سات دن، سات ووٹ اور طلسماتی سیاست


زرداری کی سات دن کی جیت کا سحر ٹوٹ کر بکھر گیا۔ مارچ کی پانچ تاریخ کو ان کے ساتھی ”ایک زرداری سب پر بھاری“ کا سیاسی منتر جپ رہے تھے اور وفادار یوسف رضا گیلانی کی جیت کو زرداری کا طلسماتی کرشمہ گردان رہے تھے۔

عمران خان حکومت بس دنوں کی مہمان ہے، اسٹیبلشمنٹ اب ”نا لائقیوں اور نا اہلیوں“ کا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک گئی ہے، وسیم اکرم پلس بزدار جانے والے ہیں، اسٹیبلشمنٹ ”نیوٹرل“ ہو گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسلام آباد کے اقتدار کی راہداریوں میں سازشی تھیوریوں کی گردش، زرداری کے وفاداروں کے اپوزیشن اتحاد کے گرد ”مستقبل کی جیت“ کے پھیرے۔ نواز شریف، مریم اور ان کے وفاداروں کے اسٹیبلشمنٹ پر وار جاری۔ مولانا فضل الرحمان زرداری کی ”عارضی“ جیت کے باعث سیاسی طور پر خاموش۔

دوسری طرف حفیظ شیخ کی شکست کے بعد عمران خان نے 1992 کے ورلڈ کپ کی طرح ایک ”زخمی ٹائیگر“ کا روپ دھار لیا۔ زرداری، نواز شریف کے خلاف ”چور“ اور ”لٹیرے“ کے القابات کو ہر بیان میں لازمی قرار دینا، گیلانی پر ووٹوں کی خریداری کا الزام لگانا، ان کے ساتھیوں کا بپھرنا، ہر ٹاک شو میں سینیٹ چیئرمین کے الیکشن میں اپنی جیت کو یقینی ثابت کرنا۔ ہر قیمت پر جیت۔ ہر ٹی وی اسکرین پر خان صاحب کے ساتھی شبلی فراز کے غصیلے انداز میں بیانات۔ زبان ہے پھسل ہی جاتی ہے۔ رات گئے ایک ٹی وی شو میں انہوں نے بیان داغ دیا کہ حکومت ہر حربہ استعمال کرے گی جو اپوزیشن اختیار کرے گی۔ فٹبال میں اپوزیشن کو اگر ہاتھ استعمال کی اجازت ہوگی تو کیا حکومت صرف ٹانگوں سے کھیلے گی۔ بیان میں جائز اور ناجائز طریقہ کے استعمال پر خوب واویلا ہوا۔ صبح شبلی صاحب نے بیان کی تصحیح کرتے ہوئے جائز اور سیاسی حربے کے استعمال کی وضاحت کی۔ جو ڈیمیج ہونا تھا وہ تو خیر ہوا۔

اویس توحید کی مزید تحریریں
بائیڈن کا افغانستان
انتہاپسندی، ماضی کی مہربانیوں کا ہے یہ فیض
’لب آزاد ہوں نہ ہوں لیکن ہاتھ تو آزاد ہیں‘

سات دن بعد یعنی مارچ کی 12 تاریخ۔ گیلانی بمقابلہ صادق سنجرانی۔ عمران خان حکومت بمقابلہ اپوزیشن اتحاد۔ ایک بڑی لڑائی کا سماں بالکل ویسا ہی جیسے ہمارے بچپن میں گاؤں دیہات میں باہر سے آئے پہلوانوں کے مابین بڑے دنگل کا سا سماں ہوتا تھا۔

اپوزیشن کا پہلوان گیلانی اور مدمقابل صادق سنجرانی جنہیں شیخ رشید نے ”ریاست اور حکومت“ کا نمائندہ قرار دیا تھا۔ ہم انہیں حکومت اور ریاست کا پہلوان کہنے کی گنجائش لے لیتے ہیں۔

الیکشن کی رات ایک طرف حکومت اور اتحادیوں کے سینیٹرز جمع، دوسری جانب اپوزیشن اتحاد کے سینیٹرز۔ وفاداریوں کے قسمیں وعدے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دنگل کے فکس ہو نے کا دونوں جانب شبہ تھا۔

ایک طرف قسمیں لی جا رہی تھیں اور دوسری جانب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ پرویز خٹک اور صادق سنجرانی نے سینیٹرز سے قرآن پاک پر حلف لینے کی کوشش کی۔ بیرسٹر علی ظفر اور کچھ دوسرے سینیٹرز کے تحفظات کے بعد زبان پر اعتبار کو ترجیح دی گئی۔

عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو سات دن قبل حفیظ شیخ کی شکست کا بدلہ لینا تھا، سینیٹ کی چیئرمین سیٹ حاصل کرنا تھی، اپوزیشن اور سیاسی حلقوں میں ثابت کرنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اور ان کے مابین اپوزیشن دراڑ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔

پاکستانی سیاست میں بدقسمتی سے چاہے حکمراں جماعت کے سیاستدان ہوں یا پھر اپوزیشن جماعتوں کے محاذوں پر جمہوریت کی جنگ میں مصروف نظر آتے گھاگ سیاستدان، بیشتر اسٹیبلشمنٹ کی آشیرواد کو ایک تمغہ سمجھتے ہیں۔

نواز شریف ہوں یا زرداری یا پھر مولانا سب کی نگاہیں اس سیاسی دنگل پر لگی ہوئی تھیں۔ زرداری کی سیاسی ساکھ داؤ ہر لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے ہی مولانا اور نواز شریف کو اسمبلیوں سے استعفوں سے باز رکھا تھا اور ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے پر راضی کیا تھا۔ ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کی جیت اور گیلانی کی حفیظ شیخ کے مقابلہ میں فتح کے بعد زرداری کی سیاسی شخصیت کا وزن بڑھ چکا تھا اور بس یوں سمجھا جا رہا تھا کہ بازی پلٹنے والی ہے۔

سینیٹ میں خفیہ پولنگ کے تحت ووٹنگ سے قبل ڈرامہ اور ایک تنازعہ۔ نواز شریف کے ساتھی سینیٹر مصدق ملک اور پیپلز پارٹی کے مصطفی نواز کھوکھر نے پولنگ بوتھ میں غیر قانونی طور پر نصب کیے گئے کیمروں کا انکشاف کیا۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا اور سوال کہ سینیٹ بلڈنگ میں سیکیورٹی کس کی ذمہ داری، اپوزیشن کے الزامات۔ سمجھنے والوں کے لیے اشارے کافی۔

بالآخر جب ووٹوں کی گنتی ہوئی تو گیلانی کے حق میں ڈالے گئے سات ووٹ مسترد قرار دیے گئے۔ پریذائیڈنگ افسر مظفر شاہ صاحب کا جو حکومتی اتحاد کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، فیصلہ کہ مہر گیلانی کے نام پر لگائی گئی نا کہ ان کے نام کے سامنے والے خانہ میں۔ اپوزیشن کا احتجاج کہ خانہ کے اندر مہر لگی ہے اس وجہ سے مظفر شاہ کا فیصلہ غیر قانونی ہے۔ ایک قانونی جنگ تو سامنے نظر آ رہی ہے کہ اپوزیشن اب اس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔

سوالات جنم لے رہے ہیں کہ اپوزیشن کے یہ کون سے سات سینیٹرز ہیں جنہوں نے ”خانہ خراب“ کیا ہے۔

پیپلز پارٹی مظفر شاہ کے فیصلہ پر اب احتجاج کر رہی ہے تو الیکشن میں ان کی ”ثالث“ کی حیثیت پر پہلے اعتراض کیوں نہیں کیا۔

مظفر شاہ صاحب ناقدین کی نظر میں کئی دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کی اڑن طشتری میں سوار رہے ہیں۔ تنازعات سے بھرپور سینیٹ الیکشن میں کسی کی جیت ہو یا شکست بدقسمتی سے پاکستان کے داغدار سیاسی نظام کی عکاس ہے۔ اپوزیشن اتحاد میں زرداری کے بیانیہ کو دھچکہ پہنچا ہے۔ آنے والے دنوں میں نواز شریف اور مولانا کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ حاوی نظر آئے گا۔

زرداری اور پیپلز پارٹی کو مولانا اور نواز شریف کے ساتھ لانگ مارچ اور دھرنے کی سیاست کا ساتھ دینا پڑے گا۔ ادھر سنجرانی کی جیت سے مسائل کے انبار تلے دبی عمران خان حکومت کو رکاوٹوں کا سامنا رہے گا۔ سینیٹ میں اپوزیشن کو معمولی برتری حاصل ہے جو آئندہ قانون سازی کے مراحل میں رکاوٹ ثابت ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی مشکلات ہیں۔ اگر پارلیمانی نظام میں اپوزیشن کے لیے سیاسی اسٹیکس ختم ہو جائیں گے تو گھٹن کے ماحول میں پاکستان کی سیاست، نظام سے ٹکراؤ والا خطرناک رخ اختیار کرے گی۔

یہ سیاسی کھیل طلسماتی سیاست کی بھول بھلیوں کی نذر ہو گیا تو نظام کی تباہی کا ڈر ہے۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے اردو

اویس توحید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس توحید

اویس توحید ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں ای میل ایڈریس owaistohid@gmail.com Twitter: @OwaisTohid

owais-tohid has 34 posts and counting.See all posts by owais-tohid

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments