محمد مظفر میو کی کتاب ’خزاں کے بیج‘


محمد مظفر میو صاحب نے فرخ سہیل گوئندی صاحب کے اصرار پر پہلی کتاب بنام ”خزاں کے بیج“ لکھی ہے۔ یہ کتاب سوات جنگ سے متعلق ایک فکرانگیز کہانی ہے۔ اگر یہی کتاب حقیقی کرداروں کے ساتھ لکھی جاتی تو ابھی تک کتاب یا صاحب کتاب میں سے ایک یا دونوں لاپتا ضرور ہوتے۔ اس لیے کتاب ڈائیلاگ کی مدد سے ڈرامہ کی شکل میں لکھی گئی ہے جس کے تمام کردار نام سے تو فرضی ہیں مگر ان کا ”کردار“ حقیقت کے بہت قریب ہے۔

اس کتاب کی کہانی دو خاندانوں کے گرد گھومتی ہے، جن میں سے ایک خاندان کے بیٹے اور دوسرے خاندان کی بیٹی کے درمیان منگنی طے پاتی ہے۔

اس نوجوان کو فرضی نام محسن کمال کا دیا گیا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور لڑکی کا نام افشین ہے۔ محسن کمال اپنے بھائی کے ساتھ ہوٹل چلاتا ہے اور مقامی مولانا اویس (فرضی نام) کے مدرسہ کو باقاعدگی سے چندہ دیتا ہے۔ اسی دوران وہ مولانا اویس کے بہت قریب ہو جاتا ہے۔ یہ مولانا صاحب محسن کو ”نفاذ شریعت“ کے سنہرے خواب دکھاتے ہیں جو اس کے شدت پسند بننے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

جب محسن کے گھر والوں کو اس بات کی بھنک پڑتی ہے تو وہ اسے اس راستے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس کا ایک ہی جواب ہوتا ہے، ”میں تو صرف شریعت کے پرامن نفاذ کا حامی ہوں، اگر علاقے میں شرعی نظام نافذ ہو جائے تو اس میں ہمارا نقصان کیا ہے؟ الٹا فائدہ ہے“ ۔ افشین کے والد بھی افشین کو محسن کے پاس بھیجتے ہیں تاکہ وہ اسے اس راستے سے ہٹائے۔

افشین محسن سے تلخ سوال کرتی ہے کہ یہ جو عورتوں سے تعلیم کا حق چھین رہے ہو، یہ جو بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے روک رہے ہو، یہ جو میوزک کی دکانوں کو دھماکوں سے اڑا رہے ہو اور جو بے چارے حجاموں کو سزا دے رہے ہو، یہ ہے نفاذ شریعت؟

محسن ”یہ ہمارے لوگ نہیں، ہم پرامن ہیں“ کہہ کر تمام سوالوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ مولانا اویس محسن کی برین واشنگ اتنی مہارت سے کرتے ہیں کہ ”پرامن شریعت“ کے خواب دیکھتے ہوئے اسے احساس بھی نہیں ہو پا رہا ہوتا کہ وہ کتنے غلط راستے پر چل رہا ہے۔

اسی دوران افشین کو ایک صحافی سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی افواج سوات میں آپریشن کرنے پر سنجیدگی سے سوچ رہی ہیں۔ افشین کو محسن کی طرف سے جب ناکامی صاف دکھائی دیتی ہے تو وہ خودکشی کا راستہ اپناتی ہے مگر ڈاکٹر اس کی زندگی بچانے میں کامیاب ٹھہرتے ہیں۔

محسن پر افشین کی خودکشی کی کوشش کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ”میں نے کب سوچا تھا کہ یہ لوگ ایسے عجیب وغریب فلسفہ کو پروموٹ کریں گے۔ میں تو مذہب کی محبت میں ان لوگوں کے ساتھ چل پڑا۔ میں نے انہیں وقت دیا، بہت سا روپیہ دیا، دوستوں کو ان کے ساتھ شامل ہونے کو کہا، مگر نتیجہ کیا نکلا؟ عجیب و غریب خیالات، تباہی اور بربادی کی سوچ، نفرت اور شدت پسندی کی انتہا، مجھے تو نفرت ہونے لگی ہے ان کی اس سوچ سے“ ۔

محسن، افشین سے شدت پسندی کا راستہ چھوڑ کر اسلام آباد شفٹ ہونے کا وعدہ کر کے مولانا اویس سے آخری بار ملنے جاتا ہے۔ محسن مولانا سے بھی درخواست کرتا ہے کہ ریاست سے نہ لڑو، مگر مولانا جواب دیتے ہیں، ”ہمیں شہادت کی موت پر فخر ہے۔ ہمارے بہت سے ساتھی پہلے ہی شہید ہو چکے ہیں۔ ہم کیسے اپنے شہیدوں سے غداری کر سکتے ہیں۔ ہم کبھی بھی ہتھیار نہیں پھینکیں گے“ ۔

محسن جب اپنی فیملی کے ساتھ اسلام آباد کے لیے نکلتا ہے تو ایک خودکش بمبار ان کی گاڑی کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ وہ خودکش بمبار سے بچنے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر وہ ان کی گاڑی سے ٹکرا جاتا ہے۔ محسن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیتا ہے۔ جب یہ خبر والد کی طرف سے افشین تک پہنچتی ہے تو وہ زور زور سے رونے لگتی ہے۔

یہ مختصر سی کہانی ختم ہو چکی اور سوات جنگ بھی ختم ہو چکی مگر اس ”نفاذ شریعت“ کے لیے لوگوں کے ذہنوں اور ان کی زندگیوں کے ساتھ کیسے کھیلا گیا ، اس کی صرف ایک مثال کتاب سے ملاحظہ فرمائیں۔

یہ ایسے نوجوان کی زبانی ہے جو محسن کو مولانا اویس کے مدرسے میں ملا تھا، اس نے مولانا کے ساتھ جڑنے کی وجہ کچھ یوں بتائی، ”میرے والد صاحب کی سوات میں میوزک کی دکان تھی۔ ایک دن دھماکے سے اڑا دی گئی۔ والد صاحب نماز پڑھنے گئے ہوئے تھے اس لیے دکان میں تالا نہیں لگا تھا۔ شکر ہے والد صاحب بچ گئے۔ پھر کیا تھا، معاشی حالات خراب ہو گئے۔ بات فاقوں تک آ پہنچی۔ ایک دن ایک دوست نے مجھے شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں قائل کرنے کی کوشش کی۔

معاشی حالات پہلے ہی انتہائی خراب تھے۔ میں نے ادھر ان لوگوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ اب جیسے یہ کہتے ہیں میں کرتا ہوں۔ ویسے بعض دفعہ دل پریشان ہو جاتا ہے کہ پہلے تو مسلمانوں نے ایسے کبھی نہیں کیا جیسے یہ لوگ کرتے ہیں۔ لیکن مذہب کے بارے میں اتنا زیادہ علم نہیں رکھتا، اس لئے چپ ہو جاتا ہوں اور کوئی دوسرا ذریعہ معاش بھی نہیں۔ یہ کچھ پیسے دے دیتے ہیں، جب ضرورت ہوتی ہے“

کتاب کی حد تک یہ کہانی ختم ہو گئی مگر حقیقی معنوں میں یہ آج بھی جاری ہے۔ آج بھی معاشرے میں ہزاروں ”محسن کمال“ ہیں جنہیں آئے روز کسی نہ کسی نام نہاد جہاد یا زبردستی کی شریعت کی خاطر ورغلایا جاتا ہے، شہادت کے نام پر جنت کا لالچ دیا جاتا ہے اور سینکڑوں ”مولانا اویس“ ہیں جو اس دھندے کو ”دینی فریضہ“ کے نام سے سر انجام دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments