الطاف صدیقی تھا صورت گر کچھ خوابوں کا


روزنامہ مساوات کراچی سے جاری ہوا تو ابتدائی طور پر جن صحافیوں کو چنا گیا ان میں، میں بھی شامل تھا اور میرے ذمہ ثقافتی سرگرمیوں کا صفحہ تھا۔ آغاز میں مختلف شہروں میں جو نمائندے مقرر ہوئے، ان سے رابطہ ہونے لگا اور متعلقہ نمائندوں سے خبریں آنا شروع ہوئیں تو پہلی مرتبہ الطاف صدیقی کا نام سامنے آیا، جو کوئٹہ میں نمائندے تھے۔

مزید تعارف یہ ہوا کہ این ایس ایف کے سرگرم رکن اور بعد ازاں عہدیدار بھی رہے۔ تھوڑے عرصہ بعد ان کا کراچی آنا ہوا تو ملاقات ہوئی۔ درمیانہ قد ، گندمی رنگ ، تیز مگر اچھی گفتگو کرنا ، زیادہ تر موضوعات سیاسی ہوتے اور مسکراہٹ کبھی کبھی طنز کا تاثر دیتی۔  بہرحال پہلی ملاقات اچھی رہی کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ الطاف نئی ذمہ داریاں سبنھالنے کوئٹہ سے کراچی آ رہے ہیں۔ پھر ہوا بھی یہی کہ کراچی میں وہ سیاسی رپورٹنگ پر مامور ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی ہماری دوستی کا آغاز ہوا اور یہ ربط جلد ہی دو گھروں کے تعلقات میں تبدیل ہو گیا۔

دن مہینے سال گزرتے گئے اور پھر اچانک بھٹو صاحب کی نہ صرف حکومت ختم ہوئی بلکہ انہیں گرفتار بھی کر لیا گیا۔  پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے ، لیکن اس تبدیلی سے مساوات مشکلات کا شکار ہونے لگا اور پھر اخبار پر پابندی لگ گئی ۔ کارکن بڑی تعداد میں بیروزگار ہو گئے۔ صحافتی تنظیموں نے اپنا کردار ادا کیا اور نوبت ہڑتال تک جا پہنچی۔ اب زیادہ تر وقت پریس کلب میں گزرنے لگا اور الطاف سے دوستی میں اضافہ ہوتا رہا۔

میرے اور الطاف کے پاس موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی اور معمول بن گیا تھا کہ طے شدہ پروگرام کے مطابق دونوں ساتھ پریس کلب پہنچتے اور رات کو مصروفیت ختم ہونے پر ساتھ واپس ہوتے، پھر ہوا یہ کہ اس زمانے میں ٹی وی پر ایک انگریزی سیریل Chips چل رہا تھا ، جس میں دو پولیس افسران جوڑی کی شکل میں مختلف جرائم سے نبردآزما ہوتے۔ پریس کلب کے ممبران نے ہمیں Chips کی جوڑی کا نام دے دیا اور اس طرح رشتہ اور تعلق مضبوط ہوتا چلا گیا اور بیروزگاری کے ساتھ دو خاندانوں کی مشکلات تیزی سے بڑھنے لگیں اور مل کر متعدد منصوبے بنائے کہ بیروزگاری کے اثرات سے کیسے محفوظ رہا جائے ، لیکن یہ سرگرمیاں معمولی نوعیت کی ہوتیں کہ مشکل سے دو گھروں کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں۔

پھر ایک بڑی کوشش کے نتیجے میں استاد حامد علی خان اور استاد اسد امانت علی خان جو ایک پروگرام کے لیے کراچی آئے تھے، ان سے درخواست کی کہ وہ ہم پر مائل بہ کرم ہوں۔ انہوں نے آمادگی ظاہر کی جس کے لیے ہم ان کے لیے دعاگو ہیں ، پروگرام بھی ہوا اور آمدنی بھی جس کے نتیجے میں دو گھروں کا ایک مدت کے لیے خرچ محفوظ ہو گیا اور زندگی بھی محفوظ لگنے لگی۔

اب بیروزگاری کا چوتھا سال شروع ہو گیا اور حالات پھر سے سنگین ہونے لگے ان کا ذکر قارئین کو انسانی رویوں سے جان کاری دیتا ہے ۔ ہوا یوں کہ پریس کلب کے لیے ایک سوینیئر شائع کرنے کا فیصلہ ہوا اور طے پایا کہ جو کارکن اشتہار لائے گا ، اسے کل رقم کا پندرہ فیصد بطور معاوضہ ملے گا۔ چنانچہ میں اور الطاف دونوں طرح کی بازی لگا کر سرگرم ہوئے اور اشتہار بھی مل گئے،  جب معاوضہ کا وقت آیا تو ایک عہدے دار نے ہم سے کہا کہ آپ دونوں ایک عرصہ سے بیروزگاری کے سبب کریڈٹ پر کھانا کھاتے رہے ہیں ، اس طرح یہ رقم اس میں سے منہا کر لی جائے گی۔ یہ سنتے ہی ہم پر بجلی گری کہ راشن کا کیا بنے گا اور ہوا بھی یہی کہ مکان کا کرایہ جو تین ماہ کا تھا، اس کا فوری انتظام ہونا تھا۔

کلب میں بیٹھے دوستوں سے ذکر کیا کہ اپنا ٹی وی فروخت کرنا چاہتا ہوں، پاس بیٹھے ایک صحافی نے کہا مجھے دے دو ، اور فوراً پانچ سو روپے ایڈوانس دے دیے اور کہا کہ ایک کرکٹ میچ جو کل شروع ہو رہا ہے ، اسے دیکھنے کے لیے اگر ٹی وی آج مل جائے ، بقیہ رقم تنخواہ ملنے پر دے سکتا ہوں مرتا کیا نہ کرتا میں نے ہامی بھر لی اور اس معاہدے کے تحت وہ اسی شام گھر آ کر ٹی وی لے گئے اور بقیہ رقم آج تک واجب الاداء ہے۔

اس کہانی کو ایک تکلیف دہ موڑ سمجھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ اس موقع پر ایک اچھا موڑ یہ آیا کہ الطاف کو اخبار فرنٹیر پوسٹ میں ملازمت مل گئی۔ ایک کو ملازمت ملنے نے دونوں میں نئی توانائی اور ہمت پیدا کر دی۔ چند ہی روز گزرے کہ پریس کلب میں ایک میز پر بیٹھے تین حضرات کھانا اور میں چائے پی رہا تھا۔ ان میں ڈان کے حضور احمد شاہ، جنگ کے عبدالحمید چھاپڑا اور آرٹس کونسل کے عرفان احمد شامل تھے، چھاپڑا نے کہا عرفان صاحب ہمارا یہ ساتھی چار سال سے بیروزگار ہے، آپ کچھ کر سکتے ہیں۔

حضور احمد شاہ فوراً بولے ’کر سکتے‘ کا کیا مطلب ہے ، یہ بااختیار افسر ہیں ، بالکل کریں گے۔ عرفان صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے کہ آپ کسی دن دفتر آ کر مجھ سے مل لیں ۔ میں نے کسی دن کو دوسرا دن سمجھ کر ان کے دفتر پہنچ گیا اور اس طرح چار سال بعد آرٹس کونسل کی ملازمت لاٹری کی شکل میں میرے نام نکل آئی ، بعد کی تفصیل میری زیر اشاعت کتاب میں شامل ہے۔

کچھ عرصہ بعد الطاف بہتر حالات کی توقع پر امریکہ چلے گئے۔ بعد ازاں مجھے بھی موقع ملا اور پاکستان امریکہ تعلقات کے ایک معاہدے کے تحت امریکہ جانا ہوا جس کے دوران واشنگٹن، بوسٹن اور نیویارک کے ثقافتی اداروں اور مراکز کو دیکھنے کا موقع ملا۔ نیو یارک میں قیام کے دوران الطاف سے ملاقات ہوئی اور ان کے بے حد اصرار پر دو دن ان کے گھر پر رہا۔ رات گئے تک گفتگو رہتی ، موضوع چاہے جو بھی ہو پر اس کی آنکھیں دل سے جڑی نہیں لگتی تھیں اور ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا سلسلہ تکلم کا، اندر اٹھنے والی ہر لہر موج بن کر اٹھتی اور اس کی آنکھوں کو نم کر جاتی ، میں ان لہروں کو جاننے کی کوشش کرتا تو کہتا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔

مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر جو زاویے بناتی تھی ، وہ بول سے مختلف ہوتے تھے اور اس رات جو اس کے گھر پر آخری رات تھی ۔ ہم دیر تک باتیں کرتے رہے۔  میں نے کہا کہ تمہارے اندر مجھے دکھ کی دیمک ہر طرف پھیلی نظر آتی ہے، جواب سے میرا دل دہل سا گیا ، بولا شمیم بھائی! اب تو اس کے راحت دینے کا وقت ہے ، یہ ختم ہو گی تو میں دھڑام سے گر جاؤں گا۔

جانے کس وقت اسے نیند آ گئی اور اس رات میں بالکل نہ سو سکا۔ دوسرے دن روانگی تھی ، تیار ہو رہا تھا تو اس نے مجھے ایک پرفیوم لگانے کو دیا ، خوشبو اچھی تھی ۔ میں نے تعریف کی تو کہنے لگا یہ رکھ لیں آپ کو میری یاد دلائے گی۔ میں نے جواب میں کہا کہ جب تم لگاؤ گے تو میری یاد دلائے گی اور میں تمہارے گھر سے بہت کچھ ساتھ لے جا رہا ہوں۔

ایئر پورٹ پر خدا حافظ کہتے میرا دل زور زورسے دھڑکنے لگا اور میں آئندہ ملاقات سے خود کو مایوس سمجھ کر اندر مسافروں کی بھیڑ میں کہیں کھو گیا ، گھر واپس پہنچا سوٹ کیس سے کپڑے نکال رہا تھا تو اچانک کول واٹر پرفیوم کی بوتل ہاتھ میں آ گئی جو نصف خالی تھی ، اس دن سے آج تک کول واٹر میرا پسندیدہ پرفیوم ہے۔

ابھی دس دن گزرے تھے کہ اطلاع آئی الطاف کا انتقال ہو گیا ہے ، تدفین کے لیے پاکستان لایا جا رہا ہے ، میں ایئرپور ٹ پر ان کے بھائیوں کے ساتھ موجود تھا اور پھر آخری مرحلے میں تدفین کے وقت جب آخری بار چہرہ دکھایا گیا تو لگا جیسے دکھ کی دیمک اندر سے نکل کر چہرے پہ چل رہی ہو ، پھر سب نے مل کر الطاف اور اس پر رینگتی ہوئی دیمک کو سپرد خاک کر دیا۔

’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments