سڑکوں پر خواتین کے ساتھ پیش آنے والے جنسی ہراس کے واقعات: ’مرد سمجھتے ہیں کہ سڑکیں ان کی جاگیر ہیں‘


 

پاکستان، خواتین، جنسی ہراسانی

لاہور ہو، کراچی یا اسلام آباد، پاکستان کا کوئی بھی دوسرا شہر، کسی خاتون کے لیے رات کے اندھیرے میں اکیلے پیدل چلنا اور اپنی منزل پر صحیح سلامت پہنچ جانا کسی معرکہ سے کم نہیں۔ ہر لمحے کسی تیز بھاگتی کار کے ٹکرانے سے زیادہ کسی کے آواز کسنے کا ڈر رہتا ہے۔۔۔

یہ 2014 کی بات ہے جب ایک دن دفتر سے گھر جاتے ہوئے دیر ہوگئی اور تقریباً ساڑھے نو بج چکے تھے۔ اس دوران کراچی کے آئی آئی چندریگر روڈ پر ٹریفک اور بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ میرا گھر یہاں سے صرف دس منٹ کے فاصلے پر تھا تو میں نے پیدل گھر جانے کا سوچ لیا۔

کیونکہ رکشہ ملنے پر بھی ٹریفک میں انتظار کرنا پڑتا اور مزید دیر ہوجاتی۔

بظاہر یہ خاصی آسان سی بات لگ رہی تھی۔ اس سے پہلے بھی میں اسی راستے سے پیدل گئی ہوں اور میرا خیال رہا ہے کہ اگر میں تیز تیز چلوں گی تو کسی کو کچھ بولنے کا موقع نہیں ملے گا۔

لوگ اکثر منع کرتے تھے لیکن میں نے ان سنی کرتے ہوئے جہاں جانا ہوتا، جلدی سے پہنچ جاتی۔ مگر اس بار جب میں چلتے چلتے پرل کانٹینینٹل یا پی سی ہوٹل پہنچی تو ایک گاڑی میرے پاس آکر رُکی۔

میں چلتی رہی لیکن گاڑی بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ اس دوران مجھے اس کے اندر سے آواز آئی کہ ‘آپ کو میں ڈراپ کردیتا ہوں’ اور جب میں نے مُڑ کر نہیں دیکھا تو پھر آواز آئی کہ ’ریٹ ہی بتا دو۔‘

اس دوران پی سی ہوٹل کے پاس پولیس کی گاڑی کھڑی رہتی تھی۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کو بتانے سے شاید کچھ نہیں ہوگا، میں نے پولیس والے کو بتایا کہ یہ گاڑی میرے پیچھے آرہی ہے۔ ایک حوالدار اس گاڑی کی طرف شناختی کارڈ مانگنے کی غرض سے بڑھا تو گاڑی والے نے گاڑی بھگا لی۔ تھوڑی دور ایک ٹریفک پولیس والے نے بھی اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ وہاں سے بھی بھاگ گیا۔

اب اس دوران میرے ذہن میں وہ تمام باتیں گھومنا شروع ہوگئیں جو زیادہ تر لڑکیوں کو کہی جاتی ہیں۔

‘اگر تم پیدل نہ نکلتی تو ایسا نہیں ہوتا’

یا پھر

‘پتا نہیں ہے کہ یہ کراچی ہے، پیرس نہیں، کیا سوچ کر نکلی تھی؟’

گھر پہنچنے سے پہلے ہی میں نے کسی کو بھی بتانا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ غلطی میری ہی خیال کی جائے گی۔

جب اسلام آباد آنا ہوا تو ایک روز دن میں دفتر سے گھر جاتے ہوئے پھر یہی ہوا۔ یا تو گاڑیاں آکر رکنا شروع ہوگئیں یا پھر لوگ مُڑ کر دیکھنا۔

’کسی نے گھور کر دیکھا تو کسی نے کار کا ہارن بجا کر لفٹ آفر کی‘

لیکن مجھے اچانک یہ پُرانا واقعہ بھلا کیوں یاد آگیا؟ دراصل ٹوئٹر پر اسلام آباد کی ایک خاتون نے گذشتہ دنوں اپنے ساتھ پیش آنے والے اسی نوعیت کے ایک واقعے پر تھریڈ شیئر کیا ہے۔

مجھے پیش آنے والے واقعے کے تقریباً سات برس بعد تحریم حسن کو بھی اسلام آباد میں اپنے دفتر سے گھر جاتے ہوئے کئی لوگوں کی جانب سے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ تو کیا اتنے برسوں میں کچھ نہیں بدلا؟

تحریم بطور ایک کمیونیکیشن ڈیزائنر کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے لیے اکیلے سڑک پر چلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ٹوئٹر پر انھوں نے بتایا کہ اکیلے پیدل چلنے کے دوران انھیں کسی نے گھور کر دیکھا تو کسی نے کار کا ہارن بجا کر لفٹ کی آفر کردی۔

بے چین ہو کر انھوں نے تیز چلنا شروع کردیا اور اس دوران کچھ لوگوں نے ان کا پیچھا بھی کیا۔ آخر کار وہ صحیح سلامت گھر پہنچ گئیں۔

وہ اس تھریڈ کے اختتام پر کہتی ہیں کہ ’مرد سمجھتے ہیں کہ سڑکیں ان کی جاگیر ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تحریم نے کہا کہ ‘پہلے تو یہ سب کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔ لیکن اب لکھنے کے بعد مجھے مزید ہراسانی کا سامنا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ‘مجھے ایک کمنٹ نظر آیا کہ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہوتا۔ مجھے کہا کہ آپ گروہ کے ساتھ باہر نکلا کریں۔

’ایک اور نے کہا کہ اگر آپ کے (جامنی رنگ کے) بالوں پر کوئی جملہ کس رہا ہے تو آپ بال کالے کروالیں۔ جبکہ ایک جگہ یہ بھی لکھا پایا کہ یہ من گھڑت کہانی ہے۔ اور میں جھوٹ بول رہی ہوں۔’

دوسری جانب کچھ خواتین نے انھیں فون یا پیغامات کے ذریعے بتایا کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور کبھی کبھار کچھ لوگ اس حد تک تنگ کرتے ہیں کہ جانے کا خیال ہی ترک کرنا پڑجاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے کسی کو بتانے سے بہتر چپ رہنا سمجھا۔

اسی دوران جب تحریم کی پوسٹ کے نیچے کمنٹس پڑھے تو اس میں کئی خواتین اور مردوں نے جہاں ان سے اس واقعے کے نتیجے میں معافی مانگی وہیں دیگر نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بھی بیان کیے۔

ایک صارف نے لکھا کہ انھوں نے ایک بار قریب ایک سٹور تک جانے کی غلطی کی۔ اس دوران دو موٹر سائیکل سوار آئے اور انھوں نے ان کے گرد چکر لگانے شروع کردیے۔

لاہور کی رہائشی وفا حسین نے کہا کہ ‘مجھے تحریم کی ٹویٹ میں وہ تمام باتیں نظر آئیں جو میں نے اکثر خود نوٹ کی ہیں۔

’ایک بار صرف ہماری گلی کے آخر میں دکان تک جانا تھا لیکن اس تک جانے میں مجھے کتنے لوگوں کو بتانا اور وضاحت دینی پڑی وہ مجھے پتا ہے۔ یہ مشکل ہوجاتا ہے۔ گھر والے کہتے ہیں کہ یہ تمھاری بھلائی کے لیے تمھیں روک رہے ہیں۔ تو انسان ایسے میں کیا کرے۔‘

دوسرا واقعہ جو اس وقت سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے وہ ہے سارہ ایویرارڈ کا۔

سارہ

جنوبی لندن کی ایک رہائشی سارہ رات میں اپنی دوست کے گھر سے اپنے گھر تک پیدل جارہی تھیں کہ جب وہ لاپتہ ہوگئیں، پھر 10 مارچ کو سارہ کی لاش برآمد ہوئی

جنوبی لندن کی ایک رہائشی سارہ رات میں اپنی دوست کے گھر سے اپنے گھر تک پیدل جارہی تھیں کہ جب وہ لاپتہ ہوگئیں۔

ان کو آخری بار تین مارچ کو دیکھا گیا تھا۔ یہ بھی خیال رہے کہ جس سڑک سے وہ گزر رہی تھیں وہ خاصی مصروف رہتی ہے۔

ان کے لیے شروع کی گئی تفتیش تب ختم کردی گئی جب 10 مارچ کو سارہ کی لاش برآمد ہوئی۔ اور ایک پولیس اہلکار کو قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔

سارہ کی لاش ملنے کے بعد جہاں ایک طرف سوشل میڈیا پر ہیش ’ٹیگ ٹیکسٹ می وین یو گیٹ ہوم‘ (یعنی گھر پہنچ کر میسج کر دینا) ٹرینڈ کررہا ہے، وہیں خواتین کی جانب سے اکیلے رات میں نکلنے کے گرد خوف بھی زیرِ بحث ہے۔

بظاہر یہ دونوں واقعات دو مختلف ممالک میں پیش آئے ہیں لیکن ان میں مماثلت ہے۔ اور دونوں باتوں کو ملانے والی کڑی یہ ہے کہ خواتین کیوں باآسانی سڑکوں پر اکیلے نہیں نکل پاتیں۔

سماجی کارکن نغمہ اقتدار کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے معاشرے میں یہ عزت کا معاملہ بن جاتا ہے کہ ایک لڑکی بغیر کسی مرد کے باہر کیا کررہی ہے۔‘

نغمہ کا کہنا ہے کہ ‘فی الحال تو ہم اس پر بات کر کے توجہ دلاسکتے ہیں۔ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات پر شرم کیے بغیر بات کرسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ سڑکیں اتنی ہی ہماری ہیں جتنی کسی اور کی۔ اور ہمیں نکلنے سے کوئی کیوں روکے؟’

تحریم نے اس بارے میں کہا کہ ‘جہاں تک کچھ کرنے کی بات ہے تو لوگوں کی ذہنیت تبدیل ہونے میں بہت وقت لگے گا۔

’ابھی تو میں نے یہاں لکھا ہے تو شور برپا ہورہا ہے۔ اور ہراسانی کا سامنا ہے۔ اگر اس سے زیادہ کچھ کہوں تو پتا نہیں کیا ہوجائے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp