مصر میں محمد علی پاشا کا صنعتی انقلاب کیوں ناکام ہوا؟


دوسرا اور زیادہ اہم مشاہدہ یہ تھا کہ عسکری بالادستی کے لیے مضبوط معیشت ناگزیر ہے۔ جنگی اخراجات کے حوالے سے عثمانیوں کا فارمولا بہت سادہ تھا جو جنگی تاوان اور مال غنیمت پر انحصار کرتا تھا۔ مگر سن 1600 کے بعد سے فتوحات کا سلسلہ تقریباً رک گیا تھا، یوں جنگی بجٹ کا بہت بڑا حصہ بند ہو گیا، چار و ناچار سلطنت کی دیو ہیکل فوجی مشینری کو چلانے کا بوجھ ریاست کے عام شہریوں پر آن پڑا۔ اور ان میں سے بھی زیادہ مصیبت میں وہ آئے جو بہ وجوہ سیاسی طور پر کمزور طبقات سے تعلق رکھتے تھے یعنی لسانی اور مذہبی اقلیتیں، یونانی، آرمینیائی یہودی وغیرہ۔ یہ زیادہ تر تجارت پیشہ اور دست کار تھے۔ یوں تجارت اور صنعت کا گلہ گھٹ گیا جب کہ اشرافیہ سپاہیانہ پیشوں اور روایتی جاگیرداری میں مست رہی۔

یورپی ماڈل اس سے مختلف تھا۔ ایک تو وہاں فتوحات کا سلسلہ نہ تھما تھا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور افریقہ کی نوآبادیات سے دولت کا بہاؤ جاری رہا، اس لیے تاجر اور صنعت کار طبقے کو محصولات اور ٹیکس کی مد میں ناجائز دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ دوسرے یہ کہ چار براعظموں پہ پھیلی نوآبادیات کے انتظام و انصرام اور وہاں کے وسائل کے استحصال کے لیے درکار محنت اور سرمائے کی فراہمی اور پھر اس سے حاصل شدہ منافع کی تقسیم میں تاجر اور صنعت کار طبقہ حکمران اشرافیہ کا شراکت دار بن گیا۔ ان دونوں تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے محمد علی شاید اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ اس کے عزائم کی تکمیل کے لیے عسکری تنظیم نو کے شانہ بشانہ بلکہ اس سے دو قدم آگے معیشت کی تعمیر نو ضروری ہے۔ مگر سوال یہ تھا کہ شروع کہاں سے کیا جائے؟

مصر روایتی طور پر ایک زرعی معیشت تھا۔ رومیوں کے دور میں تو اسے سلطنت کا اناج گھر کہا جاتا تھا۔ مصر میں اس وقت تمام زرعی زمینیں التزامی نظام کے تحت طاقتور اشرافیہ کے زیر قبضہ تھیں۔ یہ طبقہ زمین پر کام کرنے والے مزارعین سے ٹیکس لے کر سرکاری خزانے میں جمع کراتا تھا لیکن کچھ اس طرح کہ جمع شدہ دولت کا بڑا حصہ انہی کے ہاتھ میں رہتا اور ریاست تک بہت کم پہنچ پاتا۔ عثمانیوں کے زیر حکومت تو یہ سلسلہ اڑھائی پونے تین سو سال تک کامیابی سے چلا مگر محمد علی کی سوچ مختلف تھی۔

وہ مقامی اشرافیہ کے ساتھ کسی ڈھیلے ڈھالے میثاق کی مدد سے شراکت اقتدار کے بجائے اختیار کی آخری سطح تک آہنی گرفت کے ساتھ موجودگی کا قائل تھا۔ اس کے طرز حکمرانی میں کسی خودمختار درمیانی طبقے کا وجود غیر ضروری تھا ، اس لیے اس نے التزامی زمینوں کو قومیا کر اس درمیانی طبقے کا خاتمہ کر دیا۔ اسی طرح وقف کی املاک (یہ بھی ایک طریقہ تھا جس کے ذریعے امراء اور مقامی سردار اپنی آمدنی سرکار سے چھپا لیتے تھے) پر بھی ٹیکس عائد کر دیا۔ ان دو ذرائع سے حاصل ہونے والی اضافی آمدنی محمد علی کے عسکری وژن کی تکمیل میں استعمال ہوئی۔

جدید اسلحے کے کارخانے بنے، اسکندریہ میں جہاز سازی کا کام شروع ہو گیا، فولاد کی فاؤنڈریاں اور سینکڑوں ورک شاپس کھل گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ یورپ خصوصاً فرانس سے صنعت اور حرفت کے ماہرین کو مصر بلوایا گیا، ان میں سے اکثر نپولین کی شکست کے بعد بے روزگار ہو گئے تھے۔ کئی ایک کو محمد علی نے پرکشش ملازمتیں دیں، انہیں میں سے ایک موسیور گیومیل بھی تھا جس نے مصری کپاس کا بیج متعارف کروایا۔ اس وقت تک محمد علی مصر میں قومیائی گئی التزامی زمینوں میں سے بہت بڑی زرعی اراضی کا مالک بن چکا تھا۔اور موسیور گیومل کے مشورے پر اس نے اپنی زمینوں پر اس نئی کپاس کی کاشت شروع کروا دی۔ نتیجہ بہت شاندار نکلا، انتہائی اعلیٰ کوالٹی کی اس کپاس نے یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں مصری کپاس کے نام سے دھوم مچا دی۔ دھڑادھڑ آرڈر ملنے لگے تو حکومت کے دیگر عہدے داروں نے بھی اپنی زمینوں میں مصری کپاس کی کاشت شروع کروا دی۔ ساتھ ہی ساتھ کپاس کی برآمد پر حکومتی اجارہ داری نے سرکاری خزانے میں تیزی سے اضافہ کر دیا کیونکہ عمال کپاس مارکیٹ سے سرکاری نرخوں پہ ارزاں خریدتے جسے بہترین منافع پر برآمد کر دیا جاتا۔

غیر معمولی شرح منافع کے ساتھ روز افزوں ترقی کا نتیجہ تھا کہ سال 1835 تک مصر کی برآمدات کا تقریباً نصف کپاس پر مشتمل تھا۔ مصری کپاس سے حاصل ہونے والی آمدنی نے ہی محمد علی کی عسکری اور اقتصادی اصلاحات کی راہ ہموار کی ، اس آمدنی کا بڑا حصہ تعلیمی اور صنعتی ترقی پر خرچ ہوا، ٹیکنیکل اور عسکری اسکول، ہر قسم کی ملیں اور ورکشاپس اور اسی قسم کی درجنوں چیزیں قائم ہوئیں اور پھلی پھولیں۔

بظاہر اس ساری سرگرمی کا محور تو محمد علی کا وہ عسکری ویژن تھا جس کے تحت وہ مصر کو ناقابل شکست فوجی قوت بنانا چاہتا تھا مگر اس دوران جو اقتصادی گہما گہمی پیدا ہوئی اس نے ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں مصر کو ایک نیم خوابیدہ قوم سے بدل کر ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا مگر یہ تو محض ابتدا تھی، خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں اس کی گھاگ کاروباری جبلت اب کپاس کی عالمی تجارت کی حرکیات کا مطالعہ کر رہی تھی اور اسے یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ اس تجارت میں اصل منافع کہاں ہے۔ یہ برطانیہ، بیلجیئم اور امریکہ کی ٹیکسٹائل ملیں تھیں جہاں مصر کی خام کپاس سے ملبوسات تیار ہوتے اور ناقابل یقین شرح منافع پر فروخت ہوتے۔ چنانچہ اس نے یورپی مشینیں خرید کر مصر میں ٹیکسٹائل ملیں لگانے کا فیصلہ کر لیا۔

1826 میں برطانیہ سے پانچ سو پاور لومیں اس مقصد کے لیے درآمد کی گئیں۔ یہ واقعتاً ایک انقلابی جست تھی، عسکری اور زرعی اصلاحات سے بڑھ کر باقاعدہ صنعتی انقلاب جو کسی بھی غیر مغربی ملک کی طرف سے جدید معیشت کی طرف اولین پیش قدمی تھی۔ اور جیسا کہ بعد میں ہوا ، یہی سب کچھ محمد علی اور اس کے خاندان کے فوری عروج اور پھر زوال کا باعث بھی بنا۔

محمد علی کے اس منصوبے نے ابتدائی دس برسوں میں کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ جس کے آگے خود اس کی اپنی سابقہ کامرانیاں ماند پڑ گئیں۔ کبھی ایسا نہیں لگتا تھا کہ محض چند برس پیشتر اس سرزمین پہ خالی ہاتھ قدم رکھنے والا سپاہی پورے خطے کی قسمت بدل دے گا۔ 1834 تک مصر ٹیکسٹائل کی پیداوار میں دنیا میں چھٹے نمبر پر آ چکا تھا۔ جب تک اس کے یورپی مد مقابل جاگے مصر کی نوزائدہ صنعت اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی تھی۔ تاہم 1838 میں برطانیہ کی قیادت میں یورپی طاقتوں نے مصر کو حفاظتی محصولات سے محروم کر دیا جو اب تک اس کی نوزائیدہ صنعت کو بین الاقوامی مسابقت سے محفوظ رکھے ہوئے تھے۔

یہ اگرچہ پہلا دھچکا تھا جو محمد علی کے صنعتی انقلاب کو لگا مگر زوال کے آثار 1840 کی پوری دہائی میں نمایاں ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ  سال 1845 میں مصر کا مالیاتی خسارہ 80 ملین فرانک تک جا پہنچا۔ محمد علی کی زندگی کے آخری برسوں میں مصر کی ٹیکسٹائل صنعت رو بہ زوال ہو چکی تھی۔ بعد میں اسے ایک مختصر سنبھالا امریکی خانہ جنگی کے دوران کپاس کے بحران کے سالوں میں ملا مگر اس کے بعد پھر وہی ترقی معکوس سفر جاری رہا۔

محمد علی کے صنعتی انقلاب کی ناکامی کی وجوہات پر خاصی بحث ہو چکی ہے۔ کچھ مؤرخین کے بقول یہ مغربی طاقتوں کے دباؤ اور معاشی ناکہ بندیوں کی وجہ سے ہوا جس کے لیے فوجی مداخلت تک کی گئی۔ مگر یہ بڑی حد تک ایک رومانوی نظریہ ہے۔ مصر کے صنعتی انقلاب کی ناکامی کی وجوہات خارجی سے زیادہ داخلی تھیں۔ سب سے بڑی وجہ کپاس اور ٹیکسٹائل پر حد سے بڑھا ہوا انحصار تھا۔ یہ بڑی حد تک تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ریاستوں سے مماثل صورتحال تھی جہاں معیشت کا پہیہ پیداوار کے ایک ہی شعبے کے گرد گھوم رہا تھا اور ساری اقتصادی گہما گہمی کا انحصار اسی سے حاصل ہونے والی آمدنی پر تھا۔

دنیا میں جہاں کہیں بھی صنعتی انقلاب آیا، وہاں اگرچہ شروعات ایک دو صنعتوں سے ہی ہوئی مگر اس میں وقت کے ساتھ ساتھ پھیلاؤ اور تنوع آتا گیا۔ تنوع (diversification) کے بغیر حقیقی معاشی ترقی ناممکن ہے۔ دیرپا معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ صنعتی پیداوار کو متنوع کیا جائے جو اس دور کے مصر میں ناممکن تھا۔ کیونکہ ایک متنوع صنعتی انقلاب کے لیے جس بنیادی ڈھانچے اور پیشہ ورانہ مہارتوں کی حامل افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ناپید تھیں۔ گو محمد علی نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ٹیکنیکل اسکول اور ورک شاپس بنائیں مگر یہ ناکافی ثابت ہوئیں۔

ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا معاشرہ ایسی سماجی تبدیلیوں کے لیے آمادہ تھا جو نئے اقتصادی ماحول میں کارآمد ثابت ہوں۔ محمد علی کے ایما پر مصر آنے والے یورپی ماہرین میں سے بہت سوں نے اس سرزمین پر اپنے تجربات کو قلم بند کیا ہے۔ ان تحریروں میں اس زمانے کے مصر کے معاشرتی اور سماجی حالات کی جو جھلکیاں ملتی ہیں وہ اتنی خوش کن نہیں ہیں۔ ہم اگر ان آراء کو ایڈورڈ سعید کے الفاظ میں معروضیت سے عاری اور متعصبانہ کہہ کر نظر انداز کر بھی دیں تو بھی یہ بات صاف تھی کہ طرز کہن پہ اڑا ہوا مصری معاشرہ ایک ایسے خالص مغربی انقلاب کے لیے تیار نہیں تھا جو ابھی اس کے تجربے کا حصہ نہ بنا تھا۔

یہاں پر ایک دلچسپ تقابل جاپان کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور قدامت پسند اور روایتی معاشرہ جہاں معاشی اور سماجی اصلاحات کا آغاز مصر کے تقریباً پچاس برس بعد 1867 میں ہوا، مگر مصر کے برخلاف یہ انقلاب کامیاب ہوا اور جاپان بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا کی بڑی معاشی اور عسکری قوت بن کر نمودار ہوا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مصر ہی طرح یہ انقلاب بھی حاکم وقت شہنشاہ میجی کے زیر حکومت انجام پذیر ہوا۔ دو پہلو خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

اول یہ کہ مصر کے برخلاف جاپان میں یہ انقلاب محض حاکم وقت کے ویژن یا سرکاری پالیسی تک محدود نہ رہا بلکہ عوام کے ہر طبقے میں قبول عام کا درجہ پا کر ایک ہمہ گیر سماجی تبدیلی کا باعث بنا۔ دوئم یہ کہ شومئی قسمت سے مصر عالمی سیاست اور تجارت کے قلب میں واقع ہونے کی وجہ سے غیر ملکی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار رہا، دوسری جانب جاپان کی جغرافیائی تنہائی نعمت ثابت ہوئی اور اسے سیاست عالم کے بکھیڑوں سے الگ رہ کر ترقی کا موقع مل گیا۔

رہی سہی کسر محمد علی کے سامراجی عزائم نے پوری کر دی۔ خلافت عثمانیہ کے عرب صوبوں میں جنگی مہمات اور خود استنبول پر دو مرتبہ یلغار نے ریاست کے بے تحاشا وسائل چوس لیے، اس جنگجو پالیسی کے نتیجے میں اسے بالآخر مصر کا خودمختار بادشاہ تو تسلیم کر لیا گیا مگر وہ سرمایہ جو معاشی ترقی پر خرچ ہو سکتا تھا ان جنگوں کی نذر ہو گیا۔ پھر 1856 میں نہر سوئز کی تعمیر کا منصوبہ شروع ہوا جو مصر کی معیشت کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہوا اور جس نے بالآخر ملک کو دیوالیہ کر کے برطانیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

کامیابی اور ناکامی کی بحث سے قطع نظر یہ ماننا پڑے گا کہ محمد علی پاشا کا صنعتی انقلاب ایک بہت بڑی اور تاریخی پیش رفت تھی جو اپنے زمانے سے سو برس آگے تھی۔ وہ اپنے معاصرین جمال الدین افغانی اور سرسید احمد خان کی طرح کسی اصلاحی تحریک کا داعی نہ تھا، اس کا مطمح نظر تو محض اپنی اور اپنے خاندان کی بادشاہت قائم کرنا تھا (جس میں کامیاب بھی رہا) تاہم اس کا صنعتی ترقی کے ذریعے وسیع البنیاد قومی خوشحالی کا ویژن اپنے مطلوبہ نتائج پیدا نہ کر سکنے کے باوجود آنے والی نسلوں کے لیے صحیح سمت کا تعین ضرور کر گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments