اظہار محبت جرم ہے


دل کے احساس سے بندھے لفظوں کا شمار کریں تو سب سے زیادہ برتا جانے والا لفظ محبت ہی ہو گا۔ زندگی کی تعمیر سے جڑے عورت مرد کی حقیقی محبت سے لے کر کائنات کے ہر رشتے کی سچائی اور اساس اسی لفظ سے مشروط ہے۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں محبت کی کلی کھلتی ہے اور پھر کھلی ہی رہتی ہے۔ اس کی خوشبو نہ صرف ان کے مزاج اور فکر کو معطر رکھتی ہے بلکہ ماحول کو خیر کی نگری بنانے کے لئے کوشاں رہتی ہے۔ محبت کا نور دلوں کو شفاف کر کے آنکھوں میں محبوب کا عکس آویزاں کر دیتا ہے تو بدصورتی اور نفرت دل و نگاہ کی ا سکرین سے مستقل ڈیلیٹ ہو جاتے ہیں۔

شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ محبت آدمی کو صحیح معنوں میں انسان بناتی ہے۔ یہ وہ بھٹی ہے جس میں انسان دلی خوشی اور رضا مندی سے سب سے پہلے اپنی ”میں“ کو شعلوں کی نذر کرتا ہے تو خود سپردگی اور نفی ٔ ذات کی اس شروعات میں خاکی وجود کی پہرے دار اور امین روح سے دائمی وصل کے لئے دل فکر و خیال کی ہر ملاوٹ کو بھی جل کر راکھ ہونے پر قائل کر لیتا ہے۔ یوں وجود کا سونا نکھر کر سامنے آتا ہے اور دنیا کو روشنی اور خوبصورتی کے نئے زاویوں سے روشناس کراتا ہے۔

گزشتہ دنوں یونیورسٹی لاہور کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک نوجوان جوڑے کو ایک دوسرے محبت کا اظہار پھول دے کر کرنے اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اب خبر ہے کہ اس جوڑے کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ ٹویٹر پر موجود یونیورسٹی آف لاہور کے آفیشنل نوٹیفکیشن کے مطابق حدیقہ جاوید اور شہریار احمد کو ڈسپلنری کمیٹی میں حاضری کے لیے بلایا گیا تاہم وہ نہیں آئے اور اب ان دونوں کو یونیورسٹی سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ اس لیے ہے کیونکہ انہوں نے یونیورسٹی کے قواعد کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔

کیا اس جوڑے نے محبت کا اظہار کر کے واقعی کوئی جرم کیا ہے؟ جی ہاں، بالکل انہوں نے سنگین جرم کیا ہے، وہ معاشرہ جہاں پر زبردستی شادی کو مکمل حمایت حاصل ہو، وہ معاشرہ جہاں پر لڑکیوں و بچوں کے ساتھ زیادتی روز کا معمول ہو، وہ معاشرہ جہاں لڑکی کے منہ پر تیزاب پھینکنے کو مردانگی سمجھا جاتا ہو، وہ معاشرہ جہاں ٹی وی چینلز پر عورتوں کو گالیاں فخر کی بات ہو، وہ معاشرہ جہاں عورت کا گھر سے باہر نکلنا بے حیائی ہو، وہاں محبت کا اظہار واقعے سنگین ترین جرم ہے۔

یونیورسٹی نے جس طرح محبت کے اظہار پر فوراً نوٹس لیا ہے، کاش اسی طرح طلباء کو ہراس کیے جانے کا نوٹس لیا جائے، کاش طلباء کی خودکشی کو بھی اتنا ہی سیرئس لیا جائے، طلباء کے دیگر مسائل کا بھی اسی طرح نوٹس لیا جائے۔

اظہار محبت کی حمایت کے جرم کی پاداش میں مغرب زدہ ہونے کے فتویٰ صادر کیے جائیں گے تو ذرا مشرقی اقدار کے پروردہ حضرات یہ تو بتلا دیجیئے کہ سسی پنوں اور شیریں فرہاد کے قصے بھی کیا انگریز یہاں چھوڑ گئے؟ کیوں محبت کی یاد گاریں تعمیر کی گئیں ہیں؟ وہ بھی آپ کے معاشرے کی ہی لازوال داستانیں ہیں۔

اگر اعتراض ہے تو تاریخ سے ان کے قصے نکال دیجئے، یا اگر اس سے بھی دل نہ بھرے تو اردو ادب کا ایک بڑا حصہ شعراء اور نثر نگاروں نے محبت کی داستانوں کے ضمن میں تحریر کیا ہے، اپنے الفاظ، اپنے کلام میں محبت کو خراج عقیدت پیش کیا ہے، ان سب پر بھی قدغن لگا دیجئے۔

پھر جائیے غالب اور میر کی غزلوں کو اسکولوں، کالجوں کے نصاب سے نکلوا دیجئے کیونکہ ان میں بھی محبت کا اظہار ہے، کہاں تک مخالفت کریں گے آپ اور کہاں تک فتویٰ صادر فرمائیں گے؟ یہ پوری کائنات ہی داستان عشق اور اس کا اظہار ہے، کوئی مہکتے پھولوں کا تحفہ دے کر محبت کا اظہار کرے یا تاج محل تعمیر کر کے، چمن میں پھیلی ہوئی ہے داستاں اس کی۔ اب جو محبت کی مخالفت کرے یقیناً وہ انسان کے زمرے میں تو رکھے جانے کے لائق نہیں، کیونکہ محبت سے خالی افراد ہی گولیاں، بارودر برساتے ہیں، گلے کاٹتے ہیں۔

محبت ایک آفاقی جذبہ ہے، غور کیجئے پوری کائنات میں محبت کا ہی اظہار ہی تو ہے۔ بارش مسکرا کر برسی تو محبت سے گل نکھر گئے، زمین نے اپنے سینے میں پرورش کی تو خراج محبت سے فصلیں لہلانے لگی۔ اس گھٹن زدہ ماحول میں اس جوڑے کا محبت کا اظہار یقیناً تازہ ہوا کے ایک جھونکے کے مانند ہے۔

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
(فیض احمد فیض)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments