تانیثیت ( فیمینزم ) اور حقوق نسواں


زمانہ جدید میں تانیثیت ( فیمینزم ) کے علم برداروں نے خاتون کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ قرنوں سے مرد کے پنجہ استبداد میں جکڑی ہوئی ہے۔ بات خواتین کے حقوق کی بازیابی اور ان کی عزت کی بحالی کی خاطر کی جاتی تو معاملہ بڑا ہی حوصلہ افزاء ہوتا کیوں کہ معاشرے کے نصف حصے کو کسی بھی صورت میں دیوار سے لگائے رکھنا کوئی خوش کن بات نہیں ہے۔ لیکن سارے معاملے کو ایک باضابطہ نظریے اور فلسفے کی شکل دی گئی اور ایک ایسا نعرہ بلند کیا گیا کہ مرد، جو مدت دراز سے خاتون پر اپنا تحکم اور اقتدار جمائے بیٹھا ہے، کو اپنی حیثیت سے دست بردار ہو جانا چاہیے۔ ساتھ ساتھ خاتون کو یہ ترغیب دی گئی کہ مرد سے دو دو ہاتھ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔

مسئلے کو جوں ہی ایک فلسفے کا رنگ دیا گیا تو جس طرح اشتراکیت نے انسانیت کو دو برسر پیکار گروہوں (بورژوا، Bourgeois اور پرولتاریہ، Proletariat) میں بٹا ہوا ہونے کا اعلان عام کیا تھا، بالکل اسی طرح تانیثیت کے نظریہ سازوں نے بھی انسانیت کی تفریق در تفریق کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان لوگوں نے خاتون کو اپنی مکمل بقاء کی جنگ میں مصروف دکھایا اور مرد کو ایک غاصب اور ظالم کی شکل میں پیش کیا۔ اس طرح یہ تصور عام کیا گیا کہ جس طرح مرد نے تاریخی عوامل کے تحت مختلف اشیاء پر اپنا تسلط قائم کر کے اپنی ملکیت میں تبدیل کیا، بالکل اسی طرح خاتون کی غلامی کا سامان بھی کیا گیا۔

اس طرح ان لوگوں نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مرد کو کسی طور پر بھی خاتون پر کوئی جسمانی یا ذہنی توفق حاصل نہیں ہے اور مرد کی جہاں تک خاتون پر تملیک اور تحکیم کا تعلق ہے تو یہ صرف اور صرف تاریخی عوامل کی مرہون منت ہے۔ اس لئے خاتون کو جتنا جلد ہو سکے مرد کی غلامی سے گلو خلاصی کرنا چاہیے۔

تاہم تانیثیت کے علمبرداروں نے دو اداروں کو اپنے نظریات کی راہ میں حائل پایا۔ مذہب اور خاندان کے ادارے ان کے لئے سنگ ہائے گراں ثابت ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ ان دونوں اداروں سے نبرد آزمائی میں مصروف ہو گئے۔ تانیثیت کا قصر تعمیر کرنے کی راہ میں اگرچہ خاندان ایک مضبوط سد راہ کے طور پر حائل ہو گیا لیکن یہ بنیادی طور پر مذہب کا ہی ایک ذیلی ادارہ شمار کیا گیا۔ مذہب کے اثر کو ”عوام کا افیون، Opium of the Masses“ کہہ کر زائل کیا جاسکتا تھا، لیکن خاندان کا جو عام انسانی معاشرت میں مقام ہے اس سے دامن جھاڑنا تانیثیت کے خوشہ چینوں کے لئے کسی طرح آسان نہیں تھا۔

اس لئے ان لوگوں نے ان دو اداروں کا اثر زائل کرنے کے لئے دو طرح کا طریقہ کار اپنایا۔ ایک طرف معاشرے کی تشکیل اور تعمیر میں مذہب کے کسی کردار کو خارج از امکان قرار دیا گیا اور دوسری طرف خاندان میں مرد کی کسی امتیازی حیثیت کو نہ صرف ہدف تنقید و تنقیص بنایا گیا بلکہ مرد کے تاریخی طور پر نبھائے گئے کردار کو مشکوک بنا دیا گیا۔ اس طرح معاشرے پر مذہب اور خاندان، دونوں کی گرفت ختم نہ سہی لیکن کمزور اور ڈھیلی ضرور کر دی گئی۔

ظاہر ہے کہ تانیثیت کی یہ تحریک بھی دور جدید کی مختلف تحریکوں کی طرح مغرب سے ہی اٹھی تھی، اس لئے اس کا مذہب بیزار ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مغرب کا غالب مذہب ہونے کی وجہ سے عیسائیت نے خاتون کی جو تصویر بنائی تھی اسی تصویر کو مغرب کے ادیبوں، قلم کاروں اور فن کاروں نے خوب بڑھا چڑھا کر اپنے فن پاروں میں پیش کیا۔ کسے نہیں معلوم کہ عیسائیت نے جو باوا آدمؑ اور اماں حواؑ کی جو جنت سے خروج پر تصویر کشی کی تھی، جس میں انسانیت کی ماں یعنی حواؑ کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، وہی کچھ جان ملٹن اور شیکسپیئر نے اپنے مخصوص انداز میں دہرایا۔

غور کرنے کی بات ہے کہ کس طرح ملٹن نے Paradise Lost میں حواؑ کو نہ صرف ایک کمزور وجود کے طور پر پیش کیا ہے بلکہ انہیں شیطان کا ہمسر ٹھیرانے میں بھی بڑی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کیا ہے۔  ”کمزوری، آپ عورت کا (دوسرا) نام ہو، Frailty، thy“ name is woman جیسا مشہور جملہ جو خاتون کی عام کمزوری کو دکھانے کے لئے بولا جاتا ہے، شیکسپیئر جیسے اعلیٰ دماغ کی اختراع ہے جو اس نے Hamlet میں استعمال کیا ہے۔

اس تناظر میں جب ہم Mary Wollstonecraft کی حقوق نسواں پر لکھی گئیں تحریروں کا تجزیہ کرتے ہیں تو معاملے کی ڈوریں فرانسیسی انقلاب سے جاملتی ہیں جہاں مخاصمت چرچ اور اسٹیٹ کے درمیان بپا تھی۔ ظاہر ہے کہ پاپائیت کے مروجہ مذہب اور اس کے پنجہ استبداد میں جہاں عوام کے حقوق پامال کیے جاتے تھے وہاں خاتون بھی بے بسی اور بے کسی کا شکار تھی۔ اس لئے جہاں بہت سارے لوگوں نے ”سیاست کو پاپائیت سے الگ کرنے کا بیڑا اٹھایا“ وہیں کئی اور لوگوں نے خاتون کے حقوق کے لئے بھی زور و شور سے آواز بلند کی۔

صنعتی انقلاب اور یورپ کی نشاہ ثانیہ نے جب یورپ کے بڑے حصے کو ایک استعماری قوت کی صورت میں سامنے لایا تو یورپ کے سیاسی اقتدار کے ساتھ ساتھ یورپ کے افکار نے بھی دنیا میں ایک ہیجان خیز صورتحال کو جنم دیا۔ چوں کہ مغرب میں مذہب کی ایک منفی تصویر ابھر کر سامنے آ گئی تھی، اس لئے تمام جنس مذاہب کو ایک ہی پیمانے سے ماپنے کی کوشش کی گئی۔ تاریخ کے اس موڑ پر پہنچتے پہنچتے مسلم دنیا کا ایک معتد بہ حصہ سیاسی طور پر یورپ کے آگے سرنگوں ہو چکا تھا۔ اس لئے اب افکار اور نظریات کی سطح پر بھی مسلمانوں نے یورپی اقوام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا شروع کیا۔

کمتری کے شدید احساس کے تحت مسلم اقوام نے نظریہ تانیثیت میں بھی مغربی اقوام کی نقالی کرنا شروع کی۔ یہاں پر اس بات کو واضح کرنا نہایت ضروری ہے کہ مسلم معاشروں میں بھی خاتون کے حقوق تلف ہوتے رہے ہیں اور خاتون اکثر ظلم و ستم کا شکار ہوتی رہی ہے۔ تاہم مسلم معاشرے کے اس رویے کا اسلام کے فکر اور نظریے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام کی اساسیات میں یہ بات شامل ہے کہ آدمؑ کو کسی صورت میں بھی حواؑ نے جنت سے نہیں نکلوایا۔

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حواؑ کسی طرح بھی آدمؑ سے کمتر نہیں ہیں۔ جس طرح آدمؑ شیطان کے بہکاوے میں آ گئے، بالکل اسی طرح حواؑ بھی اس ازلی دشمن کی ترغیب کا شکار ہو گئیں۔ از روئے الفاظ قرآنی: ”لیکن شیطان نے ان (دونوں ) کو بہکا کر وہاں (جنت) سے نکلوا ہی دیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔“ (البقرہ: 36 )

اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اخلاقی سطح پر جس طرح مرد شیطان کی کارستانی کا شکار ہو سکتا ہے اور ہو جاتا ہے، بالکل اسی سطح پر، نہ کم اور نہ زیادہ، ایک خاتون بھی شیطان کے بہکاوے میں آ سکتی ہے اور آ جاتی ہے۔ اس لئے قرآن نے دونوں کے لئے ایک ہی طرح کی حفاظتی تدبیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ واضح رہے کہ خالق کائنات نے اس ضمن میں کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں : ”مسلمان مردوں سے کہو اپنی کہ نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں۔ مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں۔“ (النور: 29۔ 30 ) اس حکم میں مرد کو مقدم رکھ کے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مرد اپنی عصمت کا خیال رکھے تاکہ خاتون خود بخود محفوظ ہو جائے۔

اگرچہ جسمانی اور نفسیاتی معاملات میں مرد اور خاتون کے درمیان فرق نمایاں ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ خاتون کی مجموعی صلاحیتیں مرد سے کمتر ہیں۔ خاتون اپنے اخلاقی وجود کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی میدان اپنی صلاحیتوں کو منواتی آئی ہے۔ اس بات کی طرف بھی قرآن حکیم نے واضح اشارے کیے ہیں۔ ”اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالٰی نے تم میں سے بعض کو بعض پر بزرگی دی ہے۔ مردوں کا اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ تعالٰی سے اس کا فضل مانگو۔“ (النساء: 32 )

تاہم تانیثیت کے کئی علم بردار اپنی آراء میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ ان کو خالق کائنات کی طرف سے خاتون کو عطا کی گئی جسمانی ساخت سے بھی شکایت ہے! یہی وجہ ہے کہ ان کی زبانوں سے ”میرا جسم، میری مرضی“ کے فقرے نکلتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ شاید انسان نے ایسے جملے صرف دور جدید میں سیکھے ہیں۔ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ ہزاروں سال قبل قوم لوط کے مردوں نے اپنے پیغمبر سے اسی طرح کی فرمائشیں کی تھیں۔ لوطؑ نے جب ان لوگوں سے اپنے جنسی داعیہ کی تسکین کے لئے نکاح کرنے کو کہا، تو ایسے لوگوں نے صاف انکار کیا اور کہا: ”انہوں نے جواب دیا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ ہمیں تو تیری بیٹیوں پر کوئی حق نہیں ہے اور تو ہماری اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے۔“ (ہود: 79 )

اسی طرح دور جدید کا انسان شاید اپنے مقابلہ حسن کی محفلوں (Beauty Concerts) پر اتراتا ہے۔ جدید انسان شاید بے خبر ہے کہ قدیم تہذیبیں اس معاملے میں اس سے کہیں آگے تھیں۔ کسی تقابل اور تشبیہہ کے بغیر ہم یہ کہہ سکتے ہیں خواتین مصر نے بڑی بے باکی سے وقت کے پیغمبر (یوسفؑ) کو اپنے سامنے حاضر کیا اور ”اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے!“ (یوسف: 31 ) واضح ہوتا ہے کہ اس قدیم تہذیب میں بھی خواتین اتنی آزاد اور بے باک تھیں جنتی شاید دور جدید کی خواتین نہیں ہیں۔

اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ خاتون اقدار کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اپنے جائز حقوق کی بازیابی کی پر زور جدوجہد جاری رکھے اور اس جدوجہد میں مرد شریفانہ انداز میں خاتون کا ساتھ دے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خاتون کو ایک خاندان کی ”غلامی“ سے نکال کر پورے معاشرے کی ہوا اور ہوس کا شکار کیا جائے۔ ایسا عین ممکن ہے ہے کیوں کہ نفسیاتی طور پر شرافت اور سادگی خاتون کے خمیر میں شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments