بیٹی کی پسند کی خریداری اور باپ کی تنگ جیب


لڑکوں کے سکول کی چھٹی بیس منٹ پہلے ہوتی ہے۔ استاد لڑکوں کو ان کے سائیکلوں پر سوار کراتے ہیں نکالتے ہیں۔ ایک استاد ان کے پیچھے لگتا ہے اور انہیں ہانکتا ہوا گھروں کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ وہ لڑکے ہیں جو دور کے گاؤں سے آئے ہیں۔

بعد میں لڑکیوں کے سکول کی چھٹی ہوتی ہے وہ پیدل مارچ کرتی گھروں کو جاتی ہیں، کھیتوں میں کام کرتے کوئی نہ کوئی بزرگ اپنے جوتے کو اور راستے کو دیکھتا رہتا کہ کوئی منڈا ہاتھ لگے ان کڑیوں پیچھے جاتا۔

یہ اسی کی دہائی کا شروع ہے۔ ہائی سکول کا منظر ہے۔ جیسا سا دیہات کا مزاج ہے ویسا سا انہوں نے انتظام کر رکھا ہے۔ کہ وقت گزرے اور بدلے خیریت رہے۔

دوسرا منظر گورا بازار پشاور کا ہے۔ ہم دوست ہیں کبھی دو ہیں کبھی تین۔ ایک درزی کو کپڑے دینے آیا ہے۔ ہاتھ میں رسالہ ہے، دوسرے ہاتھ میں اپنے سامنے اپنی گھر والی کے سوٹ کی پیمائش کرا رہا ساتھ ہمیں باہر کھڑا کر کے ہنس بھی رہا اور کہہ بھی رہا کہ لرے ادرے گا۔ نزدے را نہ شے۔ دور رہو پاس نہیں آنا۔

اگر اپنی گاڑی میں آئے ہیں تو بیٹھتے ہیں اس کی کلاس ہو گی اس سے مذاق ہو گا۔ بس میں ہیں تو اتر کر اکیلے ہونے کا انتظار ہو گا۔

اک سین اور بھی ہے، چھوٹی چھوٹی لڑکیاں مدرسے جاتی ہیں، سکول نہیں جاتیں، مدرسے سے بھی انہیں جلدی اٹھا لیا جاتا ہے۔ جیسے ہی وہ بارہ تیرہ چودہ سال کی ہوتی ہیں تو گھر بٹھا لیتے ہیں۔ سکول جاتی ہیں تو تیسری یا حد پانچویں سے آگے نہیں بڑھتی ہیں۔

سکول کا مرنا یہ ہے کہ اس ریموٹ ایریا میں جب لڑکی پڑھتی ہوئی گھر پہنچتی ہے تو وہ کچھ ایسا نہیں سیکھ کر آتی جو کوئی سنے مانے یا اس سے متاثر ہو، نہ گھر میں کوئی ترتیب بدلتی ہے نہ کھانا پیش کرنے کا انداز۔

مدرسے سے جو پڑھ کر آتی ہے وہ بہت باتیں کرتی ہے۔ روزمرہ کے کئی کاموں کو ادا کرنے طریقہ بتاتی ہے۔ اس کا دوپٹہ ٹھیک رہتا ہے۔ وہ بہت کچھ خود ہی سمجھنے لگتی ہے۔

اس پس منظر کے ساتھ این جی او کا ایک پروگرام آتا ہے جو لڑکی سکول آئے گی اس کے گھر والوں کو ہر مہینے پیسے ملیں گے۔ رواج کی دیوار دھڑام سے گرتی ہے۔ پیسے بند ہوتے ہیں، رواج پھر تگڑا ہوا نعرے مارتا کھڑا دکھائی دیتا ہے۔

آپ نے کبھی باپ کو بھائی کو بہن یا بیٹی کا جہیز خریدتے دیکھا ہے۔ اک حسرت ہوتی، اک خواہش، اک حالت، بیٹی کی چپ آنکھیں بھی کتنے مطالبے کہتی لگتی ہیں۔ جیب وہ کچھ نہیں کرنے دیتی جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ سین دیکھنا اپنے لیے تو بہت ہی مشکل ہے۔

دو بار بلکہ تین بار اتفاق ہوا کہ لڑکے لڑکی کو اپنے نئے گھر کی خریداری خود کرتے دیکھا۔ خوشی تھی، حساب تھا دوستانہ سا کہ کیا اب کر لیں کیا رہنے دیں کس کے بغیر گزارا ہے اور کیا ضروری ہے۔ جیب چھوٹی بھی لگی تو مجبوری کا احساس کہیں تھا بھی تو کم کم ہی محسوس ہوا۔

اک خریداری دل میں زلزلے لے آئی تھی۔ اک والد تھا جو اپنی بیٹی کے لیے عام سی خریداری کرنے نکلا تھا جوڑا جوتا اور پرس کہ شاید سکول کی کوئی پارٹی تھی۔ والد کو میچنگ کی ضرورت سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ لڑکی فون پر بتا نہیں پا رہی تھی۔

ابا میں نہیں جاؤں گی۔ ضروری نہیں ہے۔ جبکہ ابا بھیجنا تو چاہتا تھا ساتھ یہ کہتا تھا کہ میچنگ مہنگی ہے مل نہیں رہی، وہ سمجھ بھی نہیں پا رہا تھا۔

اک حسرت ہے کہ وہ دکاندار میں ہوتا اور وہ اسی ابا کے ساتھ خریداری کو آتی تو اسے پتہ لگتا کہ باہر جو لوگ ملتے وہ بھی اپنے ہوتے۔ دوسرے کے دل کی سن لیتے ہیں۔

دیہی علاقوں میں ہر سال بنتی گندی مندی روڈیں جو ہر سال ہی ٹوٹتی رہتی ہیں۔ بڑی ہی زہر لگتی ہیں۔ اب تو انگلی پر حساب ہو جاتا کہ یہ پیسے کدھر کدھر جاتے ہیں۔

بڑا ہی سڑ کر پوچھا تھا یہ سب تو جواب ملا تھا کہ روڈ بن جاتی ہیں۔ تو دور قصبوں سے بھی اچھے رشتے آ جاتے ہیں۔

ہم کسی نہ کسی طرح رواج کرتے آ رہے تھے۔ جیسے تھے ویسے رہ مر رہے تھے۔ اب بدل رہے ہیں رواج بھی ہم بھی۔ ٹوٹ پھوٹ زیادہ۔ ہمارے مزاج کی مرمت کرے ہمارے رواج سدھارے۔ ہم اس کی سنیں وہ ہمیں جانے، ایسا کوئی ملا نہیں۔ خود ہم کچھ کرتے نہیں، خدا اسے بھجواتا نہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments