کچھ معاشرتی مشاہدات


شام کا وقت ہو، سہانی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو، سامنے میز پر چائے کا ایک کپ پڑا ہو تو سوچیں کبھی کبھی بے لگام ہو ہی جاتی ہیں، آج میں نے سوچا کہ موجودہ معاشرتی نظام پر نظر دوڑاؤں اور اپنا محاسبہ کروں، یہ سوچوں کہ ہم اقوام عالم سے پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟ ہم ایک منضبط، پرسکون اور قانع قوم کیوں نہیں بن سکے؟ ہمارے جسمانی اور ذہنی نظام کی کون سی چول ڈھیلی ہے جس کی وجہ سے ہم ہمیشہ شارٹ کٹ کے چکر میں ہی رہتے ہیں؟

ہمارا رویہ اور ہماری سوچ کیسے درست ہو سکتی ہے؟ صبح سے لے کر شام تک میں ہمیشہ لوگوں کے چہرے پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے افعال اور اعمال کا مشاہدہ بھی کرتا ہوں اور یورپی اقوام کے ساتھ موازنہ بھی کرتا ہوں۔ صبح دم جب میرے دیہات کے ہونہار طالب علم بن سنور کر نکلتے ہیں تو ان کے مرجھائے ہوئے مدقوق چہرے ان کی ذہنی و جسمانی کمزوری کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں۔

ذرا آگے چلتا ہوں تو ہر شخص اپنی مرضی کے ساتھ اس سڑک پر چل رہا ہوتا ہے، مجال ہے کسی کو اپنے فرائض کا خیال ہو کہ یہ راستہ پیدل چلنے والے کے لئے ہے یا قریب سے گزرتی گاڑی کے لئے، اور میں ٹھہرا پرانی اور دقیانوسی رسوم و رواج کا قائل کمزور سا انسان جو اس ذہنی آزادی کے خلاف ہے جو کسی اور فرد کا حق سلب کر کے حاصل ہو۔

دروغ بر گردن راوی، میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک انگریز پاکستان کی سیر کرنے آیا۔ وہ ایک پاکستانی گائیڈ کو لے کر لاہور کی سڑکوں پر گھوم پھر رہا تھا۔ ایک ریلوے کراسنگ سے گزرا تو ٹرین کا پھاٹک بند تھا۔ انگریز نے گاڑی ریلوے پھاٹک پر کھڑی کی۔ سامنے دیکھا تو ایک پاکستانی کندھے پر اپنی سائیکل اٹھائے ریلوے پھاٹک کراس کر رہا ہے۔ انگریز نے پاکستانی گائیڈ سے پوچھا کہ یہ شخص کیا کر رہا ہے؟

گائیڈ نے انگریز کو بتایا کہ اصل میں پاکستانی قوم کے پاس وقت نہیں ہے ، وہ گاڑی آنے کا انتظار نہیں کر سکتی۔ اس لئے یہ شخص سائیکل کندھے پر اٹھائے پھاٹک کراس کر رہا ہے۔ جب گاڑی گزر گئی تو انگریز نے پھاٹک کراس کیا تو سامنے ایک مداری بندر کا تماشا دکھانے کے لئے مجمع لگائے بیٹھا تھا، انگریز اس وقت دم بخود ہو کر رہ گیا کہ وہی سائیکل والا شخص بندر کا تماشا دیکھنے میں مشغول تھا۔

ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، آپ کو اس سائیکل والے شخص کی طرح ہزاروں لوگ دیکھنے کو ملیں گے جو بلاوجہ قانون توڑنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور ببانگ دہل نجی محفلوں میں اس قانون شکنی کا اعلان کرنے میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔

دنیا میں ایسا معاشرہ کبھی بھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا جہاں رشوت، سفارش، اقربا پروری اور ناانصافی کا دور دورہ ہو۔ ہمارے موجودہ پاکستان میں بھی ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا چکا ہے جو کسی اشارے کو توڑنے، قطار میں اپنی باری کا انتظار کرنے کی بجائے کسی کی سفارش کے ذریعے پچھلی گلی سے اپنا کام نکلوانے اور قانون کو گھر کی باندی بنا کر رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

میرے ایک قریبی دوست کی یہ بات مجھے ازبر ہو گئی ہے کہ اگر آپ کی جیب میں پیسے ہوں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کسی جنت سے کم نہیں، آپ پلک جھپکتے ہی بانی پاکستان کی تصویر سے مزین ایک کاغذ کے ٹکڑے سے کام لے کر پلک جھپکتے ہی اپنی راہ کی تمام رکاوٹیں دور کر سکتے ہیں۔

میں ہمیشہ ایک ہی بات کا قائل رہا ہوں کہ معاشرے کے لئے مفید شخص کی تربیت ماں کی گود سے شروع ہوتی ہو کر یونیورسٹی پر ختم ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں افراد کے حقوق کا رونا تو ہر این جی او، صاحب عقل و فہم مفکر روتا نظر آتا ہے لیکن کسی بھی فرد کو قوم اور معاشرے کے لئے مفید اور کارآمد بنانے کے لئے اس کے فرائض نہیں بتائے جاتے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں لوٹ کھسوٹ اور افراتفری کا عنصر عام ہے۔

ہم میں سے آج تک کسی بھی شخص نے یہ نہیں سوچا کہ ترقی پذیر معاشرے میں رشوت ستانی کیوں عام ہے؟ رشوت ستانی کی سب سے بڑی وجہ ہمارا کاہلانہ اور غیر منصفانہ رویہ ہے۔ ہم میں سے اکثر افراد کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اگر میں نے رشوت نہ دی تو میرے کام کو یا تو دیر ہو جائے گی یا پھر متعلقہ راشی اہلکار میرے کام کو تکمیل پذیر نہیں ہونے دے گا۔ اس لئے ہم اس اہلکار کی دیہاڑی لگوا کر اپنے مطلوبہ نتائج جلد از جلد حاصل کر کے خود تو چلتے بنتے ہیں لیکن قطار میں کھڑا غریب اپنی جمع پونجی رشوت کی نذر کر کے گھر جاتا ہے۔

رشوت ستانی کا سب سے بڑا موجب ہماری سوچ اور ہمارا رویہ ہے جس کی وجہ سے ہم کسی دوسرے کا حق مارنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ایک ٹھیکیدار رشوت کے ذریعے ترقیاتی کاموں میں ناقص میٹیریل کا استعمال کرتا ہے تو ایک ڈاکٹر پچھلے دروازے سے کمیشن لے کر ناقص ادویات کا نسخہ عوام کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے، ایک انجینئیر جس پر ملک و قوم کے بھاری احسانات اور سکالر شپس کا بوجھ ہوتا ہے، وہ اپنی ذاتی خواہشات کو اجتماعی اور ملکی مفادات پر قربان کرنے میں تھوڑی سی ہچککچاہٹ کا بھی مظاہرہ نہیں اور ٹھیکیدار سے ملنے والے چند سکوں کے عوض قوم کی نیا ڈبونے میں دیر نہیں کرتا۔

ماہر تعلیم ہو یا صحافی، سیاست دان ہو یا اسٹیبلشمنٹ کا کل پرزہ، قاضی ہو محتسب، ڈاکٹر ہو یا نرس، اس معاشرے کا ہر فرد غریب پاکستانی عوام کو نہ صرف دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے بلکہ مملکت پاکستان کی جڑوں پر بھی کاری ضرب لگا رہا ہے۔

افراتفری اور جلد بازی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں، ہم بندر کی طرح وہ نقال ہیں جو اپنے گلے پر استرا چلانے میں ایک لمحے بھی نہیں لگاتے۔ اگر یقین نہیں آتا تو کسی بھی آرتھو پیڈک وارڈ میں چلے جائیں جہاں عوام کی اکثریت جلد بازی یا کسی مووی سے متاثر ہو کر اپنی بائیک کو جہاز بنا کر چلانے کی عجلت میں اپنی ٹانگ یا بازو تڑوا کر ہائے ہائے کر رہی ہو گی۔ میں صبح تا شام صرف اپنے لوگوں کے احساسات و جذبات کو مطالعہ کرتا ہوں، شومئی قسمت مجھے روزانہ بہت سے موٹر سائیکل اور کار سوار دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہمیشہ قومی شاہراہ کو غلط جگہ یا غلط ٹرن سے پار کرنے کی کوشش میں اپنا یا اپنی گاڑی کا نقصان کرواتے ہیں لیکن بار بار ایک ہی کیلے سے پھسلتے ہیں اور درست جانب سے ٹریفک کی روانی میں شامل نہیں ہوتے کیونکہ ان کو بھی بندر کا تماشا دیکھنے والے سائیکل سوار کی طرح بہت جلدی ہوتی ہے۔

غیر ضروری مقابلہ بازی اور اپنے ہمسفر کو ہر میدان میں پچھاڑنا اور پیچھے چھوڑنا ایک اور معاشرتی اور ذہنی بیماری ہے جس کا ذکر کرنا یہاں ضروری ہو گا۔ کسی شادی بیاہ کی محفل میں جائیں یا کسی دفتر میں، کسی پبلک مقام پر ہوں یا کسی عزیز سے گفتگو کر لیں، آپ کو یہ احساس ستائے گا کہ سامنے بیٹھا شخص اپنی حرکات و سکنات، لباس اور انداز سے مجھے مرعوب کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ اگر غلطی سے آپ کسی لحاظ سے اس سے بہتر ہیں تو وہ آپ سے دل ہی دل میں نفرت کرنا شروع کر دیتا ہے۔

”نرگسیت زدہ“ اس معاشرے میں اگر کسی بھی فرد نے اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے تو اس کو پہننے کے لئے ایک عمدہ لباس، بڑی گاڑی، بلند و بالا گھر اور نوکر چاکروں کے ساتھ ساتھ خوشامد کا فن لازمی آنا چاہیے ورنہ چاہے آپ کسی بھی فیلڈ میں کتنے ہی تجربہ کار نہ ہوں، آپ کو نیچا دکھانے کی کوشش میں حریف دیر نہیں لگائے گا۔

بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
تیری دیوار سے اونچی مری دیوار بنے

ہماری ایک اور معاشرتی برائی ”وقت کی پابندی“ نہ کرنا ہے۔ میری چھٹی کا دن ہمیشہ تقریبات میں گزر جاتا ہے اور اکثر شادی بیاہ اور کسی افتتاح کی تقریبات میں معزز مہمانان کے لئے مجھے دو گھنٹے سے زیادہ انتظار بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ بھی رواج ہے کہ میت کا نماز جنازہ ادا کرنا ہے لیکن مقامی ایم پی اے، ایم این اے یا پیران پیر، پیر طریقت کو دیر ہو گئی ہے۔

مقامی مسجد میں عیدین اور جمعۃ المبارک کی ادائیگی میں اکثر اس لئے تاخیر کر دی جاتی ہے کہ عالم دین کا خطاب ختم ہو گا اور میں اپنی سوچوں میں گم سم، سہما ہوا بیٹھا انتظار کرتا ہوں کہ اگر کچھ کہوں تو مبادا مجھے ملحد و کافر نہ سمجھ لیا جائے۔

مجھے یاد ہے کہ اپنی امریکہ یاترا کے دوران ایک لیکچرر پانچ منٹ لیٹ ہو گیا تو اس نے پوری کلاس سے نہ صرف معافی مانگی بلکہ وضاحت بھی کی کہ میری والدہ کی طبیعیت ناساز تھی اور مجھے گاڑی پارک کرتے ہوئے تھوڑی دیر ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments