اپنی مٹی اور بارش کی پہلی بوندیں


بارش کی پہلی بوندیں زمین کا بوسہ لیتی ہیں تو ہر سو مٹی کی مہک پھیل جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کوئی پوچھتا کہ آپ کی پسندیدہ خوشبو کیا ہے تو بہت سے لوگ جواب دیتے تھے کہ مٹی کی خوشبو۔ بارش کی پہلی بوندوں کے بعد مٹی کی خوشبو۔

آج افسانوں، کہانیوں، ڈائجسٹ کے مکالموں میں بھی یہ جواب خال خال ہی ملتا ہے۔ ظاہر ہے بارش کی یہ خوشبو پرفیومز کی چمکتی دمکتی بوتلوں کے عقب میں کہیں جا چھپی ہے۔ ٹی روز میرے بچپن کا پرفیوم تھا۔ کہیں کہیں اس کی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔ عطر عام تھا۔ لوگ کان میں روئی کا تمبہ بھگو کر دبا لیا کرتے تھے۔ یہ پہروں مہکتا رہتا تھا۔ لوگ تو رومال میں بھی پرفیوم چھڑک کر جیب میں رکھ لیتے تھے۔ یہ ساتھ چلنے والوں کو خوشبو کا احساس دیتا تھا۔

بارش برستی تو پرنالے چل پڑتے۔ کچھ پرنالے لکڑی سے بنے ہوتے تھے۔ چھت کے کونے پر نصب کردہ پرنالے، میزاب دیوار سے آگے بڑھے ہوئے ہوتے تھے۔ گلی سے گزرنے والا بارش کے بعد اس پرنالے سے بچ کر چلتا تھا۔ دوران بارش اگر گھاس پتے اس پرنالے میں پھنس جاتے تو چھت پر پانی کھڑا ہو جاتا تھا۔ اسی جگہ سے چھت لیک کر جاتی۔ کمرے میں، دیوار پر پانی نظر آتا تو سب ایک دوسرے کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھتے تو کوئی رضاکار بڑا بھائی یا بہن بخوشی یا بادل نخواستہ چھت پر پہنچ جاتا۔ برساتی میسر ہو وگرنہ جوٹ کی بنی بوری کو ایک کونے سے پکڑ کر ٹوپی برقعہ کی طرح بنایا جاتا اور اسی برساتی کو پہن، اوڑھ کر چھت سے پانی نکالا جاتا۔

پکے گھروں کے پرنالے سیمنٹ سے بننے لگے۔ دیوار پر سیمنٹ کر دیا جاتا۔ دونوں اطراف ایک ڈیڑھ انچ کا بارڈر بنا دیا جاتا تھا۔ پانی اس پرنالے سے باہر نکلتا اور زمین پر بنی نالی میں گر جاتا۔ پرنالے پر سانپ، مور یا کسی بھی طرح کا آرٹ بھی بنایا جاتا تھا۔

اس پرنالے کے پانی پر لڑائیاں بھی ہوتی تھیں۔ گلی محلوں میں لڑائیوں کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی تھی۔ پرنالے پر محاورے اور ضرب المثل بھی بنائے گئے۔ ”پنچ کا کہا سر آنکھوں پر ’مگر پرنالہ یہیں رہے گا۔“

وقت بدلا نہ چھتوں پر مٹی کی لپائی کی جاتی ہے اور نہ ہی پرنالے کا پانی باہر گرتا ہے۔ چھتوں پر پائپ نصب کر دیے گئے ہیں۔ یہ پائپ دیواروں کا مستقل حصہ بنا دیے گئے ہیں۔

پرنالے کے پانی کے نیچے نہانا ماضی بن گیا ہے۔ گلیوں میں بارش کا پانی جمع ہونا تو کل، آج اور مستقبل میں بھی رہے گا۔ برسات کی بارش کے بعد پکوان بنتے تھے۔ سردیوں کی بارش پنجیری کی رت لاتی۔ اماں دیسی گھی، بادام، السی، چار مغز، چار گوند، کشمش، سونف کا ملغوبہ بناتیں۔ اسے گرم کرنے، پکانے، بادام توڑنے تک کے تمام مراحل خود دیکھتی تھیں۔

پنجیری تیار ہو جاتی، چاول اور السی کی پنیاں بن جاتیں۔ ماؤں کو فکر لاحق ہوتی کہ بچے اسے جلد از جلد کھا لیں۔ اپنی کمریں خمیدہ ہوں گی مگر بچوں کی غذائی قلت کا احساس ہر وقت انہیں کچوکے لگاتا ہے۔ السی اور چار گوند کی پنجیری ان کے لحاظ سے جوان بچوں کے لیے لائف سیونگ ڈرگ کی مانند متصور کی جاتی۔

میں اکثر اسلام آباد کی فریسکو سویٹس یا کراچی کی من پسند سویٹس پر جاتا تو چاول کی پنیاں چمکتے دمکتے ٹرے میں سجی نظر آتیں۔ پنیاں تو ہیں مگر ماں کے ہاتھوں کا ذائقہ نہیں، چاہت اور چاشنی نہیں۔ محبت اور وارفتگی نہیں۔

ہمارے بچوں کو سرسوں کے ساگ، چاول کی پنیوں، بھٹی پر بھنے چاول اور چنے کا ذائقہ کہاں معلوم؟ گنے کے رس کی کھیر کھائے طویل عرصہ بیت گیا۔ بھینس کا بچہ جننے کے بعد پہلا دودھ (بولی) کا گرم و نرم ذائقہ چکھے سالوں بیت گئے ہیں۔ پتلے آٹے کے پوڑے بناتے اماں کو ہی آخری بار دیکھا تھا۔ رات کے بچ جانے والے ابلے چاولوں کو اماں اپنے ہاتھوں شکر اور دہی مکس کر کے دیتی تھیں۔ کبھی بدہضمی نہ ہوئی تھی۔ ہمارا کسی نعمت سے کفران نعمت نہیں مگر ماضی کے در کھلیں تو ٹھنڈی و تلخ یادوں کے جھونکے ضرور لپیٹ لیتے ہیں۔

یادداشتوں کا سفر کبھی مسکراہٹ بانٹتا ہے اور کبھی تلخی کی تھکن سے حلق کو نمکین بنا دیتا ہے۔ بہت سے چہرے آنکھوں میں ابھرتے ہیں۔ بہت سی مشکلیں مبہم سی نظر آتی ہیں۔ یہ سب انسان کی یادوں کی دولت ہے۔ دولت کے خزانے ہیں۔ خزانوں کی کنجیاں ہیں۔ یہ کنجیاں زندگی کے مختلف ادوار ہیں۔ ایک ایک یادوں کا بستہ کھولتے جائیں اور مسکراتے جائیں۔ تلخی و حلق میں گرتے نمکین آنسوؤں میں بھی مسکرائیں۔ یہ سب ہماری یادیں ہیں جو دوسرے ہم سے نہ چھین سکتے ہیں اور نہ الگ کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments