نسلوں نے سزا پائی: سقوط ڈھاکہ کی حسرت ناک داستان


مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک ایسا زخم تھا جسے پچاس سال گزرنے کے بعد بھی بھلایا نہ جا سکا۔ دنیا میں آزادی کی تحریکیں بھی چلتی ہیں۔ ملکوں کی سرحدیں بھی بدل جاتی ہیں لیکن بنگلہ دیش کی علیحدگی ہماری عزت نفس، وقار اور دو قومی نظریہ؛ جس پر ہمیں بڑا ناز تھا سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد اقوام عالم میں ہمارا قومی تشخص مجروح ہوا۔ اس اچانک صدمہ سے قوم کا ہر فرد متاثر ہوا۔ تخلیقی سطح پر شعرا و ادبا نے اس سانحہ کو اپنی شاعری، افسانہ اور ناول کا موضوع بنایا۔ فیض احمد فیض نے ”ڈھاکہ سے واپسی پر“ میں لکھا تھا:

ہم تو ٹھہرے اجنبی کتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں کے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
ناصر کاظمی نے بنگالی ماہی گیروں کو ان الفاظ میں ڈھونڈنے کی کوشش کی:
وہ ساحلوں پہ گا نے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
امجد اسلام امجد نے تو ”اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں“ میں اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا تھا:
ہم تیرے دکھ سمندر سے غافل رہے
تیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئی اور ہم رہین غم دل رہے
ظلم کے روبرو لب کشائی نہ کی اس طرح
ظالموں میں بھی شامل رہے
حشر آور دنوں میں جو سوئے رہے
ہم گنہگار ہیں اے زمین وطن

الطاف فاطمہ نے سقوط ڈھاکہ پر اپنا شہرہ آفاق ناول ”چلتا مسافر“ ، مستنصر حسین تارڑ نے ”راکھ“ ، رضیہ فصیح احمد نے ”صدیوں کی زنجیر“ ، جمیل عثمانی نے ”جلاوطن کہانیاں“ ، سید منصور نے ”زمین ظالم ہے“ اور شہزاد منظر نے ”ندیا کہاں ہے تیرا دیش“ میں اس دکھ کو بیاں کیا ہے۔ تخلیقی سطح پر تو اس موضوع پر کافی کام ہوا لیکن اس قومی سانحے پر تحقیقی و تاریخی نقطہ نظرسے جو کچھ لکھا گیا وہ زیادہ تر انگریزی یا بنگالی میں ہے۔

اردو میں چند گنتی کی کتابیں ہیں۔ ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ صدیق سالک، ”البدر“ پروفیسر سلیم منصورخالد، ”شکست آرزو“ ڈاکٹر سجاد حسین اور ”پاکستان سے بنگلہ دیش ان کہی جدوجہد“ (Bangladesh، Untold Facts) شریف الحق دالیم زیادہ مشہور ہیں۔ حال ہی میں ایک معرکتہ آرا کتاب ”نسلوں نے سزا پائی“ شائع ہوئی جس کے مترجم ڈاکٹر محمد شیراز دستی ہیں۔ ڈاکٹر شیراز دستی انگریزی ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر کے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں صدر شعبہ انگریزی ہیں۔

بے پایاں تخلیقی صلاحتیوں سے مالا مال، پرجوش شخصیت اور باصلاحیت نوجوان ہیں۔ طالب علمی کے زمانے ہی میں کئی کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں اور علمی حلقوں میں نمود حاصل کر چکے ہیں۔ ان کا ناول ”ساسا“ اپنے اندر ہمہ گیر موضوعات سمیٹے ہوئے ہے۔ تہذیبوں کے تصادم، سماجی، اقتصادی مسائل اور انسانی محبت کو مربوط پلاٹ میں سجایا گیا ہے۔ اس ناول پر مشہور نقادوں کی آرا آنا، اس ناول کے لیے شرف قبولیت کی سند ہے۔

”نسلوں نے سزا پائی“ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) کمال متین الدین کی تصنیف Tragedy of Errors:East Pakistan Crises 1968۔ 1971 کا بامحاورہ ترجمہ ہے۔

ترجمہ بہت مشکل اور اعصاب شکن کام ہے۔ مضبوط اعصاب اور پرجوش شخصیت رکھنے والے لوگ ہی منزل مقصود تک پہنچتے ہیں۔ ترجمہ ایسا پیچیدہ عمل ہے جس میں مترجم کو انھی سنگلاخ زمینوں اور پگڈنڈیوں پر چلنا پڑتا جہاں سے مصنف گزرا ہوتا ہے۔ اس لیے ترجمہ کے لیے recreation دوبارہ تخلیق کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شیراز دستی کا یہ کارنامہ اس لیے لائق تحسین ہے کہ ان کے ترجمہ کی وجہ سے اردو میں ڈھاکہ بحران پر ایک حوالہ جاتی کتاب کا اضافہ ہو گیا ہے۔ تاریخ سے شغف رکھنے والے قارئین، دانشوروں، سکالرز کے لیے یہ کتاب قیمتی تحفہ ہے۔ یہ ہماری غلطیوں کی ایسی داستان ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری خود سے الجھتا ہے۔ تقسیم پاکستان کے ہر کردارکو کوستا ہوا کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے موجودہ حالات کے انجام کی صاف تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔

مترجم نے اس کتاب کے سرورق کی زمین سرخ بنائی ہے۔ سرخ زمیں پر ایک شخص شک اور بدگمانیوں کی خاردار تاروں میں الجھا ہوا نظر آتا ہے۔ اس شخص کو پہچانا نہیں جا سکتا۔ وہ ایک سیاہ دھبے کی مانند دکھائی ہے۔ سرورق کتاب میں پیش کیے جانے والے حالات کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ اس لیے یہ کتاب عکس پبلی کیشن لاہور سے شائع کی گئی ہے تاکہ دھندلے عکس صاف صاف دکھائی دے سکیں۔

مصنف نے اس کتاب کو تیرہ ابواب میں تقسیم کیاہے۔ ضمیمہ جات، انٹرویوز کے علاوہ 13 جدول (اعداد و شمار کے گوشوارے ) شامل کیے ہیں جن میں دو بازووں کے درمیان طاقت کے ڈھانچوں کو پیش کیا گیا ہے تاکہ یہ دیکھاجا سکے کہ کیا مشرقی اور مغربی پاکستان میں وزارتوں، سول سروس، مسلح افواج، سکول، کالج، یونیورسٹیوں، میڈیکل کالجز، صنعتی ترقی، فی کس آمدنی، معیشت میں کیا تناسب تھا۔ اگرچہ یہ بات زبان زد عام ہے کہ مشرقی پاکستان کا استحصال کیا گیا جس کی وجہ سے بنگالیوں میں آزادی کے جذبات پیدا ہوئے۔

بنگالی راہنماؤں نے بھی عدم مساوات اور معاشی ناہمواری کو بنیاد بنا کر اور بنگال کا موازنہ پنجاب سے کر کے بنگالیوں کو بغاوت پر اکسایا۔ ”نسلوں نے سزا پائی“ کے مصنف ان مفروضوں سے کما حقہ متفق نہیں۔ ان کے مطابق پنجاب دوسرے صوبوں سے پہلے وسائل، صنعت، تعلیم اور افرادی محنت میں آگے تھا۔ اگر بنگالی سیاست دان بنگال کا موازنہ سندھ، سرحد یا بلوچستان سے کرتے تو بنگال کو ہر شعبے میں بہتر پاتے۔

مصنف نے بنگال کا استحصال اور معاشی ناہمواری کے علاوہ جدائی کے دیگر اسباب پوری وضاحت، دلائل اور حقائق سے پیش کیے ہے۔ جفرافیائی علیحدگی کے علاوہ زبان مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بڑا محرک ثابت ہوئی۔ زبان مذہب سے بڑی طاقت ور قوت ہے۔ بنگالی کا ماخذ سنسکرت ہے جو ہندی کے زیادہ قریب ہے۔ بنگالی اپنی زبان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعری کی ان کے دلوں میں بڑی قدر و منزلت تھی۔ وہ دو زبانی ریاست کے خواہاں تھے۔

مگر بنگالی کو قومی زبان کے طور پر شامل کرنے میں بڑی کج ادائی کا مظاہرہ کیا گیا۔ قائد اعظم، لیاقت علی خان، گورنر جنرل غلام محمد، خواجہ ناظم الدین اس نزاکت کو نہ سمجھ سکے۔ 1956 ءمیں بنگالی کو ریاستی زبان کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ مگر اس وقت تک علیحدگی کے جذبات راسخ ہو چکے تھے۔ شیر بنگال مولوی فضل الحق جس نے 1940 ءمیں قرارداد پاکستان پیش کی تھی۔ اس کے قائد اعظم سے وائسرائے کی نیشنل ڈیفنس کونسل میں شمولیت پر اختلاف ہو گئے۔

قائد اعظم نے اس کے لیے سخت ترین الفاظ استعمال کیے۔ اس طرح ایک قومی راہنما بنگالی قوم پرست لیڈر بن گیا۔ اس طرح حسین شہید سہروردی جو معتدل راہنما کے طور پر مشہور تھے۔ 1956 ءکا آئین ان کا بڑا کارنامہ تھا۔ اس بنا پر وہ مشرقی پاکستان کے لوگوں سے غدار کہلوائے۔ مگر ان کو بھی مختصر مدت کی وزارت عظمیٰ دے کر ہٹا دیا گیا اور چھ سال کے لیے انتخاب میں حصے لینے سے نا اہل قرار دے دیا گیا۔

مشرقی پاکستانی کی علیحدگی کی کئی وجوہات تھیں لیکن اس علیحدگی کی فوری وجہ دسمبر 1970 ءکے الیکشن تھے۔ ایوب خان کی اقتدار سے دستبرداری کے بعد مشرقی پاکستان کے لوگوں کو امید تھی کہ جنرل یحییٰ خان انتخاب کروا کر اقتدار منتخب قوت کے حوالے کر دیں گے۔ جنرل یحییٰ خان نے اپنے وعدے کے مطابق انتخاب کرادیے اور ان انتخابات کو غیر ملکی مبصرین نے شفاف بھی تسلیم کیا۔ یہ انتخاب شیخ مجیب الرحمٰن نے چھ نکاتی منشور پر لڑے۔

جن میں سوائے دفاع اور خارجہ امور کے صوبے خود مختار تھے۔ الیکشن میں مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان سے 162 نشستوں میں 160 نشستیں جیت کر اکثریتی پارٹی کے طود پر سامنے آئی۔ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی مغربی پاکستان سے 120 نشستوں میں 81 نشستیں جیت پائی۔ فوجی اور سیاسی قیادت اقتدار مجیب الرحمٰن کو حوالے کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ چنانچہ صدر یحییٰ خان نے اقتدار کی منتقلی کے لیے تین مارچ 1970 ءکو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا مگر ذوالفقار علی بھٹو نے پشاور میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی۔

پھر کراچی میں اس سے زیادہ سخت موقف اپنایا کہ وہ اپنی جماعت کے کسی بھی ایسے رکن کی ٹانگیں توڑ دیں گے جس نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کی جرات کی۔ خاکی یا سیاہ لباس میں جو کوئی ڈھاکہ گیا، اپنی ذمہ داری پر جائے گا۔ جنرل یحییٰ خان کی نا اہلی، ہوس اقتدار، بد دیانتی نے اس کو جواز بنا کر قومی اسمبلی کا ڈھاکہ کا اجلاس بغیر کوئی نئی تاریخ دیے ملتوی کر دیا۔ التوا کا اعلان در حقیقت بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان تھا۔

التوا کی خبر سے مشرقی پاکستان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ غیر بنگالیوں پر حملے کیے گئے۔ ان کے گھر اور دکانیں لوٹی گئی۔ شالا پنجابی کے نعرے لگائے گئے۔ یوم ماتم منایا گیا۔ بابائے قوم کی تصویریں جلائی گئیں۔ پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی گئی اور ڈھاکہ چھاؤنی کا گھیراؤ کیا گیا۔ امن و امان کی صورت حال بگڑتی چلی گئی۔ اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا۔ جس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

آپریشن کے بعد دنیا کی ہمدردی بنگالیوں کے ساتھ ہو گئی۔ انڈیا کی کھلم کھلا مداخلت شروع ہو گئی۔ بنگالی افسر فوج سے فرار ہو کر انڈیا چلے گئے جہاں مکتی باہنی کی کمانڈ اور تربیت کرنے لگے۔ مکتی باہنی نے گوریلا وار میں پاکستانی فوج کو اندھا اور بہرہ کر دیا۔ بالآخر نومبر 1971 ءمیں بھارت نے بھرپور حملہ کر دیا۔ پاکستانی فوج کسی محاذ پر مقابلہ نہ کر سکی۔ پھر 16 دسمبر کو مغربی پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کی خبر پہنچی کہ اب قائد اعظم کا پاکستان نہیں رہا۔

اس خبر سے قوم میں غم کی لہر ڈور گئی۔ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ اب بھی وقت ہے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا جائے۔ تمام صوبوں اور علاقوں میں وسائل کا یکساں استعمال یقینی بنایا جائے۔ جمہوریت کو چلنے دیا جائے۔ سیاسی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیاں بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیا جائے اور نئے قومی مکالمے کا آغاز کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments