عورت مارچ: کیا سوشل میڈیا پر ’توہین آمیز‘ نعروں، پوسٹرز اور فرانس کے جھنڈے کے حوالے سے کیے جانے والے دعوے درست ہیں؟


پاکستان میں عورت مارچ ہو اور اگلے چند دن تک اس سے متعلق کوئی تنازعات سامنے نہ آئیں، ایسا پچھلے تین برس سے ممکن نظر نہیں آتا۔ پلے کارڈز پر درج مطالبات ہوں یا اس مارچ میں شریک ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے لوگ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’عورت مارچ‘ کا نام بذات خود متنازع ہو گیا ہے۔

اس وقت عورت مارچ کے حوالے سے جو نیا اعتراض سامنے آیا ہے وہ پاکستان میں کسی بھی چیز کے خاتمے کے لیے ایک خطرناک حربہ سمجھا جاتا ہے: تازہ الزامات میں عورت مارچ کے ایک پوسٹر اور ایک ویڈیو کو بنیاد بنا کر توہین مذہب کے الزامات سامنے آئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے سخت رد عمل دیکھنے میں آیا ہے اور بڑے پیمانے پر ایسی پوسٹس شیئر کی جا رہی ہیں جبکہ کچھ جماعتوں کی طرف سے اسلام آباد میں جمعے کے روز احتجاجی مظاہرے کا بھی اعلان کیا ہے۔

’متنازع‘ ویڈیو میں کیا ہے؟

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عورت مارچ کے شرکا ایک میدان میں بیٹھے ہیں اور ایک خاتون عورت کی آزادی سے متعلق نعرے لگا رہی ہیں۔ اس ویڈیو میں خواتین کے جانب سے بظاہر کہے جانے والے الفاظ سب ٹائٹل کی صورت میں سکرین پر نظر بھی آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

عورت مارچ: ’ایل جی بی ٹی کھل کر سامنے نہیں آتے‘ تو مسائل پر بھی بحث نہیں ہوتی

’مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے‘: پاکستان میں ’عورت مارچ‘ کے نعرے اور مطالبات

اس بار عورت آزادی مارچ کے پوسٹرز کیسے ہوں گے اور اُن میں کیا پیغامات ہیں؟

ویڈیو پر درج تحریر کے مطابق اس کلپ میں کہا جا رہا ہے کہ ’ہم چھین کے لیں گے آزادی، تیرا باپ بھی دے گا آزادی۔‘

اس سے آگے نعرے لگانے والی خاتون کہتی ہے ’عمران بھی سن لے‘ جس کے جواب میں شرکا کہتی ہیں ’آزادی‘۔

اس کے بعد سکرین پر نظر آنے والی سطور میں ’اللہ‘، ’رسول‘ اور ’اولیا‘ جیسے الفاظ بھی دکھائی دیتے ہیں۔

تاہم ناصرف منتظمین بلکہ سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد کے مطابق سکرین پر نظر آنے والے الفاظ وہ ہیں ہی نہیں جو مارچ کے شرکا کی جانب سے ادا کیے گئے بلکہ صوتی تاثر یکساں ہونے کی وجہ سے ان الفاظ کو ویڈیو پر لکھ کر حقائق تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور نفسیاتی اثر کے تحت لوگوں کو وہی سنائی دے رہا ہے جو سکرین پر لکھا نظر آتا ہے۔

عورت مارچ کراچی کے ٹوئٹر ہینڈل کی جانب سے اس نعرے بازی کی اصل ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں لیے جانے والے ناموں کو واضح طور پر سنا جاسکتا ہے۔

عورت مارچ

منتظمین کیا کہتے ہیں؟

عورت مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ویڈیو میں لگائے جانے والے نعروں میں توہین مذہب ہرگز نہیں کی گئی بلکہ مخالفین کی جانب سے بغض میں ایسا تاثر دیا جا رہا ہے۔

منتظمین میں سے ایک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ویڈیو کراچی کے مارچ کے دوران بنائی گئی ہے اور ’عورت مارچ‘ مذہبی تحریک تو ہے نہیں اس لیے ایسی نعرے بازی کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔

ان کا کہنا تھا ’ان نعروں میں اللہ نہیں ’مُلا‘ کہا گیا ہے جبکہ ’اولیا‘ نہیں اوریا کہا گیا ہے یعنی اوریا مقبول جان جو کہ عورتوں کے خلاف پروپیگینڈا کرنے کے لیے مشہور ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ویڈیو کے حوالے سے لگائے گئے الزامات غلط ہیں۔

’ان الزامات سے ہمارے جذبات بھی مجروح ہوئے ہیں، یہ لوگ ہمیں تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ عورت مارچ کی شرکا بھی پاکستانی اور مسلمان ہیں۔ ہم بھلا ایسا کیوں کریں گے؟ اس کا تحریک سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں موجود خواتین مزدور پیشہ ہیں، وہ نہ تو ایلیٹ لگ رہی ہیں نہ ماڈرن اور نہ مغربی جو کسی ایجنڈا پر کام کر رہی ہوں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس ملک کی خواتین ایسے کسی بھی نعرے کا جواب بھی دیں گی؟‘

ان کا مزید کہنا تھا ’اگر الزامات میں کہے گئے نعرے لگائے بھی جاتے تو کیا ان کا جواب آتا؟ ہم جانتے ہیں کہ ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں، کوئی ایسا کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔‘

کراچی میں عورت مارچ کے منتظمین میں سے ایک، منیزہ احمد کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’اب کی بار تو انتہا ہو گئی ہے۔‘

ان کے مطابق ویڈیو میں لگائے جانے والے نعروں کے صحیح الفاظ پر مبنی سب ٹائٹلز کی ویڈیو ریلیز کی جا رہی ہے۔

’ہر سال ہمارے مواد کو مرضی کے معنی پہنائے جاتے ہیں تاہم اس بار توہین مذہب کا استمعال کیا گیا کیونکہ وہ جانتے ہیں اس کی مدد سے لوگوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’یہ ہماری تحریک پر بہت بڑا حملہ ہے، حالانکہ ہمارا انتہائی واضح 15 نکاتی ایجنڈا ہے جس میں خواتین کے حقوق، تحفظ اور تشدد کے حاتمے کی بات کی گئی ہے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ جلد اس حوالے سے ایک نیوز کانفرنس کریں گے اور کھل کر بات کی جائے گی۔

جنسی استحصال سے متعلق متنازع پوسٹر

عورت مارچ کے ایک پوسٹر پر بھی توہین مذہب کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں جس میں بظاہر ایک کم عمر لڑکی کے مذہبی شخصیت کے ہاتھوں جنسی استحصال کی کہانی بیان کی گئی ہے۔

اس پوسٹر پر توہین مذہب کے الزامات اس وقت سامنے آنے لگے جب کسی نے سوشل میڈیا پر اس کی تشریح کرتے ہوئے اسے انتہائی قابل اعتراض بنا دیا۔

عورت مارچ کے منتظمین اور حتیٰ کے سوشل میڈیا صارفین نے اس تشریح کو نہ صرف موضوع سے ہٹ کر بلکہ غلط اور اشتعال انگیز قرار دیا۔

منتظمین مں سے ایک نے بتایا کہ ’لاہور کے مارچ میں شامل اس پوسٹر کے خلاف اسلام آباد میں بھی پولیس میں شکایات بھی درج کروائی گئی ہیں۔ حقوق نسواں کے لیے جو ان کا نظریاتی اختلاف ہے، اس کے بغض میں مذہب کا سراسر غلط استعمال ہو رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’اس معاملے میں ہمارا ملک بالکل خاموش ہے۔ یہ ملک اب عورتوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا۔‘

عورت مارچ لاہور کے منتظمین کی جانب سے اس حوالے سے ایک تفصیلی بین بھی جاری کیا گیا:

مارچ میں ’فرانس کا جھنڈا‘؟

سوشل میڈیا پر توپین مذہب کے نام سے ایک اور چیز جو شیئر کی جا ہی ہے وہ ہے ’فرانس کا جھنڈا۔‘

حال ہیں میں توہین مذہب کے حوالے سے دنیا بھر اور پاکستان میں فرانس اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی۔ ایسے میں عورت مارچ میں فرانس کا قومی پرچم ناقدین کے اشتعال میں اضافے کے لیے کافی تھا۔

یہ جھنڈا آخر وہاں تھا کیوں؟ جب ہم نے یہی سوال مارچ کی منتظمین سے کیا تو ان کا جواب تھا یہ جھنڈا فرانس کا ہے ہی نہیں۔

دراصل یہ جھنڈا حقوق نسواں کی تنظیم ’وویمن ڈیمو کریکٹ فرنٹ‘ کا جھنڈا ہے۔ جو اس مارچ میں سنہ 2018 سے شامل کیا جا ہا ہے۔

ان کے بقول ’اس جھنڈے میں تین رنگ ہیں سرخ، سفید اور جامنی۔ یہ ایک سوشلسٹ اور فیمینسٹ تنظیم ہے۔‘

’اس جھنڈے کا سرح رنگ مزدوروں کی نمائندگی کرتا ہے، سفید رنگ امن کی نشانی ہے جبکہ جامنی رنگ دنیا بھی میں حقوق نسواں کی علامت ہے۔‘

عورت مارچ کی منتظم کے مطابق ’فرانس کے جھنڈے میں جامنی نہیں بلکہ نیلا رنگ ہے اور اس میں رنگوں کی ترتیب بھی مختلف ہے۔‘

https://twitter.com/wdf_pk/status/1369702186750468100

سوشل میڈیا پر ردعمل

سوشل میڈیا پر جہاں توہین مذہب کے الزامات سامنے آنے کے بعد متعدد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس کی شدید مذمت کی گئی اور عورت مارچ کے شرکا کے خلاف لعنت و ملامت کا سلسلہ شروع ہوا وہیں کچھ لوگوں نے اس کی غلط تشریحات پر اعتراض بھی کیا۔

عورت مارچ میں نعروں سے متعلق ویڈیو کو کئی پاکستانی صحافیوں نے بھی شئیر کیا جس پر ان کی بھی مذمت کی گئی۔

صحافی انصار عباسی بھی اس ویڈیو سے متعلق ٹویٹس کرنے والوں میں شامل ہیں۔ انھوں نے اس ویڈیو میں موجود مواد کو خطرناک قرار دے کر اس کی تحقیقات کا مطالبے کیا۔

ان کا کہنا تھا ’میں وہ بیان نہیں کر سکتا جو کچھ عورت مارچ میں کیا گیا لیکن ایک بات طے ہے کہ حکومت کو عورت مارچ پر نہ صرف پابندی لگانی چاہیے بلکہ ذمہ داروں کو فوری گرفتار بھی کرنا چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وفاقی حکومت کو چاہیے کہ اس معاملہ کو فوری ایف آئی اے کے سپرد کر دے تاکہ سچائی تک پہنچا جا سکے۔‘

پاکستان کے نجی ٹی وی چینل سے وابستہ اینکر اویس منگل والا نے بھی ٹوئٹر پر اس ویڈیو کو شیئر کیا لیکن سماجی کارکن جبران ناصر سمیت کئی صارفین نے جب ان کی تصحیح کی تو انھوں نے یہ ویڈیو ہٹا دی۔

عدنان قریشی کا کہنا تھا ’اس وقت ٹاپ ٹرینڈز میں عورت مارچ کے منتظمین پر توہین مذہب کے الزامات سر فہرست ہیں جن میں 15 ہزار سے زائد ٹویٹس ہو چکے ہیں۔ جس تیزی سے مذہبی انتہا پسندی، عدم برداشت بڑھ رہی ہے یہ تشویشناک ہے۔ ریاست، میڈیا اور سول سوسائٹی کو مل کر اس سے نمٹنا ہوگا۔

تاہم محمد علی کا کہنا تھا ’میرا خیال ہے کہ جہاں تک میں سُن پایا ہوں عوت مارچ کی ویڈیو میں وہ نعروں میں اوریا، عمران، انصر، اقبال، اور شاید ملا اور باجوہ کہہ رہی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’دوسری بات یہ کہ ان میں سے زیادہ تر نے حجاب لے رکھا ہے اور یہ مجمعہ توہین مذہب نہیں کرے گا۔ ہمیں خطرناک صورتحال پیدا نہیں کرنی چاہیے۔‘

سید صولت زیدی نامی صارف کا کہنا تھا ’کیا مطلب ہے؟ توہین مذہب کے نام پر کچھ بھی؟ ٹھیک ہے عورت مارچ کے کئی نعروں پر سوال کیا جا سکتا ہے جو شاید غیر متعلقہ لگیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بات پوری طرح جائز ہے کہ کم عمر لڑکیوں کو معاشرے اور خاندان کی جانب سے دبایا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو بولنے دو۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp