عورت مارچ 2021 پر ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی موجودگی: ’قوس قزح کے رنگوں والا پرچم دیکھا تو کافی جذباتی محسوس کیا‘
’ہمیں معاشرے میں ایک بدنما داغ سمجھا جاتا ہے اور قبول نہیں کیا جاتا، ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے خلاف مسلسل جرائم ہو رہے ہیں اور یہاں (مارچ میں) بھی کئی ایسے لوگ ہیں جو ہم جنس پرستوں کو قبول نہیں کرتے۔‘
یہ کہنا ہے عورت مارچ میں شرکت کرنے والی خاتون میرا (فرضی نام) کا، جنھوں نے ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے اس مارچ میں شرکت کی۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے کئی شہروں میں ہونے والے عورت مارچ کے پلے کارڈز تو گذشتہ برسوں میں زیر بحث رہے ہی ہیں لیکن اس برس قوس قزح کے رنگوں والے پرچم بھی دکھائی دیے جو ایل جی بی ٹی LGBT کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
گذشتہ چند برسوں میں ہونے والے عورت مارچ میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی شرکت محدود رہی تاہم رواں برس خواجہ سراؤں کے ساتھ ساتھ اس کمیونٹی کی شرکت میں بھی واضح اضافہ دیکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
‘مجھے کہا گیا کہ یہ تو کوک ہے نہ ہی سپرائٹ، یہ تو فانٹا ہے’
میں نے خواجہ سرا کی خاطر گھر بار کیوں چھوڑا؟
اس بار عورت آزادی مارچ کے پوسٹرز کیسے ہوں گے اور اُن میں کیا پیغامات ہیں؟
کراچی کے فریئر ہال سے جیسے ہی ’عورت مارچ‘ کا آغاز ہوا تو مارچ کے آخری حصے میں قوس قزح کے جھنڈے کے ساتھ نوجوانوں کا ایک گروہ ایل جی بی ٹی کے حقوق کے لیے نعرے لگاتا آگے بڑھا۔ یہ 20 سے 30 سال کی عمر کے نوجوان تھے جن میں لڑکے، لڑکیاں اور خواجہ سرا شامل تھے۔
عورت مارچ کے آغاز سے قبل یہ نوجوان ایل جی بی ٹی تحریک کا جھنڈا ہاتھوں میں لیکر فریئر ہال کے مختلف کونوں میں تصویریں لگاتے رہے۔ کچھ نوجوان اسی رنگ کے ماسک اور شرٹس پہنے بھی نظر آئے جبکہ اس بار مارچ میں خواجہ سراؤں کی تحریک کا پنک اور سرمئی پٹیوں والا جھنڈا بھی نظر آیا۔
’قوس قزح کے رنگوں والا پرچم دیکھا تو کافی جذباتی محسوس کیا‘
ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی ایک ممبر مریم ( فرضی نام ) نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا اندازہ ہے کہ مارچ کے شرکا کا 20 فیصد ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے۔
ایک نوجوان ریم (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال جب انھوں نے قوس قزح کے رنگوں والا پرچم دیکھا تو کافی جذباتی محسوس کیا اور انھیں لگا کہ اب کھل کر جینے کا وقت آ گیا ہے۔
مارچ میں شریک ایک اور خاتون حنا(فرضی نام) کا کہنا تھا کہ وہ اس مارچ میں اس لیے آئی ہیں تاکہ ٹرانس مردوں، ٹرانس خواتین اور ہم جنس پرست لوگوں کو ان کے حقوق مل سکیں۔
’ہمارے گھروں سے ہم سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا ہے، دوسرا ریاست ہمارے حق میں قانون سازی نہیں کر پاتی اور اگر کرتی ہے تو اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ریاست ہمارے جانی اور مالی تحفظ کو یقینی بنائے اور ہمارے ساتھ جو امتیازی رویہ ہے اس کا خاتمہ کرے اور ہمیں برابر کا شہری تسلیم کرے۔‘
مارچ کی ایک آرگنائزر قرت العین مرزا کا کہنا ہے کہ یہ ایک اوپن فورم ہے جس میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی بھی شرکت کرتی ہے لیکن جس طرح خواجہ سرا کمیونٹی یا دیگر کمیونیٹیز کو متحرک کرنے کے لیے آگاہی کی مہم چلائی جاتی ہے اس کمیونٹی میں یہ عمل نہیں ہوتا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کی کوئی تنظیم موجود نہیں۔
’ہم ان رنگوں کو اپنے سینے پر زیب تن کرکے آئے ہیں‘
عورت مارچ میں اپنی شرکت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شیریں (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ’انھیں شادی کرنے کا بھی حق نہیں اور انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں یہ حق ہے کہ وہ اپنا مقام حاصل کریں اور اگر لوگ انھیں جگہ نہیں دے رہے تو وہ خود اپنی جگہ بنائیں۔‘
مارچ میں شریک ایک اور نوجوان جاوید (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ جب ان کی کمیونٹی کھل کر سامنے ہی نہیں آتی تو ان کے مسائل بھی سامنے نہیں آتے کیونکہ اگر کوئی سامنے آ جائے تو شاید قید یا غائب کر دیا جائے۔‘
اپنی سیاہ ٹی شرٹ پر بنے دو جھنڈوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قوس قزح کی نمائندگی کرتے ہیں۔۔۔ جب بارش ہوتی ہے تو اس کے بعد قدرت رنگ پھیلاتی ہے۔ ہم پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ہم فطرت کے خلاف کوئی کام کر رہے ہیں لیکن فطرت خوبصورت رنگوں کا امتزاج ہے اور ہم ان رنگوں کو اپنے سینے پر زیب تن کر کے آئے ہیں۔‘
جاوید کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم جنس پرست مرد تو پھر بھی اپنی جنسیت کو چھپا کر زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں لیکن ہم جنس پرست خواتین اور ٹرانس وومین خود کو چھپا نہیں سکتیں، ان کے جسمانی خدوخال واضح ہوتے ہیں اس لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ کھل کر اپنا اظہار کر سکیں۔
ریم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواجہ سرا متحرک ہیں اس لیے انھیں زیادہ حقوق مل رہے ہیں، ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مرد زیادہ کھل کر مارچ کر رہے ہیں لیکن کئی ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انھیں یہ کرنے کی ضرورت نہیں، وہ اپنے مخصوص حلقہ احباب میں ہی رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی فیملی کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔
ایل جی بی ٹی کمیونٹی اور طبقاتی تقسیم
پاکستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی خاموشی سے خفیہ انداز میں زندگی گزار رہی ہے لیکن سوشل میڈیا پر کئی گروپس میں یہ خاصے متحرک بھی نظر آتے ہیں۔
https://twitter.com/ImGreenGuru/status/1237555443179720704
جاوید کا کہنا تھا کہ ان کی کمیونٹی میں بھی کلاس سسٹم (طبقاتی فرق) ہے وہ جو زیادہ اچھی انگریزی اچھی بولتا ہے وہ بہتر ہے جبکہ ڈیفینس اور نارتھ کراچی میں رہنے والوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔
’بڑے طبقے کے جو لوگ ہیں ان میں ہم جنس پرست مردوں کے پاس راستے ہیں، وہ باہر جا سکتے ہیں لیکن ہماری کلاس کے جو لوگ ہیں ان کے پاس راستہ نہیں، ایلیٹ کلاس میں ہو سکتا ہے کہ آپ 18 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد الگ رہیں لیکن ہمارے لیے یہ ممکن نہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا ’ہمیں زندہ رہنے کا بھی حق نہیں۔ باقی آزادیاں تو دور کی بات ایک شخص جو اپنے طریقے سے اپنی محبت کو حاصل کرنا چاہتا ہے اس کی بھی اس معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔‘
’جب ہم محبت کی باتیں کرتے ہیں تو ہمیں ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ باہر سے پیسہ آرہا ہے۔ مجھے بھی بتائیں کہ کہاں سے پیسہ آ رہا ہے۔۔۔ میں تو اسی ملک میں پیدا ہوا اور یہاں پر ہی رہوں گا۔‘
’پس منظر میں رہنے کا کہا گیا‘
فریئر ہال میں قوس قزح کے رنگوں والے پرچم کے ساتھ گشت کرنے والی میرا کا کہنا تھا کہ انھوں نے مارچ کے منتظمین میں سے کچھ کو کہا کہ انھیں سٹیج پر یہ جھنڈہ لہرانے دیں لیکن انھیں اجازت نہیں دی گئی۔
’ہمیں کہا گیا کہ شرکا میں رہیں کیونکہ سٹیج پر آنے کی اجازت نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مختلف صنفی کمیونٹیز کی طرف بھی متوجہ ہوں کہ یہ مارچ صرف عورتوں کے لیے نہیں۔‘
حنا نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ گزشتہ سال بھی اس بارے میں اختلاف رہا اور اس بار بھی ہمیں پس منظر میں رہنے کو کہا گیا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب عورتیں اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں تو ہم بھی اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے۔
عورت مارچ کی آرگنائزر قرت العین مرزا نے واضح کیا کہ مارچ کا اپنا ایجنڈہ ہوتا ہے اور پہلے سے طے کر لیا جاتا ہے کہ چارٹر آف ڈیمانڈ کیا ہو گا، سٹیج پر کون کون تقریر کرے گا۔
انھوں نے کہا ’خواجہ سرا کمیونٹی کو سٹیج پر نمائندگی دی تھی اور ان کی جانب سے تقریر بھی کی گئی تھی۔ ہم انسانی بنیادوں پر صنف کی بات کرتے ہیں، صنفی تشدد کی بات کرتے ہیں اور اس میں تمام کمیونٹیز کی نمائندگی شامل ہے۔ ‘
ایل جی بی ٹی کمیونٹی کا خیال ہے کہ عورت مارچ انھیں بھی یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی موجودگی اور نقطہ نظر کا اظہار کریں کیونکہ اس مارچ کے علاوہ وہ اس طرح کھل کر کہیں سامنے نہیں جاتے۔
- صدام حسین کے ’سکڈ میزائلوں‘ سے ایرانی ڈرونز تک: اسرائیل پر عراق اور ایران کے براہ راست حملے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟ - 17/04/2024
- پنجاب میں 16 روپے کی روٹی: نئے نرخ کس بنیاد پر مقرر ہوئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا کتنا مشکل ہو گا؟ - 17/04/2024
- اسرائیل پر حملے سے ایران کو فائدہ ہوا یا نتن یاہو کو؟ - 17/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).