پی آئی اے کا اڑن کھٹولہ جب جب ’جموں میں اترا‘


گذشتہ روز منگل کو آسمان صاف تھا لیکن شام ہوتے ہوتے اسلام آباد میں تیز ہوائیں تھیں جبکہ دہلی کی فضا میں خنکی سرایت کر چکی تھی اور تھوڑی دیر کو بونداباندی بھی ہوئی۔

دہلی جیسے بڑے شہروں میں جہاں عمارتیں پیڑوں کی طرح اگی ہوئی ہوں موسم کا اندازہ لگانا اور ہوا کا رخ معلوم کرنا بہت ہی مشکل امرہے۔ لیکن بدھ کی صبح سوشل میڈیا پر ایک خبر نے یہ بتا دیا کہ کل ہوا تیز تھی اور پچھوا ہوا یعنی باد مغرب اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ جلوہ افروز تھی۔

‘باد مغرب’ سے انگریزی کے معروف شاعر شیلی کی نظم ‘اوڈ ٹو دی ویسٹ ونڈ’ کا یاد آ جانا کوئی جائے حیرت نہیں اور وہ بھی ایسی صورت میں جب کبھی آپ نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر پتنگ بنائی ہو اور تیز ہوا میں اڑائی بھی ہو اور شیلی کی نظم کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہو اور آپ کے پسندیدہ گیتوں میں فلم بھابھی کا گیت ‘چلی چلی رے پتنگ میری چلی رے’ شامل ہو۔ (نظم کا ایک بند اس کہانی کے اخیر میں پیش کیا جا رہا ہے)

یہ بھی پڑھیے

’جاسوس کبوتر اور تربیت یافتہ ٹڈیوں کے بعد اب پاکستان لبریشن آرمی‘

پاکستانی کبوتر باز کا مطالبہ: ’مودی جی میرا کبوتر واپس کریں‘

انڈین کسان ’پاکستانی ٹڈیوں‘ کا کیسے مقابلہ کر رہے ہیں؟

بہر حال بغیر کسی تمہید کے یہ بتا دوں کہ انڈیا کے خبررساں ادارے اے این آئی کی ایک ٹویٹ سے معلوم ہوا کہ گذشتہ روز انڈیا کے زیر انتظام جموں کے ضلع کٹھوا میں ہیرانگر سیکٹر کے سوترا چک گاؤں میں ایک طیارے کی شکل کا غبارہ گرا جس پر پی آئی اے لکھا ہوا تھا۔ جموں کشمیر پولیس نے بتایا کہ اس غبارے کو تحویل میں لے لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان اس قسم کے واقعات پہلے بھی پیش آ چکے ہیں جس میں جاسوس کبوتر کو گرفتار کیا جانا بھی شامل ہے۔ ابھی یہ معاملہ تازہ تازہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعد میں اس پر گرما گرم ٹی وی ڈیبیٹ بھی ہو جیسا کہ کبھی جاسوس کبوتر کے معاملے ہوا تھا۔ یا پھر جس طرح پاکستان کے راستے آنے والے ٹڈی دل پر مباحثے ہوئے تھے۔ بہر حال کچھ صارفین نے کبوتر کا ذکر ضرور کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر اس بابت شوخ و ترش جملے بازیوں سے پہلے یہ بتا دیں کہ اس خبر کے ساتھ ہی مجھے دلیپ کمار کی فلم ‘اڑن کٹھولہ’ یاد آ گئی جس میں ایک طیارہ ایک گاؤں کے گرد چکر کاٹتا ہے اور پھر وہاں گر کر تباہ ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس سے قبل چند گاؤں کی گوریاں گیت کے ساتھ محو رقص بھی ہوتی ہیں۔

https://twitter.com/ANI/status/1369484057038352386

اس خبر میں اتنا رومان تو نہیں البتہ یہ خیال گزرتا ہے کہ کسی نے تیز ہوا کو دیکھتے ہوئے اپنی پرواز کی چاہت میں اس پر تحریر پی آئی اے والا غبارہ اڑایا ہوگا۔ پی آئی اے سے یاد آیا کہ جب انڈیا، پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ ہوتا تھا تو کمنٹری کے دوران اشتہار کے طور پر پی آئی اے کا اشتہار بھی آتا تھا جس میں یہ کہا جاتا تھا کہ ‘پی آئی اے کے ساتھ سفر اپنوں کے ساتھ سفر’ لیکن اب انڈیا اور پاکستان میں اتنی دوریاں ہو گئی ہیں کہ ایک غبارہ سراسیمگی کا باعث ہو سکتا ہے۔

انڈیا کے جس علاقے میں یہ ’طیارہ‘ گرا وہاں موجودہ صورت حال میں سراسیمگی ضرور پھیل گئی ہوگی۔ ہرچند کہ سرحد پر جنگ بندی کا پھر سے اعلان کیا گیا ہے اور دونوں جانب سے سنہ 2003 کے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کا اعادہ کیا گیا ہے تاہم تاریخ کے پیش نظر اس سیکٹر کے لوگوں کو یہ غبارہ کسی آسمانی بلا سے کم نہیں لگی ہوگی۔

جب تعلقات میں اعتماد کی کمی ہو تو کسی بھٹکے ہوئے غبارے سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اس کی آڑ میں تنقید تیرونشتر چلائے جاتے ہیں۔ چنانچہ اے این آئی کی ٹویٹ پر چند جوابات اس طرح ہیں:

ونود نامی ایک صارف نے لکھا: ‘مذاق سے قطع نظر کیا ہمارے راڈار نے اسے نہیں دیکھا اور اگر دیکھا تو اسے کیوں نہیں مار گرایا اس کے بجائے اس زمین پر اترنے کیوں دیا۔’

اب یہ مذاق اس کہانی کی یاد تازہ کرسکتا ہے جس میں سرجیکل سٹرائیک کے وقت موسم اور ریڈار کے متعلق بہت باتیں ہوئی تھیں۔

اس ٹویٹ کے جواب میں شوبھانگی گارگ نامی ایک صارف نے بظاہر ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کی تنگ دامنی کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا: ‘ہم اس ہائی ٹیک طیارے کو مار گرا کر اس کی ٹیکنالوجی کو برباد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کو قبضے میں لے لیا گیا ہے، ہم اس کا مطالعہ کریں گے اور اس ٹیکنالوجی کو چرانے کی کوشش کریں گے۔’

کمنٹس اپنی جگہ لیکن ان کمنٹس میں کچھ چیزیں کامن ہیں اور وہ کسی نہ کسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ جیسے کہ کئی کمنٹس میں کہا گیا کہ ‘پاکستان کو انڈیا کووڈ ویکسین فراہم کر رہا ہے اور بدلے میں پاکستان اسے یہ بھیج رہا ہے۔’

ایک صارف نے پوچھا اس میں کیا نکلا اورپھر خود ہی کونڈوم کے ساتھ سوالیہ نشان لگا دیا۔

ایک صارف نے انڈیا میں مختلف مسائل پر تنقید کرنے والوں کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ‘اب لبرلز ‘فری پاکستان بلون’ کا ہیش ٹيگ چلائیں گے۔’

جبکہ بہت سے لوگوں نے پی آئی اے کی موجودہ صورت حال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ‘یورپی یونین کی جانب سے پابندی کے بعد اب وہ زیادہ سے زیادہ سفر کے لیے غبارے کا استعمال کر سکتے ہیں۔’ ایک صارف نے لکھا کہ اسے میوزیم میں رکھنا چاہیے اور اس کا نام ‘پاکستان ایوی ایشن ٹیکنالوجی 2021’ لکھنا چاہیے۔

جبکہ ایک صارف نے لکھا کہ ‘عدم ادائیگی کے سبب ان کے اصل طیارے یا تو ضبط کرلیے گئے ہیں یا روک لیے گئے ہیں اس لیے اب وہ صرف یہ کاغذی طیارے اڑا رہے ہیں۔’

سوشل میڈیا پر جاری مباحثے بھی ہوا کے رخ کو بتاتے ہیں یا پھر ہوا کا رخ بناتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp