کیا عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ خطرے میں ہے؟


یہ جون 2004ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت کے وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی لاہور آئے تو سول سروس اکیڈمی میں انہیں صبح دس بجے ایک تقریب سے خطاب کرنا تھا۔ معروف صحافی حبیب اکرم نے اس ایونٹ کو کور کرنا تھا اور اپنے ایڈیٹر کے کہنے پہ انہوں نے میر ظفراللہ خان جمالی سے پوچھا کہ آپ کے استعفے کی خبریں زیر گردش ہیں۔ جس پہ میر صاحب مسکرائے اور کہا میں نہیں تو اور کون؟ ان کے بقول حکومت کے پاس دوسری کوئی چوائس نہیں۔

اس وقت تک پرویز مشرف اور چوہدری صاحبان بھی میڈیا کو یقین دلاتے رہتے کہ میر ظفراللہ جمالی ہی بدستور وزیراعظم رہیں گے۔ کچھ ہی دنوں میں حالات یوں پلٹے کہ میر ظفراللہ خان جمالی از خود اپنا استعفیٰ لے کر اسلام آباد میں چودھری شجاعت حسین کے پاس پریس کانفرنس کے لئے پہنچ گئے۔ اور جو ظفر اللہ جمالی پوچھ رہے تھے میں نہیں تو اور کون، انہیں پتا چلا کہ عارضی طور پہ چودھری شجاعت حسین وزیراعظم ہوں گے، اس کے بعد امپورٹ کیے گئے شوکت عزیز یعنی یک نہ شد دو شد۔

اس سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں جب آرمی چیف پرویز مشرف اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے درمیان تلخیاں عروج پہ تھیں تب میڈیا پہ بیانات دیے جا رہے تھے کہ فوج و سول حکومت ایک پیج پر ہے۔

اس سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں جب وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں اور لغاری صاحب صدر تھے۔ تب میڈیا پہ محترمہ لغاری کو انکل جب کہ لغاری صاحب محترمہ کو بیٹی کہہ کر مخاطب ہوتے مگر پھر زمانے نے دیکھا کہ محترمہ نے بیان دیا کہ میر مرتضیٰ کی شہادت میں لغاری کا ہاتھ ہے جبکہ لغاری نے آصف علی زرداری کو مرکزی ملزم بنا کر پیش کیا‍۔

صدر اسحاق خان ہوں یا صدر لغاری دونوں صدور نے اگلی ٹرم میں ایوان صدر میں رہنے کے وعدوں پر کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کیا۔ پھر ہم سب نے دیکھا کہ دونوں کو یہ سعادت نصیب نہ ہو سکی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار جب سے منتخب ہوئے تب سے ہی ان کے جانے کی تواریخ ڈسکس ہونے لگی تھیں۔ کسی نے ان کو ’عارضی بندوبست‘ قرار دیا کسی نے نا اہل ہو چکے جہانگیر ترین کا فرنٹ مین ، کسی نے کہا دو تین مہینے بعد بزدار صاحب کی چھٹی ہو جائے گی تو کسی دانشور نے اندرونی سٹوری بریک کی کہ مڈ ٹرم کے بعد چوہدری صاحبان کے لیے سیٹ خالی کر دی جائے گی۔

ادھر مرکزی پنجاب کی قیادت سے ایک عام سا سرائیکی وزیراعلیٰ برداشت نہیں ہو پا رہا تھا، اس لیے بزدار صاحب کے خلاف میڈیا وار شروع کر دی گئی۔ کسی نے کہا کہ ان پر قتل کے مقدمے ہیں، کوئی بولا کہ ان کو فائلیں پڑھنا نہیں آتیں۔

جس اینکر نے دوستی کا واسطہ دے کر نومنتخب وزیراعلیٰ کا ایکسکلیوسیو انٹرویو لیا اور منہ پہ انہیں شائستہ شاندار اور مدبر کہتے نہیں تھکے، وہی اینکر صاحب چند دن بعد انہیں حواس باختہ قرار دے رہے تھے۔

ہم سرائیکیوں کا بھی عجب ری ایکشن تھا ، ایک طبقے نے سرائیکی وزیراعلیٰ کی کھل کر سپورٹ کرنے کی تاکید تو دوسرے طبقے نے انہیں سرائیکی قوم سے ہی نکال باہر کیا اور بتایا کہ عثمان بزدار تو بلوچ ہیں اور خود کو بلوچ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ اپنی بات میں وزن لانے کے لیے وہ میر چاکر خان یونیورسٹی نام رکھنے اور بلوچی زبان میں ریڈیو نشریات کی دلیل دیتے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ سرائیکی شاعر اقبال سوکڑی کا وزیراعلیٰ کا پسندیدہ شاعر ہونا اور انہیں لاہور بلا کر عزت سے نوازنے کو بطور دلیل استعمال کرتے ہیں۔

ادھر وزیراعظم عمران خان کا بھی عجیب رسپانس رہا ، کبھی وہ ان کو منجھے ہوا سیاست دان کبھی زیر تعلیم قرار دیتے رہے ہیں۔

جب جب وزیر اعلیٰ بزدار کے جانے کی افواہیں گردش کرتیں ، وزیراعظم آ کر ان پہ اعتماد کا اظہار کر دیتے اور یوں یہ افواہیں دم توڑ دیتیں۔ اس سے قبل جب جب بزدار صاحب کے جانے کی افواہیں پھیلیں، طالب علم نے بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا مگر اب کی بار معاملہ تھوڑا مختلف ضرور ہے۔

ایک طرف تو عمران خان نے خود سامنے آ کر بیان دینے کی بجائے میڈیا پہ ذرائع کے حوالے سے نیوز چلوائی کہ کابینہ کے اجلاس میں عثمان بزدار پہ اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ دوسری طرف واقفان حال کہتے ہیں کہ طاقت کے مراکز سے خان صاحب کو دو آپشن میں سے ایک چننے کا اختیار دیا گیا ہے۔ یا تو سردار عثمان بزدارکو وزیراعلیٰ برقرار رکھیں یا پھر سینیٹ میں صادق سنجرانی کو کامیاب کرائیں۔

اس افواہ کو تقویت بلاول بھٹو اور چوہدری صاحبان کی ملاقات سے ملتی ہے ، گو میڈیا پہ چوہدری صاحبان عمران خان وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر رہے ہیں مگر ماضی کی مثالوں سے اشارہ ملتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں کچھ بعید نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments