برسات کی وہ رات!


باہر تیز طوفان کا شور تھا! میں ہسپتال سے لائی گئی کچھ فائلز پڑھ رہا تھا۔

”اف آج تو ٹھنڈ بہت ہی بڑھ گئی، ابھی بچوں کے اوپر ایک اور کمبل ڈال کے آئی ہوں“ عائشہ نے اپنے گرد کمبل لپیٹتے ہوئے کہا،

” پہاڑی علاقوں کے طوفان ایسے ہی ہوا کرتے ہیں، صبح دیکھنا تو مطلع صاف ہوگا“

میں نے فائل پہ جھکے جھکے جواب دیا۔ کام کرتے کرتے دفعتاً گھڑی پہ نظر پڑی تو ایک بج رہا تھا، سونا چاہیے اب، کل دن کی مشقت کے لئے کچھ تو پاس ہو، میں سوچ کر دل ہی دل میں مسکرا دیا۔

عائشہ کب کی سو چکی تھی۔ میں بچوں کے بیڈروم کی طرف بڑھا، کہیں کوئی باہر کے شور سے جاگ ہی نہ گیا ہو۔ عزیر تو سوتے میں کروٹیں بدلتا ہے کہیں کمبل ہی نہ اتار پھینکا ہو۔ آہستگی سے دروازہ کھول کر جھانکا تو میرے دونوں خدشات وہم نکلے۔ دونوں بچے گہری نیند میں تھے۔

اپنے نرم گرم بستر میں دبکتے ہی مجھے نیند آ گئی۔ شدید ٹھنڈ میں کمبل لپیٹ کر سونے میں ایک اپنا ہی مزا ہے اور ساتھ میں اگر بارش کا جلترنگ بھی شامل ہو۔ نیند کی وادیوں میں گم ہونے سے پہلے آخری خیال یہی تھا۔

تھپ تھپ تھپ۔ کھولیے، دروازہ کھولیے۔ تھپ تھپ تھپ۔ پلیز جلدی دروازہ کھولیے۔ تھپ تھپ تھپ۔ ڈاکٹر صاحب، عائشہ بھابھی، جلدی کیجیے۔

میں شاید خواب دیکھ رہا تھا، خوف سے بھری التجا اور دروازہ پیٹنے کی آواز! لیکن میرا خواب ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا، ایک ہی آواز آئے چلی جا رہی تھی۔

یکایک میں جاگ گیا، عائشہ میرا کندھا ہلا رہی تھی، ارشد۔ ارشد۔ اٹھو، سنو یہ آواز کیسی ہے؟ یہ تو کوئی ہمارا دروازہ پیٹ رہا ہے

تھپ تھپ تھپ۔ ڈاکٹر ارشد۔ عائشہ۔ دروازہ کھولیے۔ جلدی کیجیے۔
اب ساتھ میں کسی بچے کے رونے کی آواز بھی تھی!

میں جلدی سے بستر سے نکلا! یہ خواب نہیں تھا! جو بھی تھا وہ میرے دروازے پہ تھا اور مجھے اور عائشہ کو نام سے پکار رہا تھا۔ سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے عائشہ میرے پیچھے پیچھے تھی۔ دروازے تک پہنچنے تک آواز کا نسوانی عنصر واضح ہو چکا تھا۔

بارش میں بری طرح بھیگی ہوئی، سردی کی شدت سے نیلے ہونٹ، نڈھال چہرہ، ایک پاؤں میں جوتا، دوسرا جوتے کے بغیر اور کمبل میں لپٹا ہوا ننھا جسم کمر کے ساتھ ایک دوپٹے سے بندھا ہوا۔

اوہ میرے خدایا، آپ کو کیا ہوا؟ میں اس تاریک اور طوفانی رات میں نصف شب کے لگ بھگ انہیں دیکھ کر ششدر تھا۔ وہ جو ہمیشہ پر اعتماد اور ہنستی مسکراتی ہوئی نظر آتی، اس وقت اور اس حالت میں۔

اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔ وہ۔ اصل میں۔ وہ۔ سوری میں نے ناوقت آپ کو زحمت دی۔
عائشہ، آپ انہیں گیسٹ روم میں لے جائیے اور لباس تبدیل کروا دیجیے۔ بچی کو بھی دیکھ لیجیے۔

میری بات سن کر بت بنی عائشہ نے فوراً بڑھ کر بچی کو اس دوپٹے اور کمبل کی گرہوں سے آزاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا،

ارے بالکل بھی کوئی زحمت نہیں۔ ہم ہی تو آپ کے قریب ترین ہمسائے ہیں اور پردیس میں ہمسائے ہی ماں جائے ہوتے ہیں۔ آئیے اندر چلتے ہیں، آپ لباس تبدیل کر لیجیے۔ پہاڑ پہ بھیگ کے نمونیہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ بچی کو بھی دیکھ لیجیے اگر بھیگ گئی ہو تو میں عزیر کے کپڑے نکال دیتی ہوں، کچھ کھلے تو ہوں گے لیکن گزارا ہو جائے گا۔ آپ بال بھی سکھا لیجیے، میں اتنی دیر میں آپ کے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں۔

عائشہ انہیں لے کر گیسٹ روم کی طرف جا چکی تھی اور میں سخت متعجب تھا کہ معاملہ کیا ہوا؟ خیر اب کچھ عائشہ سے ہی پتہ چل سکے گا۔

عائشہ کافی دیر بعد آئی، اس کے چہرے پہ تشویش کے آثار پڑھے جا سکتے تھے۔
میں انہیں چائے، بسکٹ، پیناڈول اور بچی کے لئے دودھ دے کر آئی ہوں۔ کمرے میں ہیٹر بھی چلا دیا ہے۔
ماجرا کیا ہے؟ میں تو کچھ سمجھ نہیں پایا، وہ تو بہت نڈر اور پراعتماد خاتون ہیں۔

وہ کافی ہچکچا رہی تھیں بتاتے ہوئے، اصل میں انہیں محسوس ہوا تھا کہ کوئی کھڑکی کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گھر میں تنہا تھیں نا، طوفان بھی تو شدید ہے باہر!

اگلی صبح آنکھ کھلی تو بادل چھٹ چکے تھے اور گزری ہوئی رات قصہ پارینہ بن چکی تھی۔ ڈاکٹر ارشد نے ملازمین کو بھیج کے کھڑکیوں اور دروازوں کا معائنہ کروا لیا تھا۔ آیا بی بی آ چکی تھیں۔ عائشہ بھابھی نے ہمیں پرلطف ناشتہ کروایا تھا اور ہم نے ہسپتال جانے کو پھر سے کمر کس لی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments