تک پہچنے کے لئے ہم لوگوں نے اپنی تربیت کو بروائے کار لایا تھا۔‘

شمائلہ شاہ کا کہنا تھا کہ ’اوپر سے ملبہ نیچے گرنے کا خطرہ موجود تھا۔ ایک بڑے پلر کو ہم لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے پکڑ رکھا تھا۔ ہم لوگ وقفے وقفے سے پلر کو پکڑتے اور ملبہ ہٹاتے تھے۔ اس دوران ہم لوگوں نے ہاتھوں سے بھی ملبہ ہٹایا تھا۔‘

’کئی گھنٹے کی محنت کے بعد اس بچی کی لاش کو نکال کر ڈھانپا اور لواحقیقن کے حوالے کیا تھا۔ اس موقع پر وہاں پر معجزاتی طور پر ایک طوطا بھی موجود تھا جو بالکل زخمی نہیں تھا اس کو بھی ہم اپنے ساتھ لے آئے تھے۔‘

امدادی کارکن

راہ چلتے بھی لوگوں کی مدد کرتے ہیں

منیرہ برکت کا کہنا تھا کہ ہم سب خواتین اپنے اپنے پیشے میں مصروف ہوتی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارا امدادی کام بھی چلتا رہتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اکثر اوقات جہاں پر ہم رہتے ہیں وہاں پر بھی لوگوں کو مدد کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ کئی لوگوں کو کئی مرتبہ بروقت طبی امداد دی ہے۔

’ایک دو مرتبہ آگ لگنے کے واقعات ہوئے ہیں۔ ہمیں ان سے نمٹنے کی تربیت بھی ہے۔ ان واقعات پر میں قریب ہی موجود تھی۔ جس پر اپنی تربیت کو بروئے کار لا کر نہ صرف آگ کو پھیلنے سے روکا بلکہ اس میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بھی باہر نکلنے میں مدد فراہم کی تھی۔‘

شمائلہ شاہ کا کہنا تھا کہ ’کراچی بہت بڑی آبادی کا شہر ہے۔ یہاں پر روزانہ سڑک پر حادثات ہوتے ہیں۔ کئی مرتبہ لوگوں کو سڑک پر فرسٹ ایڈ دی ہے۔ جس میں خواتین بھی شامل ہوتیں ہیں۔‘

’میں خود بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں یونیورسٹی آتی جاتی ہوں۔ ایک مرتبہ ہمارے چنگ چی رکشے کے ساتھ ساتھ چلنے والا رکشہ حادثے کا شکار ہوا۔ اس میں سب خواتین تھیں۔ میں فوراً ان کے پاس پہنچی اور خواتین کو فی الفور رکشے سے باہر نکال کر ان کو طبی امداد فراہم کی تھی۔‘

شمائلہ شاہ کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ خیبر پختونخواہ سے اسلام آباد آتے ہوئے دو موٹر سائیکل حادثے کا شکار ہو گئے۔

’یہ خوفناک خادثہ تھا اور لوگ اکھٹے ہورہے تھے۔ میں دوڑتی ہوئی ان زخمیوں کے پاس پہنچی اور ان چاروں نوجوانوں کے مختلف مقامات سے خون کو بند کیا۔‘

’چیخ چیخ کر لوگوں کو اپنی مدد کے لئے بلا کر ان کو گاڑیوں اور ایمبولینس میں ہسپتالوں کو روانہ کیا۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ چاروں کو بروقت طبی امداد ملنے کی وجہ سے ان کی زندگی بچ گئی تھی۔ اس بات کی اتنی خوشی ہوئی کہ بتا نہیں سکتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp