مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا


چیئرمین سینیٹ کے انتخابی نتائج پر سب سے مکمل تبصرہ سابق صدر آصف علی زرداری نے کیا کہ انتخابی نتائج کو سینہ زوری سے بدلا گیا ہے تاہم اس کی وضاحت نہیں کی کہ اتنی سینہ زوری کون کر رہا ہے اور یہ بھی وضاحت طلب بات ہے کہ سینہ زوری کیوں کی جا رہی ہے۔ جو بھی حالیہ سینیٹ الیکشن میں ہوا اس سے کسی طور جمہوریت کا فائدہ نہیں ہوا اور جمہور یہ بات سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ موجودہ جمہوریت بنیادی طور پر ایک لبادے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس نے بھی یہ لبادہ اوڑھ رکھا ہے اس کے متعلق بھی یہ جمہور بخوبی جانتی ہے۔ ماضی میں اس کا تذکرہ زیر لب ہوتا تھا تاہم اب تو کھلے عام تذکرہ ہو رہا ہے۔ گویا عہد جدید کی محبت ہی ہو گئی کہ پہلے محبوب کا نام اشاروں کنائیوں میں لیا جاتا تھا مگر اب سرعام کیمروں کے سامنے پھول دے کر محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔

آج ایک بار پھر پی ڈی ایم کے بڑوں کی بیٹھک ہونے جا رہی ہے جس میں 26 مارچ کے مہنگائی مارچ سے متعلق خدوخال پر بات ہوگی تاہم اس سے قبل پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا بیان سامنے آ چکا ہے کہ اجتماعی استعفوں کے بغیر مارچ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ گویا مولانا نے پی ڈی ایم کے شرکاء کو پہلے ہی اپنا مدعا معروف شاعر افتخار عارف کی زبان میں بیان کر دیا ہے کہ گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا، جو دل میں ہے اب اس کا تذکرہ کرنا پڑے گا۔

اسی غزل میں افتخار عارف کا ایک شعر ہے کہ نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو/ مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا اور مولانا کے مطابق اگر لانگ مارچ کو کامیاب کرنا ہے تو سندھ مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ بہرحال کرنا پڑے گا وگرنہ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

افتخار عارف کی حسب حال غزل کا ایک اور شعر ہے کہ

مبادا قصہ اہل جنوں ناگفتہ رہ جائے/ نئے مضمون کا لہجہ نیا کرنا پڑے گا ، اور شاید آج پی ڈی ایم کو اس کی اشد ضرورت ہے کہ اگر وہ واقعی ہی میں کچھ الگ کرنے جا رہے ہیں تو بہرحال ان کو اپنا لب ولہجہ بدلنا پڑے گا تب جا کے حالیہ مضمون میں تبدیلی کے امکانات تلاش کیے جا سکتے ہیں،  اگر پی ڈی ایم پرانے بیانیے کے ساتھ ہی میدان عمل میں اترتی ہے تو اس ساری کوشش کا شاید کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ جمہوری نظام میں رہتے ہوئے جمہوری جدوجہد کا بیانیہ اپنی جگہ پر معتبر سہی مگر سینہ زوری کی گئی کے بیان کے بعد اس نظام کے بقاء کی کتنی گنجائش باقی رہ گئی ہے ، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

جہاں تک بات جمہوری اخلاقی قدروں کی ہے تو جس طرح گیلانی عددی اقلیت ہونے کے باوجود منتخب ہو گئے ، اسی طرح سنجرانی بھی ایوان میں کم تعداد ہونے کے باوجود منتخب ہو گئے۔ نہلے پر دہلا پڑ گیا لہٰذا کس سے گلہ کیا جائے ، کس سے منصفی مانگی جائے۔ اس سے بھی قطع نظر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب پی ڈی ایم کا بیانیہ ہی یہی ہے کہ موجودہ اسمبلی دھاندلی کی پیداوار ہے اور حکومت کی سلیکشن ہوئی ہے تو پھر اس اسمبلی میں بیٹھنے کا استدلال بے معنی اور غیر حقیقی ہے۔

اور اگر سینہ زوری کا بیان محض سیاسی بیان ہے اور اگر موجودہ جمہوری نظام کی بقاء ہی مطمح نظر ہے تو پھر پی ڈی ایم میں موجودگی کا کیا جواز ہے۔ کچھ تو ہے جو غلط ہے اور اس کو اب ٹھیک ہونا چاہیے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسمبلیوں سے مستعفی ہونا اور نئے انتخابات ہی مسائل کا حل ہیں اور یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ اگر نئے انتخابات کی صورت میں موجودہ حکمران اپوزیشن میں آ کر سڑکوں پر آ گئے تو کیا ہو گا۔ مطلب ڈھاک کے وہی تین پات اور پھر اس وقت بے چارے عوام کا کیا بنے گا۔

رہی بات حکومت کی تو موجودہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے عوام کس قدر مطمئن ہیں اس کا اندازہ حالیہ ضمنی انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے۔ کمرتوڑ مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کی سکت نہیں رہی اور دو وقت کا کھانا مشکل ہو گیا ہے۔ قرض پر قرض لیتی حکومت کے معاشی اشاریے جس قدر بہتر ہوں اصل بات یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی کب بہتر ہوگی۔ متوسط طبقہ کب سکون کا سانس لے گا۔

حکومت کچھ تو ایسا کرے کہ جس سے اطمینان ہو کہ بہتری ہو رہی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی کمی سے عام آدمی کا کیا لینا دینا ہے۔ بیرونی اور اندرونی قرضوں کی کیا کیفیت ہے اور ریونیو کلیکشن کتنی ہو رہی ہے ، اس سے ایک غریب اور متوسط آدمی کو کیا سروکار ہو سکتا ہے۔ ایک گلی میں موجود پرچون فروش یا دیہاڑی دار کو اس سے کیا غرض ہے کہ پاکستان فیٹیف سے بلیک لسٹ ہونے سے بچ گیا ہے اور فی الحال گرے زون میں ہے۔

مرے پہ سو درے مزید یہ کہ بدترین معاشی حالات کے بعد کورونا کی نئی لہر سے ایک بار پھر کاروباری مراکز بند کرانے کا شیڈول جاری ہو چکا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ایس اوپیز پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاتا مگر کاروباری مراکز بند نہ کرائے جاتے۔ یہ کیسی حکمت عملی ہے کہ کورونا پھیلنا شروع ہو تو سکولز اور کاروباری مراکز بند کرانا شروع کر دیے۔ اور جتنی دیر کاروباری مراکز کھلتے ہیں وہاں پر ایس اوپیز کے نام پر سارا دن انتظامیہ جرمانے کرتی ہے۔ حکومتیں عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہوتی ہیں یا پھر انتقام لینے کے لیے ہوتی ہیں؟

انتقام سے یاد آیا کہ مبینہ طور پر تحریک انصاف کے ایک ممبر صوبائی اسمبلی کی ایماء پر تونسہ بیراج کے قریب ایک جنگل کو آگ لگا دی گئی۔ بلین ٹری سونامی کا ایجنڈا لے کر آنے والی جماعت کے سربراہ کو اطلاع ہو کہ ظل الٰہی ذرا توجہ فرمائیں ، اس جنگل کی طرف جہاں اب تک ہزاروں درخت جل کر راکھ ہو گئے ہیں۔ یہ کوئی محکمانہ غفلت ہے یا کوئی جرم ، اس کی فوری تحقیقات ہونی چاہیے اور جو اس کے ذمہ دار ہیں ،ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments