انسپکٹر میاں عمران عباس: مشکل حالات سے گزر کر ترقی پانے والے افسر جو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے


’عمران جیسا بیٹا، والد اور خاوند شاید دنیا میں کوئی دوسرا نہیں ہوگا۔ شادی کے اتنے برسوں میں مجھے نہیں یاد کہ انھوں نے کبھی مجھ سے تلخ کلامی کی ہو۔ وہ جتنے بھی مصروف ہوتے اپنی والدہ کی خیر خیریت ضرور پوچھتے تھے۔ جس وقت بھی گھر آتے سب سے پہلے والدہ کے کمرے میں جاتے۔ ان کی ٹانگیں دباتے، پھر بچوں کے پاس آتے تھے۔‘

ان خیالات کا اظہار پنجاب کے شہر راولپنڈی میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے پولیس انسپکٹر میاں عمران عباس کی اہلیہ طیبہ عمران نے کیا۔

طیبہ عمران کا کہنا ہے کہ عمران کی والدہ اپنے خاوند اور ان کے سسر کا دکھ اپنے بیٹے کی کامیابیوں اور پوتے، پوتیوں کے ساتھ بھول چکی تھیں، مگر اب یہ دکھ پھر سے تازہ ہوگیا ہے۔

’جہاں پر میری ساس کو اپنے بیٹے کا غم کھائے جارہا ہے وہاں پر ان کو اب اپنے خاوند محمد عباس کی یاد بھی ستا رہی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ’مجھے سمجھ نہیں آتا کہ محنت مشقت کر کے اپنے بیٹے کو پالنے والی ماں اب کس طرح اپنے جوان بیٹے کا غم بھول پائے گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

’جب پولیس نے یتیم کی رخصتی کروائی‘

پھوپھی کو شادی سے نکالنے کے لیے بھتیجے نے پولیس بلا لی

’احترام کے دائرے‘ میں رہنے پر پولیس اہلکار کی تعریفیں، خاتون کے خلاف مقدمہ درج

طیبہ عمران نے وقوعہ والے روز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اکثر اوقات تو اس طرح ہوتا کہ وہ منصوبہ بناتے، بچوں کو کہتے مگر پھر عمران کی کوئی نہ کوئی مصروفیت نکل آتی تھی جس پر وہ بڑی مشکل سے بچوں کو بہلاتی تھیں۔

’مگر وقوعہ والے روز پتا نہیں کیا ہوا کہ عمران بچوں کو ساتھ لے کر چلے گئے تھے۔ میں سوچتی ہوں کہ پتا نہیں مجھے کیوں چھوڑ گئے۔ میں نے تو کبھی بھی عمران کو تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ اگر اس دن بھی میں ان کے ساتھ ہوتی تو یہ گولیاں میں اپنے سینے پر کھاتی۔

’بچے ابھی تک عجیب و غریب صورتحال کا شکار ہیں۔ ان کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ وہ بالکل گم صُم ہیں۔‘

انسپکٹر عمران عباس کے قتل کا واقعہ

پولیس انسپکٹر میاں عمران عباس کو سات مارچ کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب وہ اپنے بچوں کے ہمراہ مونال ریسٹورنٹ صدر راولپنڈی سے لنچ کرنے کے بعد واپس جا رہے تھے۔

میاں عمران عباس کے قتل کا مقدمہ ان کے ایک ساتھی پولیس انسپکٹر اور ایس ایچ او تھانہ کینٹ راولپنڈی اعزاز عظیم کی درخواست پر درج کیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ اُن کا میاں عمران عباس ایس ایچ او تھانہ ریس کورس سے کوئی ساڑھے چار بجے کے قریب رابطہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اُنھیں میاں عمران عباس نے کہا کہ وہ بچوں کے ہمراہ ریسٹورنٹ پر آئے ہوئے ہیں، یہاں سے فارغ ہو کر بچوں کو گھر چھوڑیں گے اور پھر اکھٹے ہوجائیں گے۔

اعزاز عظیم نے درج مقدمہ میں کہا ہے کہ جب میاں عمران عباس اپنے خاندان کے ہمراہ ریسٹورنٹ سے باہر نکلے تو وہ سب انسپکٹر محسن حیات اور اے ایس آئی سرور کے ہمراہ ان کے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب اُن کی گاڑیاں جم خانہ راولپنڈی کے قریب پہنچیں تو موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے فائرنگ کردی۔

ایف آئی آر کے مطابق گاڑی بے قابو ہو کر فٹ پاتھ سے ٹکرا گئی۔ اُن لوگوں نے ملزمان کا پیچھا کیا مگر وہ رش کا فائدہ اٹھا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اس واقعے میں ان کے بچے محفوظ رہے ہیں۔

اعزاز عظیم نے درج مقدمہ میں کہا ہے کہ وہ اور میاں عمران عباس ایک ہی سرکل میں فرائض انجام دے رہے تھے جس وجہ سے اُن کے علم میں ہے کہ میاں عمران عباس انتہائی حساس مقدمات کی تفتیش کر رہے تھے۔

بی بی سی کو راولپنڈی پولیس کے افسران نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ میاں عمران عباس تین پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ دہشت گردی کے دو اور واقعات کی تفتیش کر رہے تھے۔ یہ کیسز انھیں پنجاب پولیس کے اعلیٰ حکام نے خصوصی ہدایت کے ساتھ سونپے تھے۔ افسران بتاتے ہیں کہ ان کیسز کے دوران میان عمران عباس نے ’دن رات ایک کر دیے تھے‘۔

پولیس افسران کے مطابق ’ان کے اپنے والد ایک انکاؤنٹر کے دوران ہلاک ہوئے تھے جس وجہ سے وہ اس حوالے سے انتہائی جذباتی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تین پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ کی تفتیش میں وہ بہت آگے نکل گئے تھے اور ان کے ہاتھ بہت سے اہم ثبوت لگ گئے تھے۔‘

ایک پولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ ان کے علم میں ہے کہ ’میاں عمران عباس اگر کچھ دن اور زندہ رہتے تو اپنی تفتیش پر اعلیٰ افسران کو اعتماد میں لیتے ہوئے شاید ملزمان کو گرفتار کرلیتے۔‘

ایک اور پولیس افسر کا کہنا تھا کہ میاں عمران عباس کو بالواسطہ طور پر دھمکیاں بھی مل رہی تھیں مگر ’انھوں نے کبھی پرواہ نہیں کی تھی۔‘

انسپکٹر میاں عمران عباس کون تھے؟

سرکاری ریکارڈ کے مطابق انسپکٹر میاں عمران عباس 1979 میں پاک پتن میں پیدا ہوئے تھے۔ سنہ 1990 میں ان کے والد انسپکٹر محمد عباس راولپنڈی ضلع میں بحیثیت انسپکٹر فرائض انجام دیتے رہے تھے۔ اس دوران ڈاکوؤں سے ایک مقابلے میں وہ ہلاک ہو گئے تھے۔

انسپکٹر میاں عمران عباس نے 1998 میں راولپنڈی پولیس میں بطور اے ایس آئی شمولیت اختیار کی تھی۔ اس دوران مختلف مقامات پر زیادہ تر راولپنڈی ڈویژن ہی میں تعینات رہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق انھیں بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کرنے پر مجموعی طور پر 92 انعامات سے نوازا گیا تھا۔

مقتول انسپکٹر نے سوگواران میں بیوہ، دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو چھوڑا ہے۔

میاں عمران عباس کا اپنی آخری ویڈیو میں کیا کہنا تھا؟

پولیس انسپکٹر میاں عمران عباس نے پنجاب پولیس کی تیار کی گئی اپنی ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ ’تقریباً 20 سال گزر چکے ہیں اور اب بھی اُن کی پہچان یہی ہے کہ وہ انسپکٹر میاں محمد عباس کے بیٹے ہیں۔

میاں عمران عباس نے اپنی ویڈیو میں کہا تھا کہ اُن کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اُنھوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی۔

میاں عمران عباس کا کہنا تھا کہ اُن کی والدہ پڑھی لکھی نہیں تھیں مگر انھوں نے بڑا جراتمندانہ اور عقلمندانہ فیصلہ لیا کہ وہ واپس پاک پتن کے گاؤں نہیں جائیں گی بلکہ اپنے بچوں کو راولپنڈی ہی میں تعلیم و تربیت دیں گی۔

’اس کے بعد بحیثیت اے ایس آئی پولیس فورس کو جوائن کیا۔ اس کے بعد سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پائی اور اب بحیثیت انسپکٹر اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں۔‘

میاں عمران عباس کا کہنا تھا کہ اُن کے دو چھوٹے بچے اور اہلیہ اس سے پہلے اُن کے والد کی ہلاکت کی وجہ سے ہمہ وقت فکر مند رہتے تھے مگر اُن کے لیے باعثِ اطمینان یہ ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی بڑی محنت سے انجام دیتے ہیں۔

’جنرل قمر باجوہ صاحب نے بھی ہمیں عزت بخشی ہے اور ہمارے گھر تشریف لائے ہیں۔ یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔‘

عمران نے بڑے مشکل دن دیکھے تھے

انسپکٹر میاں عمران عباس کے چچا زاد بھائی محمد اکرام کا کہنا تھا کہ انسپکٹر میاں عمران عباس کے والد کی ہلاکت کے بعد ان کے خاندان نے بڑے مشکل حالات دیکھے تھے۔

محمد اکرام کا کہنا تھا کہ انسپکٹر میاں عمران عباس کی والدہ نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اب پاک پتن نہیں جائیں گی اور راولپنڈی ہی میں رہائش رکھیں گی۔

’درحقیقت اس فیصلے کا مقصد اپنے بچوں کو پڑھانا تھا۔ جس کے لیے انھوں نے ہر قربانی دی۔‘

اُنھوں نے بتایا کہ میاں عمران عباس چھوٹی عمر ہی میں ’پولیس شہداء‘ پیکج کے تحت اے ایس آئی بھرتی ہو گئے تھے مگر بھرتی ہونے کے بعد بھی انھوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ جلدی ترقی پا گئے تھے۔

محمد اکرام بتاتے ہیں کہ پولیس فورس سے ان کا لگاؤ صرف پیشہ ورانہ نہیں بلکہ جذباتی تھا۔ ’جب بھی وہ کوئی ایسی بات سنتے کہ کوئی پولیس اہلکار ہلاک ہوگیا ہے تو جذباتی ہوجاتے تھے۔‘

محمد اکرام بتاتے ہیں کہ عمران عباس کی والدہ ہر وقت اپنے بیٹے کا صدقہ دیا کرتی تھیں۔ ’عمران عباس جب باہر جاتے تو تائی جان مصلہ بچھا کر بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ ہر تھوڑی دیر بعد اپنی بہو سے کہتیں کہ عمران کو فون کریں۔ عمران بھی انتہائی مصروفیت کے باوجود اپنی ماں کے فون کا جواب ضرور دیتے تھے۔

’تائی جان کو جب بیٹے کو گولی لگنے کی اطلاع ملی تو وہ بے ہوش ہوگئیں۔ وہ ساری رات اپنے بیٹے کے تابوت پر سر رکھ کر روتی رہیں۔ بس ایک ہی جملہ کہتی رہیں کہ پہلے تمھارا باپ مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور اب تم بھی چلے گئے، میں کس کے سہارے زندہ رہوں گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp