چین نے زراعت کو کیسے ترقی دی؟


چین آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور یقیناً ایک ارب چالیس کروڑ باشندوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں، مگر چین نے خود کو وقت کے ساتھ بدلا ہے۔ زراعت میں جدت لائی گئی ہے جس سے فصلوں کی پیداوار میں مسلسل بہتری آتی جا رہی ہے۔ آج چین اناج میں خود کفیل ہو چکا ہے اور دنیا میں خوراک کی ضروریات کو بھی پورا کر رہا ہے۔

چینی حکومت کے نزدیک زراعت اور دیہی علاقے کس قدر اہم ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے حال ہی میں دو ہزار اکیس کی پہلی دستاویز جاری کی۔ حسب معمول پہلی دستاویز زراعت اور دیہی علاقوں کی ترقی پر مرکوز تھی۔ مذکورہ دستاویز پانچ حصوں پر مشتمل ہے، جن میں زراعت اور دیہی ترقی کے مجموعی تقاضے، دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے نتائج کی تقویت اور دیہی ترقی، زرعی جدت کاری کا فروغ، دیہی بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر، دیہات، زراعت اور کسانوں سے متعلق امور میں بہتری شامل ہیں۔ دستاویز میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ دیہی تعمیر کو بھرپور اہمیت دی جائے گی، دیہی صنعت، ثقافت اور ماحولیات کو فروغ دیا جائے گا ۔ زراعت اور دیہی علاقوں کی جدت کاری، دیہات اور شہروں کی ہم آہنگ ترقی اور دیہی علاقوں میں رہائشی ماحول کی بہتری سمیت دیگر امور پر زیادہ سرمایہ کاری کی جائے گی۔

چین کی کوشش ہے کہ سال 2021 کے دوران بھی دیہی علاقوں میں ترقیاتی اصلاحات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انسداد غربت کی کوششوں کو مستحکم کیا جائے تاکہ غربت سے باہر نکلنے والے افراد مستقل بنیادوں پر خوشحالی کی راہ پر گامزن رہ سکیں۔ اس ضمن میں دیہی املاکی حقوق کے نظام میں اصلاحات کو گہرا کرنے، دیہی آبادکاری کے نظام میں اصلاحات کو آگے بڑھانے، زرعی جدت کاری، شیئر ہولڈنگ کوآپریٹو سسٹم کی اصلاح کو فروغ دینے کے لئے دیہی اصلاحات کا نیا دور نافذ کیا جا رہا ہے۔

چین ایک طویل عرصے سے زرعی تہذیب و تمدن کا حامل ملک چلا آ رہا ہے جس میں کاشتکاروں کی فلاح و بہبود اور زراعت کے تحفظ کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ کسانوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے گزرتے وقت کے ساتھ مربوط اور جدید پالیسیاں ترتیب دی گئی ہیں۔ زرعی ترقی کے لیے قابل کاشت رقبے میں اضافہ، روایتی زرعی اصولوں کو ترک کرتے ہوئے جدید مشینری کا استعمال، زرعی اجناس کی پیداوار میں مسلسل اضافہ، زرعی مصنوعات کی فروخت کے لیے ای کامرس سمیت نقل و حمل کی سہولیات کی فراہمی، زرعی تعلیم کا فروغ اور کاشتکاروں کی تربیت جیسے امور کی بدولت چین میں گزشتہ سترہ برسوں سے شاندار فصلیں جسے ہم ”بمپر کراپس“ کہہ سکتے ہیں، حاصل ہو رہی ہیں۔ چین کی اناج کی پیداوار میں خود کفالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس چین میں اناج کی مجموعی پیداوار 670 ارب کلو گرام رہی ہے جبکہ گزشتہ مسلسل چھ برسوں سے اناج کی مجموعی سالانہ پیداوار 650 ارب کلو گرام سے زائد رہی ہے۔

ابھی حال ہی میں چائنا میڈیا گروپ کی اردو سروس کی جانب سے ایک ورچوئل اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں زراعت کے فروغ اور خوراک کے تحفظ کے لیے چینی حکومت کے اقدامات اور چین۔ پاک زرعی تعاون کے حوالے سے پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد اور زرعی ماہرین نے شرکت کی۔ شرکاء نے کہا کہ چینی حکومت کی جانب سے قابل کاشت رقبے کے لیے 120 ملین ٹن ہیکٹرز کی سرخ لکیر مقرر کرنا زراعت کی نمایاں اہمیت کا عکاس ہے۔

چین کی انسداد غربت کی جنگ میں زراعت نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی ماہرین نے فصلوں کی بہتر پیداوار اور زرعی رقبے کے تحفظ کی خاطر چین کی جدید پالیسیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ کاشتکاروں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرتے ہوئے انہیں خوشحالی کی جانب گامزن کیا گیا ہے۔ صدر شی جن پنگ کے وژن کی روشنی میں چین کی دیہی حیات کاری کی پالیسی زراعت کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ شرکاء کا مزید کہنا تھا کہ فصلوں کے بہتر تحفظ سے آج چین اناج کی پیداوار میں خودکفیل ہو چکا ہے اور سالانہ 650 ارب کلو گرام اناج کا حصول، زرعی شعبے میں چین کی مہارت کا ثبوت ہے۔

اس وقت چین عالمی سطح پر بھی زرعی مصنوعات کی فراہمی کا ایک انجن بن چکا ہے۔ چین کی جانب سے فوڈ سیکیورٹی انڈسٹری زون کی تعمیر سے خوراک کے تحفظ کی عالمی کوششوں میں بھرپور مدد ملے گی۔ اجلاس کے شرکاء نے کہا کہ چین نے خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عوام میں بھی شعور اجاگر کیا ہے اور خوراک کے ضیاع کی حوصلہ شکنی کے اقدامات قابل ستائش ہیں، چینی حکومت نے عمدہ زرعی پالیسیوں اور خوراک کے تحفط کو اہمیت دیتے ہوئے ایک ارب چالیس کروڑ چینی شہریوں کی خوراک کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کیا ہے۔

چین اور پاکستان کے درمیان زرعی شعبے میں تعاون کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے شرکاء نے کہا کہ چین۔ پاک اقتصادی راہداری منصوبے کی بدولت پاکستان اور چین نے زرعی شعبے میں تعاون کا عزم ظاہر کیا ہے۔ سی پیک کی بدولت ٹیکنالوجی کی منتقلی اور تجربات کے تبادلے سے پاکستان میں بھی زرعی شعبہ بہتر ہو گا۔ انہوں نے چینی اور پاکستانی زرعی ماہرین کے درمیان افرادی تبادلوں کے فروغ کو پاکستان میں زراعت کی ترقی کے لیے نہایت اہم قرار دیا۔ شرکاء نے اس امید کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر زرعی شعبے میں تعاون کے امکانات مزید فروغ پائیں گے اور فوڈ سیکیورٹی کے چیلنج سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

چین کی کوشش ہے کہ جدت پر مبنی زراعت سے فصلوں کی معیاری پیداوار حاصل کی جائے، زرعی ٹیکنالوجیز میں خود انحصاری کی کوشش کی جائے، کاشتکاروں کو زیادہ اناج اگانے کی ترغیب دینے سمیت کاشتکاروں کے لیے سبسڈی میں اضافہ کیا جائے۔ چین کے اقدامات یقیناً پاکستان سمیت دیگر تمام ایسے ممالک کے لیے قابل تقلید ہیں جن کی معیشت کا بڑی حد تک دار و مدار زراعت پر ہے۔ جدید زراعت پائیدار معاشی ترقی کی ایک ایسی ٹھوس بنیاد ہے جس کی مدد سے ایک مستحکم سماج کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments