دو نہیں، ایک پاکستان یعنی نیا پاکستان


پاکستان تحریک انصاف جو کہ یہ نعرہ لگا کر میدان میں اتری کہ یہاں ایک نہیں دو پاکستان ہیں ، ایک غریب کے لیے اور ایک امیر کے لیے ہے جو کہ نا انصافی ہے اور اب دو نہیں ایک پاکستان ہو گا اور وہ ہو گا ’نیا پاکستان‘ ، عمران خان کی اس سوچ نے عوام کو جہاں حد درجہ متاثر کیا وہیں ان کو بھی شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور شاید یہی ان کا مطمح نظر تھا۔

اس کے علاوہ بھی ان کے منشور میں کئی محیرالعقول باتیں شامل تھیں جیسے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں مگر ان کو فی الحال نظر انداز کر لیں اور اسی ایک بات پہ توجہ مرکوز کریں تو کیا پاکستان تحریک انصاف نے ”ایک نہیں دو پاکستان“ کے مقابلے میں اپنے نعرہ ”دو نہیں ایک پاکستان۔ نیا پاکستان“ پر کس حد تک عمل کیا ہے؟

2018ء کے سینٹ الیکشن کی ویڈیو جو کہ خود پاکستان تحریک انصاف نے پھیلائی، جس میں پیسے لے کر بکنے والے بھی پاکستان تحریک انصاف کے لوگ ہیں ، کیا ان کو بھی پارٹی سے نکال دیا؟ وہ آج بھی سینٹ انتخاب میں حکومتی وزراء کے ساتھ پارٹی کرتے نظر آتے ہیں مگر خان کسی کو این آر او نہیں دے گا۔ دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان۔

پہلے اگر کسی بھی اور جماعت کا کوئی رکن پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتا تو ببانگ دہل یہ اعلان کیا جاتا کہ ایک اور وکٹ گر گئی اور اگر آج وہی ارکان واپسی کا سوچتے ہیں تو کرپٹ ہیں ، میں ان کو نہیں چھوڑوں گا۔ دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان۔

سینٹ کے حالیہ الیکشن میں جناب حفیظ شیخ کی شکست اس وجہ سے ہوئی کہ ہمارے سولہ ارکان بک گئے اور بکنے والوں کو تو خان چھوڑتا ہی نہیں، ہاں مگر ان سے اعتماد کا ووٹ لے کر انہیں معافی دی جا سکتی ہے تاکہ کرسی سلامت رہے۔ اور اب وہ ووٹ بھی مل گیا۔ وزیراعظم زندہ باد۔ دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان۔

غریب و مجبور سرکاری ملازمین اور اساتذہ جو کہ ہمارے سروں کے تاج ہونے چاہیے تھے ، وہ سڑکوں پر مطالبات لے کر نکلے تو ان پر ایکسپائرڈ آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے اور جب بک جانے والے ممبرز سمیت اپنی ہی پارٹی کے تمام ارکان سے اعتماد کا ووٹ لیا جا رہا تھا تو تحریک انصاف کے چند کارکن پورے اسلام آباد میں دندناتے پھر رہے تھے اور پولیس صرف تماشائی بنی ہوئی تھی۔ اور تو اور اپوزیشن کے ارکان پر حملہ بھی کر دیا اور وہ بھی پارلیمنٹ لاجز کے باہر مگر ان کو سب معاف ہے کیونکہ یہ ’دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان‘ ہے۔

جمہوریت کا حسن ہی خفیہ ووٹنگ میں ہوتا ہے تاکہ ہر کوئی بغیر کسی دباؤ کے اپنا ووٹ کا حق استعمال کر سکے۔ اگر اوپن ووٹنگ ہو تو کوئی بھی اپنی مرضی سے ووٹ ہی نہیں ڈال سکتا اور سینٹ کے لیے ووٹنگ تو پھر سرے سے ہی بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہے کیونکہ جس جماعت کے جتنے ارکان ہوں گے وہ حتمی طور پر اس کے ووٹ ہوں گے اور اسی حساب سے فیصلہ بھی ہو جائے گا۔

اپوزیشن کے تمام کیسز پر جب نیب کوئی فیصلہ لیتا ہے تو پورے کر و فر کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ یہ کیسز بھی ہم نے نہیں بنائے اور نیب کا چیئرمین بھی انہیں کا لگایا ہوا ہے۔ بالکل ٹھیک بات مگر اپنے ہی پسندیدہ چیف الیکشن کمیشن بہت برے لگے جب انہوں نے ڈسکہ میں ری الیکشن کا فیصلہ کیا اور سینٹ میں ہار ہو گئی مگر الیکشن کمیشن نے اوپن بیلیٹنگ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان۔

ابھی تو چند ایک مثالیں دی ہیں ’دو نہیں ایک پاکستان‘ کے حق میں اگر اب بھی کسی کو یہ یقین نہیں آتا کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ’دو نہیں ایک پاکستان یعنی نیا پاکستان‘ بنا تو نہ آئے ، مجھے تو پورا یقین ہے کہ واقعی پہلے کی طرح اب دو نہیں ایک ہی پاکستان ہے جو کہ نیا پاکستان ہے اور وہ کسی غریب کا نہیں، کسی اپوزیشن والے کا نہیں، کسی استاد کا نہیں، کسی سرکاری ملازم کا نہیں، کسی کاشت کار کا نہیں اور نہ ہی کسی عام آدمی کا ہے بلکہ وہ پاکستان صرف اور صرف پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہر اس وزیر کا ہے جو اپنے حلقے میں اکیلا جانے کے قابل نہیں رہا، وہ ان امپورٹڈ مشیروں کا ہے جو کسی بھی وقت اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اپنے رہائشی ملک جا سکتے ہیں، وہ ان ارکان کا ہے جو کسی اچھی پوزیشن کے انتظار میں ہیں اور ان ٹائیگرز کا ہے جو صرف خان کی محبت میں ہلکان ہیں اور صرف خان کو ہی اپنا مسیحا اور آخری امید تصور کیے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments