اللہ بیٹی دے تو نصیب بھی اچھا دے


خودکشی کا ارتکاب ہر اعتبار سے انتہائی نوعیت کا اقدام ہے۔ کوئی بھی انسان، عورت ہو یا مرد، نارمل حالات کے تحت خودکشی جیسا انتہائی اقدام نہیں کر سکتا۔ خودکشی کا اقدام بظاہر دو متضاد پہلو رکھنے والا عمل ہے، یہ کئی لحاظ سے آسان بھی ہے اور بعض لحاظ سے مشکل بھی۔ یہ کئی معنیٰ میں بزدلی والا کام بھی ہے اور بعض اعتبارات سے ہمت والا عمل بھی۔

مشکل اس لحاظ سے ہے کہ جان آسانی سے نہیں نکلتی، جب روح بدن کو چھوڑ کر عالم ارواح کی طرف گامزن ہوتی ہے تو انسان بلکہ ہر ذی روح بہت تکلیف محسوس کرتا ہے۔ جان دینا ایک مشکل کام ہے، اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ کوئی بھی نارمل آدمی اور ذہنی طور پر صحت مند انسان زندگی کی طویل کشاکش اور موت کی چند لمحوں کی تکلیف کے درمیان موت کی تکلیف کو نہیں چنتا۔ کیونکہ یہ ایک مشکل ٹاسک ہے۔

موت کو چننا ایک صحت مند انسان کے لیے جوکھم بھرا کام ہے۔ ذہنی طور پر صحت مند انسان اگر اپنے گھر کی چوتھی پانچویں منزل سے نیچے جھانک کر دیکھے گا تو وہ خوف سے بھر جائے گا۔ مگر خود کشی کا ارادہ رکھنے والا، بچہ، جوان اور بوڑھا، بڑی آسانی سے نیچے کود جائے گا۔ انجام کی پروا کیے بغیر اور ایک لمحہ گنوائے بغیر۔

البتہ خودکشی کا اقدام آسان اس لحاظ سے ضرور ہے کہ موت کی تکلیف بیشتر واقعات میں لمحاتی ہوتی ہے جبکہ زندگی کی مشکلات کا سلسلہ بعض دفعہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اسی لیے جگرؔ نے جان دینے کو قرار آنے سے تعبیر کیا ہے:

جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا

خود کشی کا یہ انتہائی اقدام اپنی انہیں مذکورہ نوعیتوں کے لحاظ سے بزدلانہ اور حوصلے والا کام بھی ہے۔ کوئی بھی آدمی پانی اور آگ کی موت کی تکلیف کے تصور سے ہی کانپ اٹھتا ہے، کوئی بھی انسان جان بوجھ کر آگ یا پانی میں کودنا نہیں چاہے گا۔ یہ تو اندرونی کیفیات کی شدت ہوتی ہے جو انسان کو ایسا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ باطنی کیفیات کی یہ شدت کبھی مثبت بھی ہوتی ہے اور کبھی منفی بھی۔ کبھی آدمی شوق شہادت میں بھی جان دیتا ہے اور کبھی زندگی کی کشاکش سے گھبرا کر۔

یہ عجیب ٹریجڈی ہے کہ آدمی موت سے گھبرا کر بھاگتا ہے، مگر موت کی ہی طرف بھاگتا ہے۔ یہ فی الحقیقت موت کی ایک شکل سے اس کی دوسری شکل کی طرف بھاگنا ہے۔ حالانکہ کئی بار موت کی جس شکل کی طرف وہ بھاگ رہا ہوتا ہے، وہ اس موت کی تکلیف سے کسی بھی طرح کم نہیں ہوتی جس طرح کی موت سے وہ گھبرا کر اور ڈر کر بھاگ رہا ہوتا ہے۔ جلیاں والا باغ کے واقعے میں یہ بھی ہوا کہ لوگ بندوق کی گولی سے گھبرا کر بھاگے اور کنویں میں کود گئے۔ حالانکہ کنویں والی موت کا انتخاب آسان انتخاب نہ تھا۔ بات تو یہ بھی ہے کہ وہاں انتخاب کا موقع ہی کہاں تھا۔ جب آدمی گھبرا جاتا ہے تو سوچ کا عمل رک جاتا ہے اور آدمی کے لیے بہتر انتخاب کا موقع نہیں بچتا۔

خود کشی کا واقعہ بے شک لمحاتی ہوتا ہے، چند منٹوں میں ہی یہ عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ مگر یہ تو اس کا ظاہری پہلو ہے۔ باطنی پہلو یہ ہے کہ خودکشی کا رجحان کبھی بھی یک بیک پیدا نہیں ہوتا، یہ سالہا سال پر محیط زندگی کی کشاکش اور ناقابل برداشت ذہنی و جسمانی تکلیف کا تتمہ ہوتا ہے۔ مگر دوسرے لوگ ذہن میں چلنے والے جنگ جیسے حالات کا ادراک نہیں کر پاتے، اس لیے انہیں لگتا ہے کہ ابھی تو آدمی ٹھیک ٹھاک تھا اور ابھی اس نے یہ انتہائی اقدام کر ڈالا۔

خودکشی کے اس انتہائی اقدام میں کوئی ضروری نہیں ہے کہ کوئی ایک ہی واقعہ، حادثہ یا ایک ہی نوعیت کی تکلیف رہی ہو۔ اکثر و بیشتر جب انسان پر زندگی چاروں طرف سے تنگ ہو جاتی ہے اور وہ زندگی کے ہر محاذ پر خود کو پھسلتا ہوا محسوس کرتا ہے تو وہ اس انتہائی اقدام کے بارے میں سوچتا ہے۔ بے شک وہ سوچتا ضرور ہے کہ سوچ کے بغیر کوئی عمل نہیں، مگر وہ زیادہ نہیں سوچتا۔ وہ خودکشی کے اقدام کے نتائج پر غور نہیں کرتا۔ بلکہ ایک ہی طرح کی ذہنی رو کے تحت یہ اقدام کر ڈالتا ہے۔ اگر اسے سوچنے کا موقع مل جائے کہ اس کے بعد اس کے شیر خوار بچوں کا کیا ہو گا، اگر خودکشی کے اقدام میں موت مقدر نہ ہوئی تو زندگی بھر اپاہج بن کر رہنا پڑے گا اور معاشرے میں ایسی شرمندگی کے ساتھ جینا پڑے گا کہ اس کی کسی بھی طرح بھرپائی نہیں ہو سکتی۔

عام طور پر آدمی اپنے اس انتہائی اقدام کی سوچ کو مخفی رکھتا ہے، یہاں تک کہ اپنے بہت ہی قریبی دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی اسے بیان نہیں کرتا۔ کیونکہ اس میں یا تو اس کے لیے رسوائی ہے یا پھر اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ کوئی بھی دوست اور رشتہ دار حتیٰ کہ دشمن بھی اسے ایسا کرنے کی صلاح نہیں دے سکتا۔ اور آدمی اسی وقت کسی سے نجی قسم کے معاملات میں صلاح و مشورہ کرتا ہے جب اسے کم از کم ایک فیصد یہ امید ہوتی ہے کہ اس کی تائید کی جائے گی اور اس کا حوصلہ بڑھایا جائے گا، اسی لیے آدمی خودکشی کے اقدام کے معاملے میں کسی سے مشورہ بھی نہیں کرتا۔ بلکہ جتنے بھی گناہ کے کام ہیں آدمی ان میں دوسروں سے صلاح و مشورہ نہیں کرتا کیونکہ اسے پتا ہوتا ہے کہ اسے سختی کے ساتھ روک دیا جائے گا، اس کا مذاق اڑایا جائے گا یا پھر اسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنی اس سوچ کو ختم کر دے۔ اور آدمی یہ نہیں چاہتا۔ بھلے ہی ایسا کر کے اسے نقصان اٹھانا پڑے۔

دنیا کے ہر مذہب میں اور خاص طور پر اسلام میں، بلکہ دنیا کے ہر انسانی معاشرے میں خود کشی کو ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے، کیونکہ یہ ایک منفی عمل ہے۔ اسلام میں اس عمل کی نفی کی کئی وجوہات ہیں، ایک تو یہی ہے کہ جان اللہ کی طرف سے عطا کی گئی ایک نعمت ہے اور نعمت کی ناقدری کرنا غلط ہے، جان ہر ذی روح کے پاس اللہ کی امانت ہے اور امانت میں خیانت کرنا درست نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب جان آپ کی اپنی نہیں ہے تو آپ کو یہ اختیار بھی نہیں ہے کہ آپ اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے لیں۔

زندگی دینا اور جان لینا دونوں اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اپنی زندگی تو آپ خود سے پیدا نہیں کر سکتے مگر اللہ نے جو تھوڑا بہت اختیار آپ کو دے رکھا ہے آپ اس اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لے سکتے ہیں۔ بس یہ ہے کہ آپ ایک کوشش کرتے ہیں اور اللہ اسے قبول کر لیتا ہے ورنہ فی نفسہ آپ اپنی جان بھی نہیں لے سکتے، جس طرح آپ اپنی زندگی خود پیدا نہیں کر سکتے، اسی طرح آپ اپنی جان بھی نہیں لے سکتے۔

اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ اسلام انسانی معاشرے کی صحت وعدم صحت کے حوالے سے بہت حساس ہے، وہ کسی بھی انسان کو بطور خاص مسلمان کو اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے کسی عمل سے معاشرے کی صحت کو خراب کرے۔ اس لیے اسلام خودکشی کو ناپسندیدہ سمجھتا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے اوپر ذکرکیا کہ خودکشی کا اقدام بزدلی کا کام بھی ہے۔ اور اسلام نہیں چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والوں میں بزدلانہ عناصر جمع ہوں۔

گزشتہ دنوں احمد آباد کی رہنے والی ایک نوعمر شادی شدہ لڑکی عائشہ کے اقدام خودکشی کے واقعے نے پورے ملک میں ہنگامہ پیدا کر دیا ہے۔ خاص کر مسلمان اس واقعے کو لے کر بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ خاص طور وہ والدین جن کے آنگن میں کئی کئی بیٹیاں ہیں اور زندگی کے اسباب ناپید ہیں۔ ان کی آنکھوں میں نہ صرف عائشہ کے لیے آنسو ہیں بلکہ خود اپنے آنگن میں ہنستی کھیلتی بچیوں کے مستقبل کے حوالے سے بھی ان کے دل مضطرب اور بے چین ہیں۔

چونکہ عائشہ کے واقعے میں جہیز کے مطالبے والی بات بڑی کثرت کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے، اس لیے بچیوں کے والدین کی اللہ سے یہی دعا ہے کہ اللہ نے انہیں بچیاں دی ہیں تو یہ اچھی بات ہے مگر اللہ انہیں نصیب بھی اچھا دے۔ مائیں اکثر کہتی نظر آتی ہیں کہ ”اللہ بیٹی دے تو نصیب بھی اچھا دے“ بیشک ماؤں کے یہ الفاظ درد انگیزہیں۔ مگر بات یہ ہے کہ اللہ تو سب کو ہی اچھا نصیب دیتا ہے، البتہ یہ انسانی معاشروں کے اپنے اعمال اور رسومات ہیں جو کسی کے نصیب کو اچھا یا برا بناتے ہیں۔

جب کوئی سماج بیٹیوں کو ان کے جائز حقوق نہیں دے گا، انہیں پڑھنے لکھنے کے مواقع فراہم نہیں کرے گا، وراثت میں ان کا حق نہیں دے گا اور خود بیٹیاں اپنے خاندان اور سماج کے تئیں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کریں گی، اسلامی معاشرہ بنانے اور تعمیر کرنے میں اپنا حصہ نہیں ڈالیں گی تو نصیب بھلا کیسے اچھے ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں ماں اور بیٹیوں کے نصیب اچھے ہوں گے اور نہ ہی باپ اور بیٹوں کے۔

بیشک مسلم معاشرے میں جہیز ایک ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ایک صاحب حیثیت مسلمان اپنی بیٹی کو بطور ہدیہ خواہ کتنا بھی دے دے وہ کم ہی ہے۔ مگر جب یہ چیز رسم بن جائے اور امیر و غریب سب کے لیے جہیز دینا مجبوری بن جائے اور جہیز نہ دینے کی صورت میں وہ بات سامنے آئے جو عائشہ کے گھر والوں کے سامنے آئی تو یہ چیز کسی بھی سماج کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ ایسا معاشرہ پھل پھول نہیں سکتا۔ موت کا پرندہ اس کے سروں پر اسی طرح منڈلاتا رہے گا۔ جب تک مسلمان اپنے سماج کو غیر ضروری اور غیر اسلامی رسم ورواج سے پاک نہیں کریں گے تب تک مسلم سماج میں ایسی ہولناک اموات کی کہانیاں اسی طرح جنم لیتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments