موسیقی ہمیں کیسے جوڑتی ہے؟


کبھی کسی دادی یا نانی نے آپ کے سمارٹ فون پر
”یار میرا تتلیاں ورگا“
سننے کی فرمائش کی ہے؟
یا پھر ابا جی نے کہا ہو کہ
”بھئی تیرے اس فون میں“ کالے جئے لباس دی شوقین اے کڑی ”والا گانا“ ڈاؤن لوڈ ”ہو جائے گا کیا؟“
یقیناً نہیں کہا ہو گا۔

ہاں اگر کبھی بہت ہی طوفان باد و باراں کا امکان ہوا، موسم بے ایمان ہوا اور ابا جی موڈ میں ہوئے تو زیادہ سے زیادہ محمد رفیع، لتا منگیشکر، نصرت فتح علی خان، عزیز میاں قوال یا پٹھانے خان کی آواز میں کچھ لگانے کی فرمائش کر دیں گے۔

ایسا ہی ہے ناں؟
جی ہاں آپ نے درست فرمایا۔ بالکل ایسا ہی ہے۔

اب تو خیر نہیں مگر آج سے دو دہائیاں قبل جب اللہ بخشے پی ٹی وی ہی اپنے آپ میں کل میڈیا ہوا کرتا تھا،  کبھی کبھار ناہید اختر کوئی غزل گاتی پردہ سکرین پر نمودار ہوتیں تو پیچھے سے کسی بزرگ چاچے یا ماسی کی تاکید آتی

”آواز دینا ذرا سی“

اور آپ اور میں بھنا جاتے کہ یہ لوگ ہماری طرح جنون گروپ کے علی عظمت کی آواز میں ”آنسو“ ڈرامے کا ٹائیٹل سونگ کیوں نہیں سنتے؟

ہمیں اس وقت چائے ہوٹلوں اور ملک شیک کے ڈھابوں کے دھم دھم کرتے سپیکروں سے چوک میں گونجتی کمار سانو، ادت نارائن اور الکا یاگ نک کی آواز نہ صرف بھاتی بلکہ لبھاتی بھی تھی اور کانوں میں رس گھولتی تھی۔ پورے بدن میں ایک ناقابل بیان لہر سی اٹھاتی اور گیت کے بول، شاعری اور اس میں دبے معنی خیز کنایوں میں کھوئے کھوئے ہم اپنی اپنی ہونے یا پھر کبھی نہ ہونے والی محبوباؤں کو ڈھونڈتے سوچتے ہاتھ میں ہرا دھنیا اور آدھا کلو دہی لئے گھر آ جاتے اور اماں سے ڈانٹ کھاتے کہ اتنی دیر کہاں لگا دی؟

تو حضرات و خواتین!

اگر کسی قدر غور کیا جائے تو آج بھی اگر کہیں دھیمی آواز میں مذکورہ بالا گلوکاروں کا کوئی ریکارڈ چل رہا ہو تو ہمارا ری ایکشن بالکل وہی ہوتا ہے جو دو دہائیاں قبل ہمارے بزرگوں کا ہوا کرتا تھا۔

ہم بھی آج کار میں بیٹھے بیٹھے اضطراری طور پر نوے کی دہائی کے گانوں پر تھوڑا سا والیم اونچا کر دیتے ہیں۔

کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہوتا ہے؟
بات یہ ہے کہ موسیقی، ساز، آواز یا بحر اور سر ایک پورا علم ہے، جس میں راگا دیپک اور راگا ملہار جیسے کئی خزینے پوشیدہ ہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ جب اکبر بادشاہ نے راگ دیپک کے بارے میں سنا کہ یہ واقعی آگ لگا دیتا ہے تو تجسس کے مارے تان سین کو یہ راگ سنانے کا حکم صادر فرما دیا۔ تان سین نے پہلے پہل ٹالنا چاہا لیکن بادشاہ تو پھر ”بادشاہ بندے“ ہوتے ہیں۔ اڑ جاتے ہیں۔ خیر طوعاً و کرہاً تان سین کو گانا پڑا اور نقطۂ انتہا پر محل کے چراغ ایک ایک کر کے جلنے لگے۔ تان سین پسینے سے شرابور اور ادھ موا ہو گیا اور بھاگ کر تالاب میں چھلانگ لگا کر جان بچائی۔ اسی طرح مہدی حسن نے گا کر جو شیشہ توڑ دیا تھا وہ بھی سب نے سنا ہی ہو گا۔

تو یہ ہے اصلی موسیقی کی طاقت۔ موسیقی اور شورمیں بہت مہین سا فرق ہے جو دونوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے۔

ہر وہ آواز جس میں آواز کی لہریں (Sound Waves) کسی ضابطے اور ایک خاص ردھم کے تحت پیدا ہوتی اور سفر کرتی ہیں موسیقی کہلاتی ہے۔ جبکہ ہر وہ آواز جو بغیر کسی قاعدے اور پیٹرن کے پیدا ہوتی ہے شور کہلاتی ہے۔

متذکرہ بالا ہر دو صوتیات فریکوئینسی، پچ اور دیگر کئی طبعی اصولوں کے تحت عمل کرتی ہیں اور مزے کی بات یہ کہ تھوڑے سے ردو بدل سے ایک دوسرے میں تبدل کی خاصیت بھی رکھتی ہیں۔

اس سب کا خلاصہ یہ نکالا جا سکتا ہے کہ ہر وہ آواز جو کانوں کو بھلی معلوم ہو موسیقی کہلائے گی اور جو چنگھاڑ بوجھل ہو اور سماعتوں پر گراں گزرے شور کہلائے گا۔

اس اصول کو مدنظر رکھ کر موسیقی کی مختلف اقسام ترتیب دی گئی ہیں۔

جو بہترین اور موسیقییت سے لبریز گانے ہم اس وقت سنتے ہیں جب نئی نئی جوانی ہمارے پنڈے کے دروازے پر دستک دے رہی ہوتی ہے، تو وہ تاعمر ہماری پسند کا حصہ بن کر لاشعور میں Save ہو جاتے ہیں۔

اب زندگی بھر ہم ان یادوں کو ڈیلیٹ نہیں کر پاتے۔

بابا اس وقت جسم میں ہارمونز کا Influx ہی ایسا شدید ہوتا ہے اور پھر لڑکپن کا بحر جذبات اس تعلق کو عمیق تر کر دیتا ہے۔

ٹھیک ایک عشرے بعد جب ہمارے اندرونی ہارمونل سونامی کی شدت کسی قدر ویسی ہوئی جیسے اب ایک سال بعد کورونا کی ہے تو ہمیں نئے گانے کہاں بھانے تھے؟ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے بزرگوں کو ہمارے دور کے گانے نہیں بھاتے۔

ایک قدر مشترک مگر ضرور ہے جو تمام نسلوں کو باہم جوڑتی ہے اور وہ ہے موسیقییت۔ یہ موسیقییت اور ترنم انہیں چاہے جس دور اور جس گلوگار میں نظر آ جائے یہ اسے سنتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ سننے والا موسیقی سے شغف اور کسی قدر اس کا فہم بھی رکھتا ہو۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ موسیقی میں میاں تان سین کے ہم پلہ ہو جائیں ہم تو صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ موسیقی کا کم از کم اتنا ادراک آپ کو ضرور ہونا چاہیے جو آپ کو ”بلو بگے بلیاں دا کی کریں گی؟“ جیسی خرافات سننے سے باز رکھ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments