پوپ فرانسس اور آیت اللہ سید علی السیستانی میں ملاقات


6 مارچ 2021 کو دنیا بھر کے میڈیا نے انتہائی جوش و خروش کے ساتھ پوپ فرانسس (جن کا اصل نام جارج ماریو برگوگلیو ہے) کے دورہ عراق کو کوریج دینا شروع کر دی۔ ٹیلی ویژن سکرینز پر عراقی شہر نجف اشرف میں حرم امام علی علیہ السلام کے قریب کسی تنگ گلی میں پوپ کو پیدل چل کر شیعہ مسلمانوں کے با اثر فقیہہ، مرجع تقلید و مجتہد آیت اللہ سید علی السیستانی کے چھوٹے سے کرائے کے گھر میں جا کر ملاقات کرتے دکھایا گیا۔ میڈیا کے مطابق 84 سالہ پوپ فرانسس 90 سالہ آیت اللہ سید علی سیستانی کے کمرے میں اپنے جوتے اتار کر داخل ہوئے جب کہ آیت اللہ نے بھی ان کا کھڑے ہو کر استقبال کیا۔

آیت اللہ سیستانی عموماً ملنے آنے والوں کے لئے کھڑے نہیں ہوتے۔ اطلاعات کے مطابق دونوں بزرگ رہنماؤں کے درمیان ملاقات کوئی چالیس سے پچاس منٹ تک جاری رہی۔ ملاقات میں پوپ فرانسس نے کمزور ترین طبقات کے دفاع میں آواز بلند کرنے پر آیت اللہ سیستانی کا شکریہ ادا کیا۔ آیت اللہ سیستانی عام طور پر کیمروں اور میڈیا کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں لیکن عالمی اور عراقی میڈیا میں پاپائے روم کے اس تاریخی دورے کو زبردست کوریج دی گئی۔

دراصل آیت اللہ سیستانی نے حکم دیا تھا کہ داعش نے جن عیسائی لڑکیوں کو گرفتار کیا اور اب انہیں بیچ رہے ہیں ان عیسائی لڑکیوں کو خرید کر عزت کے ساتھ ان کے والدین تک پہنچایا جائے۔ اس اعلان نے دنیائے مسیحت کو حیرت میں ڈال دیا اور آقائے سیستانی کا مقام پوری دنیا میں بلند کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملاقات کو تاریخی ملاقات کے طور پر دنیا بھر میں پذیرائی ملی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل پوپ مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک جن میں متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش، مراکش اور ترکی شامل ہیں کے دورہ جات کے دوران وہاں کے سرکردہ علماء سے ملاقات کر چکے ہیں۔ پوپ نے دو سال قبل سنی العقیدہ مسلمانوں کی انتہائی معتبر شخصیت امام اعظم شیخ احمد الطیب (جامعہ الأزہر) سے بھی ملاقات کی تھی اور بین المذاہب مکالمے پر زور دیا تھا۔

نجف اشرف سے رخصت ہوتے ہی پوپ نے آیت اللہ سید علی الحسینی سیستانی سے ملاقات کے اپنے تجربے کا یوں اظہار کیا:

”میں نے ایک عظیم آدمی، ایک بڑے بزرگ، ایک حقیقی بندۂ خدا سے ملاقات کو اپنا فرض سمجھا۔ وہ ایسا شخص ہے جس کے پاس دوراندیشی ہے علم و ادراک ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا پچھلے 10 سالوں میں ایسے افراد نہیں ملے جو سیاسی مقاصد کے لیے ان سے ملنے آئے، وہ صرف ان لوگوں سے ملے جو مذہبی لوگ ہیں۔ ہماری ملاقات میں وہ بہت قابل عزت اور بہت زیادہ قابل احترام تھے ، میں نے اپنے لیے یہ اعزاز محسوس کیا کہ وہ لوگوں کو سلام کرنے کے لئے کبھی نہیں اٹھتے لیکن وہ مجھے سلام کرنے کے لئے دو بار اٹھے۔ وہ عجز اور انکساری سے بھرپور اور ذہین آدمی ہیں۔ اس ملاقات نے میری روح کو روشن جلا بخشی ہے“

اسی طرح کے الفاظ آج سے ٹھیک 45 سال قبل 1976 میں السید موسیٰ الصدر کے بارے میں پاپائے روم نے کہے تھے۔ موسیٰ الصدر سے اس وقت کے پوپ کی ملاقات ویٹیکن میں ہوتی ہے۔ ملاقات کا وقت فقط 15 منٹ مقرر ہوتا ہے۔ جب ملاقات کا وقت شروع ہوتا ہے تو بابا ویٹیکن سید موسیٰ الصدر کی علمی گفتگو میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ دو گھنٹے گزر جاتے ہیں اور وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا اور جب ویٹیکن سے سید موسیٰ الصدر کو الوداع کرتے ہیں تو خوشی سے ایک بھاری رقم آپ کو بطور ہدیہ عطا کرتے ہیں۔ سید موسیٰ الصدر وہ رقم قبول کر لیتے ہیں اور وہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں اور راستے میں ایک زیر تعمیر کلیسا کو وہ رقم ہدیہ کر جاتے ہیں، جب پوپ کو اس بات کا علم ہوتا ہے تو پوپ کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلتے ہیں ”شبیہہ عیسیؑ تھا وہ شخص“ ۔

پوپ فرانسس بین المذاہب مکالمہ کے پرجوش حامی ہیں۔ انہوں نے قسطنطنیہ میں کیتھولک چرچ اور ایکو مینیکل پیٹریارچ یعنی آرتھوڈوکس چرچ کے ساتھ مکالمہ پر بھی زور دیا اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنے مخالف مذہب کے بشپ بارتھولومیو 1 سے بھی ملاقات کی اور اپنے بیان میں کہا کہ وہ آرتھو ڈوکس کے مابین ہم آہنگی کے لیے ترس رہے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ نفرت، تشدد اور قتل و غارت مذہب کے نام پر ہی ہوئی ہے حالانکہ ہر مذہب کی بنیادی اساس عدم تشدد ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب فساد فی الأرض کی ممانعت کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے نیم ملا (چاہے کسی بھی مذہب ومسلک سے ہوں ) خطرہ ایمان کی وجہ سے صلیبی جنگ کا نعرہ معرض وجود میں آیا اور کلیسا و مینار باہم دست و گریبان ہوئے۔ تاہم آج کی زخم خوردہ اقوام عالم اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ تشدد ختم کے لیے بین المذاہب مکالمہ شروع کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 2010 میں اقوام متحدہ نے ہر سال ماہ فروری کے پہلے ہفتے کو ورلڈ انٹرفیتھ ہارمونی ویک (WIHW) کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ کے اس کنونشن کے مطابق مساجد، چرچز، سیناکوگز، ٹیمپلز اور دیگر عبادت گاہوں میں ان مذاہب کی عبادات ان کے رسم و رواج روایات کے مطابق ادا کرنے اور ثقافت کے ذریعے امن اور عدم تشدد کے فلسفے کو فروغ دینا ہے۔

پاکستان میں بھی پہلی بار وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کے قریب سوہاوہ کے مقام پر پہلی بین المذہبی ہم آہنگی سے متعلق یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ قبل ازیں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں پہلی بار قومی امن کمیٹی برائے بین المذاہب ہم آہنگی کا قیام عمل میں لایا گیا اور علامہ ایاز ظہیر ہاشمی کو اس کمیٹی کا مرکزی چیئرمین نامزد کیا گیا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 اے اور بی کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب و مسلک کے مطابق زندگی گزارنے اور تبلیغ کرنے کی آزادی ہے جب کہ آرٹیکل 36 میں اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا گیا ہے بلکہ وفاقی اور صوبائی ملازمتوں میں مخصوص کوٹہ بھی دیا گیا ہے۔

وزارت مذہبی امور کے مطابق وہ اپنے بجٹ کا 30 فیصد سالانہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی مرمت، چھوٹے ترقیاتی منصوبوں اور تہواروں کو منانے پر خرچ کرتی ہے ۔ قبل ازیں وزارت اقلیتی امور الگ سے کام کرتی تھی مگر اب اسے وزارت مذہبی امور کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ بہرحال اب دنیا جان چکی ہے کہ تشدد، نفرت دہشت گردی کا خاتمہ اور پائیدار امن صرف اور صرف بین المذاہب ڈائیلاگ سے ہی ممکن ہے۔

خوبصورت اور پر امن دنیا کے قیام کے لئے بلا تفریق رنگ و نسل مذہب و ملت اقوام عالم کو متحد ہو کر پوری سنجیدگی اور محنت سے کام کرنا ہو گا۔ چونکہ پاکستان دہشت گردی کا بدترین نشانہ بنا رہا ہے ، عوام اور افواج پاکستان نے اس سلسلے میں ان گنت قربانیاں پیش کی ہیں جس سے عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس لیے پاکستان آگے بڑھ کر بین المذاہب ہم آہنگی کے قیام کے لئے عالمی سطح پر بہترین کردار ادا کر سکتا ہے۔

تہذیبوں کے تصادم اور تشدد کے فلسفے کی نفی صرف اور صرف انسانی بقائے باہمی، برداشت اور مشترکہ اقدار کے فلسفے کے فروغ سے ہی ممکن ہے۔ یہ دنیا اب مزید تشدد، قتل و غارت، عدم برداشت اور دہشت گردی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ رواداری، برداشت، امن وامان، تحمل سے ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سننے اور جیو اور جینے دو کے کلچر کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments