خواتین کے حقوق یا آزادی


1975 ء میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ نے خواتین کا عالمی سال منایا بعد میں 1977 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو باقاعدہ منانے کی منظوری دی جس کے بعد سے اقوام متحدہ کے رکن ممالک ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے لگے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کی آواز بلند کرنا ہے لیکن اب خواتین کا عالمی دن عورت آزادی مارچ میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ عورت مارچ پاکستان میں لاہور، حیدرآباد، کراچی اور اسلام آباد سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں 8 مارچ 2018 کو منایا گیا اور اس کے بعد ہر سال 8 مارچ عالمی یوم خواتین کے موقع پر عورت مارچ پاکستان کے مختلف شہروں میں منعقد ہوتا ہے۔ اس کا اہتمام لاہور اور کراچی میں خواتین کے اجتماع ہم عورتیں (وی دی وومن) اور ملک کے دیگر حصوں میں، بشمول اسلام آباد، حیدرآباد، کوئٹہ، مردان اور فیصل آباد سمیت خواتین جمہوری محاذ (ڈبلیو ڈی ایف) ، ویمن ایکشن فورم (ڈبلیو اے ایف) اور دیگر کے ذریعہ کیا گیا تھا۔

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کے حقوق کی آواز خواتین کی نسبت مرد زیادہ بلند کرتے رہے اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے ہی خواتین کو ان کے حقوق دیے، جب زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا تب اسلام نے ہی ان بچیوں کو نہ صرف زندہ رہنے کا حق دلوایا بلکہ انھیں وارثت، تعلیم، صحت سمیت دیگر اہم حقوق بھی دلوائے۔ اسلام نے ہر فرد کواس کے حقوق دینے کی ترغیب دی ہے جیسے ماں باپ کے حقوق، شوہر کے حقوق، بیوی کے حقوق، بچوں کے حقوق، غرباء کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، ہمسایوں کے حقوق، جانوروں کے حقوق غرض کے اسلام نے انسانوں سمیت ہر جاندار کو جس قدر حقوق فراہم کیے ہیں شاید دنیا نے اتنے حقوق سوچے بھی نہ ہوں گے۔

آج دنیا اسلام کے بیان کردہ حقوق کی مطابقت پر حقوق مانگ رہی ہے لیکن مغرب میں انسانی حقوق کا مخفف بدلتا جا رہا ہے خصوصاً خواتین کے حقوق کو ایک ایسی آزادی میں بدلا جا رہا ہے جہاں اسے کوئی روکنے والا نہ ہو، سمجھانے والا نہ ہو، اصلاح کرنے والا نہ ہو، یعنی وہ مکمل طور پر خود مختار ہو، اس کے جی میں جو آئے وہ کر سکتی ہے خواہ وہ کام جائز ہو یا ناجائز۔ ایسی آزادی مانگنے کے لئے عورت مارچ کا اہتمام بڑے رنگ برنگے انداز میں کیا جاتا ہے لیکن سوچئے بیٹی کو رحمت سمجھنے والا باپ اس وقت شرم سے ڈوب جاتا ہے جب وہی بیٹی عورت مارچ میں یہ کہتی ہے کہ میرا جسم میری مرضی، محنت مزدوری کرنے والا ایک شوہراس وقت اپنی قسمت پر روتا ہے جب اس کی بیوی عورت مارچ میں پلے کارڈ اٹھائے گھوم رہی ہوتی ہے جس پر لکھا ہوتا ہے تمھارا کھانا میں کیوں گرم کروں، پوتے اور پوتیوں کی خواہش رکھنے والے ساس، سسر اس وقت آنکھوں میں آنسو چھپائے خاموش ہو جاتے ہیں جب ان کی بہو عورت مارچ میں کہتی ہے کہ میں بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہوں، ماں کے پاؤں کے نیچے جنت سمجھنے والا بیٹا اپنی اس ماں سے آنکھیں نہیں ملا پاتا جو عورت مارچ میں ایسے پلے کارڈ اٹھائے پھرتی ہے جو یہاں بیان بھی نہیں کیے جا سکتے، ایک بھائی اپنی اس بہن سے آنکھ نہیں ملا پاتا جو عورت مارچ میں کہتی پھرتی ہے اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو، اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے گندے نعرے پلے کارڈز پر لکھے ہوتے ہیں جنھیں پڑھ کرمرد بھی شرمسار ہوتے رہے ہیں۔

عورت آزادی مارچ آخر کیا ہے؟ کیا عورت مارچ میں باپ بیٹی، شوہر بیوی، ماں بیٹا، بہن بھائی جیسے مقدس رشتوں کی تذلیل کرنا ضروری ہے۔ باپ، شوہر، بیٹا، بھائی یہ سب رشتے ایک لڑکی، ایک خاتون کے لئے سب سے بڑا تحفظ ہیں۔ اپنے ہی تحفظ کو برباد کرنا کون سے حقوق ہیں؟ معاف کیجئے عورت آزادی مارچ میں مانگے جانے والے حقوق اور آزادی مغرب میں بہت اچھے سمجھے جاتے ہوں گے لیکن اسلام ان باتوں کی قطعی اجازت نہیں دیتا جن کو اپنا کرایک باپردہ عورت ایسی آزادی میں داخل ہو جائے جہاں بے حیائی اوربے راروی کے سوا کچھ نہ ہو۔

اسلام نے عورت کو ایک بہت ہی عزت والا مقام بخشا ہے کہیں بیٹی کی صورت میں رحمت تو کہیں نیک بیوی کی صورت میں زندگی میں ملنے والا اچھا انعام، تو کہیں ماں کی صورت میں جنت پانے کا مقام۔ اسلام نے جو اعلیٰ مقام ایک عورت کو بخشا ہے اسی مقام کو برقرار رکھنے کی بجائے ایک عورت آزادی مارچ کے نام پر باپ، شوہر، بھائی اور بیٹے کی نظروں میں کیوں اتنا گررہی ہے؟ عورت آزادی مارچ میں عورت کو مرد کا دشمن کیوں بنایا جا رہا ہے۔

اگر مرد اور عورت کو ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا جائے تو دنیا سے نسل انسانی ختم ہو جائے۔ نسل انسانی ہو یا زندگی کا پہیہ، مرد اور عورت کے بغیر ناممکن ہے پھر آپس میں جنگ کس بات کی ہے؟ عورتوں کے جو بنیادی حقوق اسلام نے بیان کیے ہیں ان پر عمل کرنا مردوں پر لازم ہے اسی طرح جو حقوق مردوں کے بیان کیے گئے ہیں ان پر عمل کرنا، انھیں پورا کرنا خواتین پر لازم ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے مطابق ہر کسی کو اس کے حقوق فراہم کیے جائیں نہ کہ مغرب کے بتائے گئے ایسے حقوق مانگے جائیں جن میں اخلاقی قدریں ختم ہو چکی ہیں۔

جب مردوں نے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ اپنا لیا تو پھر کیا ہوگا اس کا اندازہ خواتین بخوبی لگا سکتی ہیں۔ معاشرے میں خواتین کے ساتھ جو ظلم اور تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں ان پر سب سے پہلے مرد ہی سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ خواتین پرظلم کرنے والے مردوں کی مختصر سی تعداد ہے لیکن خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والے، انھیں انصاف دلوانے والے، ان کے خلاف ظلم و زیادتی پر احتجاج کرنے والے مردوں کی تعداد بہت بڑی ہے اس لئے محض چند معاشرتی واقعات کاذمہ دار تمام مردوں کو ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے۔ مغربی آزادی مانگنے والی خواتین کو اپنی زندگی اسلام کے مطابق بنانا چاہیے تاکی ان کی دنیا اور آخرت سنور سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments