برا نا منائیے گا



عمر بھائی، برا نا منائیے گا، مگر آپ کی حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ یہ فقرہ ایک جاننے والے نے ہماری پہلی ہی ملاقات میں، ہمیں رتی بھر بھی جانے بنا، بغیر کسی ہچکچاہٹ ادا کیا تو ہم نے گھبرا کے خود کو دیکھا۔ ہاتھ پاؤں سلامت پائے تو چہرے پر ہاتھ پھیرا کہ کہیں ناک وغیرہ تو نہیں کٹوا بیٹھے۔ وہاں بھی خیریت پائی تو حیرت زدہ ہو کر ان کی جانب دیکھا کہ ان کے لہجے کے اعتماد، آنکھوں کی چمک اور ایک ہی فقرے سے ہمارا ایمان ڈگمگا دینے کی صلاحیت سے لگا کہ یہ یقیناً کوئی برگزیدہ شخص ہے اور ہو نا ہو میری حالت سے مراد میرے گناہ اور خطاکاریاں ہی ہوں گی۔

دل ہی دل میں فون، واٹس ایپ اور سوشل میڈیا وغیرہ سے ان تمام حسیناؤں کی فہرست مٹانے کا عہد کیا جن کے نمبر سالوں سے سنبھال رکھے تھے اور ہر عید، شب رات اور نئے سال پر پھولوں کے گلدستوں والے مبارک بادی پیغام اس امید سے بھیجتے کہ شاید واپسی پر ایک آدھ پھول آ جائے اور ہماری بھی عید ہو جائے۔ اتنے میں وہ پھر بولے کہ برا نا منائیے گا ایک سال پہلے تک میرے حالات آپ سے بھی بدتر تھے۔ اب میرے خشوع میں ذرا اور اضافہ ہوا کہ یہ بندہ بھی گلدستوں والے میسجز سے نا امید ہو کر راہ خدا کا مسافر بنا ہے، اور کیسا اچھا راستہ چنا اس نے۔ سر کو جھکایا اور ادب سے بولے آپ ہی بتائیں کہ ان حالات کو کیسے بدلوں؟

انہوں نے کچھ دیر کھوجتی نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور بولے کل سے باقی سب کام چھوڑ دیں، اور ٹرک کا لائسنس حاصل کریں۔ کچھ دیر تو ہم حیرت اور غصے کی کیفیات کے درمیان جھولتے رہے۔ یک دم ان کی پیری کا جو خوف طاری ہوا تھا وہ ہوا ہو گیا اور پھولوں والے میسجز نا بھیجنے کا دل میں کیا ہوا عہد دل ہی میں توڑ دیا۔ اب ان موصوف کی طرف متوجہ ہوئے جو ہمارے خالہ زاد کے دور کے عزیز تھے اور انہیں ہمارے یہاں چھوڑنے آئے تھے۔

ہم بس غلطی یہ کر بیٹھے کہ انہیں نیک نیتی سے اندر آنے کی دعوت دے دی کہ دور سے آئے ہیں اور چائے پانی پوچھنا ہمارا فرض۔ خیر پتا لگا کہ آج ان کی بیگم کی سالگرہ تھی اور وہ انہیں ایک سپورٹس کار تحفے میں دلا کر اپنے بال بچوں سمیت سیدھا ہماری طرف ہی پہنچے ہیں۔ اب یہ وہ تھے یہ ان کی کار تو پارٹی تو بنتی تھی نا۔ ان کی مہنگی گاڑی کی خوشی میں میرے نوجوان عزیز نے کھانا لیا اور فیصلہ ہوا کہ باہر تو کرونا کے باعث ریستوران وغیرہ بند ہیں اس لیے گھر بیٹھ کرہی کھانا کھا لیا جائے جس کے بعد وہ واپس روانہ ہو سکیں۔

خیر اب ہم ان کے ابتدائی حملے سے سنبھل چکے تھے اور انہیں بتایا کہ ایک دو جگہ محنت مزدوری سے گزارا چل جاتا ہے۔ ساتھ ہی اپنی گزشتہ زندگی کیریئر اور لکھنے پڑھنے کے حوالے سے بتا کر شاباش لینے کی کوشش کی تو جواب ملا کہ یعنی پہلے بھی وقت ہی ضائع کر رہے تھے اور اب کینیڈا آ کر بھی وہی کر رہے ہیں۔ ابھی اس کا جواب تیار کر ہی رہے تھے کہ اگلا سوال آیا۔ گھر اپنا ہے؟ انہیں بتایا کہ ابھی تو کرایہ پر بڑی مشکل سے ملا ہے، کجا اپنا ہو۔

انہوں نے ایک بار پھر تاسف سے سر ہلایا اور اپنے کسی سالے کا ذکر کیا کہ اس نے ٹرک چلایا اور دو ہی سالوں میں قسطوں پر اپنا گھر بھی لے لیاہے۔ اب ہم نے ذرا احتجاج کیا کہ ہمیں آئے تو دو سال بھی نا ہوئے اور ہم اپنی ترقی کی رفتار سے مطمئن ہیں باقی ٹرک چلانے کی مہارت اور مزاج سے بھی عاری ہیں، تو ہماری طرف ہمدردی کی ایک نظر ڈالی اور بولے برا نا منائیے گا آپ کے ارادے انتہائی پست ہیں۔

اب کچھ تو ہم ذرا سے زبان دراز تھے اور باقی انہوں نے کوئی کسر نا چھوڑی تو پوچھ بیٹھے کہ ویسے تو کوئی کام بڑا چھوٹا نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ جنوبی امریکہ میں ٹرک ڈرائیور بہت سے نوکری پیشہ افراد سے اچھا کماتے ہیں مگر آپ کو یہ کیوں لگتا ہے کہ دنیا نے ساری ترقی ٹرک کا لائسنس حاصل کر کے کی؟ اگر ایسا ہی تھا تو ہم نے یونہی پاکستان سے کینیڈا تک جہاز کا ٹکٹ خریدا بس ایک ٹرک کا لائسنس حاصل کر لیتے۔ اور یہ جو چاند سے لے کر مریخ تک کے سفر میں دنیا اربوں کھربوں ضائع کر رہی ہے یہ ایک ٹرک ٹرالا خرید کر منہ طرف چاند شریف کریں اور ہو جائیں روانہ۔

اب وہ ہم سے نا امید ہوتے جا رہے تھے مگر ہمت نہیں ہاری، بولے دیکھیں ٹرک تو صرف آغاز ہے، پھر اپنی شاہانہ زندگی کی مثال دی کہ ٹرک سے پیسہ بنایا اور اب کیسے وہ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے اور کرواتے ہیں۔ اور تو اور یہاں کسی مقامی الیکشن میں بھی حصہ لے چکے ہیں اور اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کے باوجود تیسرے نمبر پر آئے تھے۔ یہ الگ بات کہ ان کے جانے کے بعد پتہ لگا کہ تین ہی امیدوار تھے اور غالباً دس یا بارہ ووٹ لے کر وہ تیسرے اور آخری نمبر پر آئے تھے۔

پھر سمجھایا کہ سرمایہ کب کہاں لگانا نکالنا ہے اس میں ان کی مہارت کی داستان زبان زد عام ہے۔ اور ترقی کرنے کے یہ راز وہ کسی پر کھولتے نہیں بس اب ہم کیوں کہ ان کے اپنے ہیں اس لیے وہ ترقی کے راستے ہم پر کھولنا چاہ رہے ہیں۔ ہم نے پھر معذرت کی کہ ہم ایک مطمئن زندگی گزار رہے ہیں اور اطمینان کا تعلق صرف بے انتہا دولت یا چار پانچ گھروں کی ملکیت سے نہیں ہوتا، آپ کے اہل خانہ، دوست، صحت تندرستی اور ذہنی آسودگی وغیرہ نام کی بھی چیزیں پائی جاتی ہیں۔

جس پر انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ یہ سب غیر ضروری فکریں ہیں جو صرف ترقی کا راستہ روکنا چاہتی ہیں۔ ان کے بتائے راستے پر چلنے سے یہ سب آسودگی وغیرہ تو رہے گی، ساتھ میں پیسہ خود میرے پیچھے بھاگے گا۔ اس کے علاوہ حصول علم کے لئے کالج، یونیورسٹی جانے کو بھی بے کار کا کام اور شکر گزاری کو سفید پوشی کا بھرم قرار دے ڈالا۔

خیر وہ تو اپنا گیان دے کر چلے گئے مگر ہم سوچ میں پڑ گئے کہ یہ صاحب صرف ہمیں ہی نہیں یقیناً اپنے تمام ملنے والوں کو بھی یہی سبق سناتے ہوں گے کہ ہر وہ انسان ناکام اور نکما ہے جو پیسہ بنانا، ایک کے بعد دوسرا گھر خریدنا اور سٹاک بازار میں ہمیں پیسہ کمانے اور زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش سے ذرا بھی انکار نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم نے اپنا ملک چھوڑنے کا فیصلہ اپنے اور اہل خانہ کے لئے زیادہ بہتر مواقع کی تلاش کے لئے کیا۔

مگر کیا زندگی میں خوشی اور طمانیت کا تعلق زیادہ بڑا گھر اور اکاؤنٹ میں بے شمار پیسے سے ہی ہے؟ کیا ملک چھوڑنے کے بعد ہم سب کو صرف ڈالرز کی دوڑ میں شامل ہونا ضروری ہے؟ تیز رفتار ترقی کے واسطے ایسی بھی کیا دوڑ، کہ چند سال بعد جب آپ کو فرصت ملے تو آپ کے بچوں کو آپ کے لیے فرصت نہ ہو۔ کیا ہم لوگ ایک نسبتاً پرسکون زندگی گزارنے کے لئے اتنی ہی محنت پر اکتفا نہیں کر سکتے، جس سے ہماری ضروریات اچھے طریقے سے پوری ہو جائیں؟

اس مختصر سی زندگی میں خدا نے ہمیں باقی مخلوقات پر جو فضیلت دی ہے وہ فکر اور احساس کی بنیاد پر ہے۔ اور انہی اصناف کی بنیاد پر ایک خاندان جڑا اور معاشرتی قائم رہتا ہے۔ حصول رزق کے لیے محنت ضرور کیجئے مگر اس محنت کا محور آپ کا خاندان ہونا چاہیے جنہیں آپ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اگر کام اور ذاتی زندگی کے درمیان توازن قائم نا رہے تو بینک اکاؤنٹ تو بھر جاتے ہیں، انسان ادھورا رہ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments