خالد سعید: میرا باغ عدن اسی شہر میں ہے


خالد سعید کی سالگرہ پر لکھا گیا ایک عقیدت نامہ

ہم بچپن میں سنا کرتے تھے کہ جنت میں آپ جس شے کے بارے میں سوچیں گے وہ آپ کے سامنے حاضر ہو جائے گی، وہاں حزن و ملال نہیں ہو گا، بے چینی و اضطراب نہیں ہو گا، اس طرح کے اگر اس زمین پر رہتے ہوئے میں نے کوئی تجربات کیے تو وہ مرشدی خالد سعید سے سوال پوچھنا، اس کا جواب پانا، اور ان کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔ جو پوچھا، جب پوچھا، جہاں پوچھا اس کا جواب اس طرح ملا کہ جیسے وہ اسی سوال کا جواب دینے کے لیے صدیوں سے انتظار کر رہے تھے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کو سب کچھ معلوم ہو؟ کیسے کسی کا ہر شے، ہر نظریے اور ہر رویے کے بارے میں ایک مختلف نقطہ نظر ہو سکتا ہے؟ وہ بھی سب سے جدا، سب سے منفرد اور سب سے نرالا؟ کیسے یہ ممکن ہے کہ آپ کسی شخص سے جب بھی ملیں تو وہ الجھنیں جنہوں نے آپ کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہو ایک دم سے کافور ہو جائیں اور آپ کو لگے کہ یہ مسئلہ جو میں لئے پھر رہا تھا درحقیقت مسئلہ تھا ہی نہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کسی سے ملیں اور ملتے ساتھ آپ کو احساس ہو کہ یہ بات جس پر میں آزردہ ہوں دراصل ہنسنے والی بات ہے، لیکن یہ تمام نا ممکنات میں نے ہزاروں بار ممکن ہوتے دیکھے۔

جب میں نے ایمرسن کالج میں بی اے میں داخلہ لیا تو سائیکالوجی، فلاسفی اور انگریزی لٹریچر اختیاری مضامین کے طور پر رکھے اور عالم یہ رہا کہ سوائے خالد صاحب کی کلاس کے کوئی اور کلاس نہ لی۔ کلیمنڈ جان سے پڑھنے کا چونکہ موروثی بھوت سوار تھا اس لیے ان کی انگریزی لٹریچر کی ایم اے کی کلاس میں بیٹھتا تھا، لیکن بی اے کی تمام مضامین کی کلاسز سے نام کٹوا چکا تھا سوائے سائیکالوجی کے جو خالد صاحب پڑھایا کرتے تھے، اس وقت صبح کی پہلی کلاس خالد صاحب پڑھایا کرتے کیونکہ جب تک ہم ایمرسن کالج پہنچے تب تک خالد صاحب بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ڈیپیوٹیشن پر جا چکے تھے، میں سر کی کلاس پڑھتا اور سر کے ساتھ ہی یونیورسٹی چلا جاتا جہاں ان دنوں سر خالد سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھ رہے تھے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ پہلے پہل IMS میں کھلا تھا اور یہاں کے تین چار کمروں میں سائیکالوجی کی کلاسز ہونا شروع ہوئیں تھیں۔ سر خالد ہی اس نوزائیدہ ڈیپارٹمنٹ کا سب کچھ تھے۔

اس کے ساتھ جو شاندار کام سر خالد سعید نے شروع کیا وہ تھا ”سٹوڈنٹس ایڈوائزی سینٹر“ یہ سر خالد سعید کا ڈیرہ تھا اور میرا باغ عدن، یہاں سارا دن سٹوڈنٹس آتے رہتے اور سر خالد سعید سے اپنے ذاتی، خاندانی، ذہنی، نفسیاتی، جنسی، کاروباری، مذہبی غرض ہر طرح کی مسائل پر بات کرتے۔ حالت نزع میں لایا گیا چند منٹوں میں ایتھلیٹ بن کر واپس چلا جاتا، یہ سب کچھ میں نے کئی بار دوسروں اور اپنے ساتھ ہوتے دیکھا کہ شدید افسردگی اور مایوسی کے عالم میں کوئی خالد سعید کے پاس آیا اور کچھ ہی لمحوں میں اس کو یہ احساس ہوا کہ جس بات کو میں سر پر سوار کر رہا تھا اس کی تو کوئی اوقات ہی نہیں تھی۔

میری زندگی میں ایک بھی لمحہ ایسا نہیں ہے کہ جب میں سر خالد سعید کو نہیں جانتا، میرے برادر مکرم اختر علی سید صاحب سر خالد سعید کی سرپرستی میں اسی برس میں آئے جو کہ میرا سن پیدائش ہے، جب میں نے آنکھ کھولی تو اپنے گھر کے لان میں، ڈرائنگ روم میں، گیسٹ روم میں سر خالد سعید کو سگریٹ اور چائے پیتے دیکھا، میرا داخلہ زکریا پبلک سکول میں ہوا تو ہمارے سکول کی پرنسپل محترمہ نجمہ جعفری (جن کی سخت گیر طبیعت کی وجہ سے پورے سکول کے بچوں اور ٹیچرز کی ان سے جان نکلتی تھی) سے بھی سر خالد سعید کا بے تکلفی کا رشتہ تھا سر خالد سعید جب بھی سکول آتے تو میڈم سے پبلکلی معانقہ فرماتے جب میں نے یہ منظر پہلی بار دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی اور صرف میڈم کو یہ باور کرانے کے لیے کہ میں ان کو جانتا ہوں سکول میں سر خالد سعید کی ٹانگوں سے لپٹ گیا، سر مجھے کینٹین لے گئے چپس اور بوتل دلائی، میڈم نجمہ جعفری یہ سب دیکھتی رہیں اور مصنوعی غصے میں کہا کہ خالد تم نے ٹھیکا لیا ہے بچوں کو بگاڑنے کا، مجھے اس وقت لگا کہ جیسے کائنات کا کوئی بھی آدمی ایسا نہیں ہے کہ جو سر خالد سعید کا دوست نہ ہو۔

میں آج یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ساری زندگی سر خالد سعید سے باتیں سن کر اپنی شیخی بکھیری، سر خالد سعید کی نظمیں سنا سنا کر لڑکیاں پٹائیں، ساری زندگی جب بھی کسی ایسے آدمی کو ملا جو سر خالد سعید کو جانتا تھا اس کے سامنے اس بات کا پرائڈ لیا کہ میں سر خالد سعید کا چہیتا ہوں، میں ان لوگوں میں سے ہوں کہ جو سر خالد سے ”ہر طرح“ کا مذاق کر سکتے ہیں، میں وہ ہوں کہ جو اگر سر خالد سے کسی بھی طرح کی مدد مانگوں تو میرے سوال کے ختم ہونے سے پہلے ہی وہ پوری ہو جائے گی، لیکن بہت دیر بعد معلوم ہوا کہ یہ دعویٰ تو پورا ملتان کرتا ہے۔

اگر واقعات لکھنے بیٹھوں تو ہزاروں صفحوں کی کتاب بنے لیکن اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ میں نے خالد سعید سے کیا سیکھا تو اس کا دو لفظی جواب ہے کہ علم تو جتنا ان کے پاس ہے اس کا اعشاریہ ایک فیصد بھی میں ان سے حاصل نہ کر سکا لیکن جو مجھ ایسے دماغی مجہول کو انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی سکھا دیا وہ یہ تھا کہ انسانی رویہ کیا ہونا چاہیے؟

انسانیت کس طرح کے ٹمپرامنٹ کا تقاضا کرتی ہے؟ کیسے کسی ایسے شخص کی بات کو تحمل سے سننا ہے کہ جو آپ سے علم کے کئی درجوں میں کم ہو اور وہ آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ سے اس بات پر اختلاف کر رہا ہو کہ جس کی خبر اس کے بڑوں بڑوں کو بھی نہیں ہے تو اس کو جواب کیسے دینا ہے؟

سر خالد نے اپنے ہر عمل سے یہی سکھایا کہ کسی بھی صورت کسی کی تضحیک نہیں کرنی؟
سر خالد نے بتایا کہ خواص کسی بھی بلا کا نام نہیں ہے؟

سر خالد سعید نے بتایا کہ قصور صرف اپنا گنوایا جا سکتا ہے نہ کہ دوسرے کا۔ سر خالد سعید نے بتایا کہ انسانی مسائل کا حل صرف اس کے پاس ہے کہ جو پودوں، درختوں اور جانوروں سے مکالمے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ سر خالد نے بتایا کہ انسان کا خبط عظمت دراصل اس کے دماغ کا خلل ہے۔ سر خالد نے سمجھایا کہ عظمت ذمہ داری سے جڑی ہے؟ اور یہ بھی سر نے سمجھایا کہ ذمہ داری پوری کرنا کم از کم انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ بھی سر خالد سعید سے معلوم ہوا کہ جانوروں، پودوں، درختوں کے علاوہ اس سیارے کے بھی حقوق ہیں۔ سر خالد سعید نے بتایا کہ جب تک شیر لکھنا نہیں سیکھے گا شکاری جیتتا رہے گا۔ سر خالد نے بتایا کہ بادشاہ ننگا ہوتا ہے۔ سر خالد نے بتایا کہ لشکر جو بھی ہو یزیدی ہوتا ہے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں اتنا جاہل ہوں کہ مجھے یہ بھی سر خالد نے بتایا یہ ایک عہد تاریک ہے۔ یہ سن کر مجھے لگا کہ واقعی باہر تو بہت اندھیرا ہے۔

جب میرا سانس رکنا شروع ہوا، جب میری بینائی کمزور ہوئی تو سر خالد نے ہاتھ تھام لیا اور سگریٹ کا کش کھینچ کر کہا کہ پریشانی والی کوئی بات نہیں، اسی عہد تاریک میں سے روشنی پھوٹے گی اور عہد تاریک ختم ہو جائے گا جیسے پندرہویں اور سولہویں صدی کی صلیبی جنگوں کے بعد ہوا۔ ہم کہ جو سمجھتے تھے کہ سائنس کی ترقی انسان کی بہت بڑی کامیابی ہے تو سر خالد نے ٹھنڈی چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور فرمایا کہ اب تک کی ساری علمی کاوشیں صرف ایک استاد اور شاگرد کو پیش کیا گیا ٹریبیوٹ (Tribute) ہیں اور کچھ نہیں۔ یعنی اب تک کا کل سائنس اور فلسفے کا کام استاد (افلاطون) اور شاگرد (ارسطو) کا تعزیہ ہے۔

خالد سعید وہ بادشاہ ہے کہ جس کے دربار میں سبھی خلعت پاتے ہیں چاہے وہ لبرلز ہوں مولوی ہوں، ملحد ہوں، شاعر ہوں، سامع ہوں، افسانہ نگار ہوں، خاکہ باز ہوں، خشک فلسفی ہو، مسخرہ یا چھچھورا ہو، شاگرد ہو، استاد ہو، استادوں کا استاد ہو یا شاگردوں کا شاگرد ہو۔ اور اگر کوئی اس بادشاہ کو غلام کے روپ میں دیکھنا چاہے تو تب دیکھے کہ جب یہ بادشاہ ہمارے کزنز کوپی و چوچو مرحوم اور ہماری موجودہ کزن گگڑو کے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔

آج دس مارچ سر خالد سعید اور ان کے پیار ملتان آرٹس فورم کی سالگرہ ہے، ان دنوں سر خالد سعید کی طبیعت خاصی ناساز ہے۔ ان کے پھیپھڑے کا انفیکشن اس قدر بڑھ گیا کہ ان کو سگریٹ بھی ترک کرنی پڑ گئی ہے، یہ بات ان کے چاہنے والوں کے لیے بھی تکلیف دہ ہے نہ جانے خود ان پر کیا بیت رہی ہوگی کہ ساٹھ سال کا ساتھ چھوٹ گیا۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میری عمر بھی میرے استاد کو دے دے کیونکہ میں جو کہ گلیوں کی خاک ہوں اور وہ ایک باغ عدن ہے جو اسی شہر میں ہے۔

سر خالد سعید پر لکھنے بیٹھا ہوں تو دل کرتا ہے لکھتا جاؤں لکھتا جاؤں لیکن کچھ سوچ کر بات میر انیس کے ایک شعر پر ختم کر رہا ہوں۔

تو گرد اس کے پھر یہ کعبہ ایماں کا طوف ہے
بس! اے انیس بس! نظر بد کا خوف ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments