پیپلز پارٹی تاریخ کی درست سمت کھڑی ہے


چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے بعد کچھ لوگ پیپلز پارٹی کے سیاسی کردار کو مشکوک بنانے اور پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون مفاہمت میں بداعتمادی کی دراڑیں ڈالنے کے لیے سرگرم عمل ہیں، ان کوششوں کو تقویت پی ڈی ایم اجلاس کے بعد ملی جب پیپلز پارٹی نے استعفوں کے معاملے پہ اختلافی موقف اپنایا اور پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری نے دوران اجلاس میاں نواز شریف سے وطن واپسی کا مطالبہ کیا،  جس پہ مریم نواز اور آصف علی زرداری صاحب میں کچھ تلخی پیدا ہوئی جس کی پھر دونوں طرف سے معذرت کی گئی۔

پاکستان میں آئین و قانون کو پیروں تلے روندنے والوں کو سیاسی کمک ہمیشہ سیاسی جماعتوں نے فراہم کی، ماضی میں فوجی آمروں کو یہ سیاسی مدد ہمیشہ جماعت اسلامی، مسلم لیگ نون اور ان جیسی کچھ دیگر جماعتوں نے فراہم کی، انہیں ووٹوں کی حرمت کا احساس اس وقت اس لیے نہیں ہوا کہ وہ آمروں کی شہ پہ انتخابات میں ووٹوں کی حرمت کو بوٹوں تلے روندتی ہوئی اقتدار میں آتی اور ان کی کاسہ لیس کا کردار ادا کرتی رہی ہیں، مگر پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ووٹ کی طاقت سے جمہوریت کو بہترین انتقام کے نظریے پہ چلتے ہوئے ، ان آمرانہ قوتوں کو ہمیشہ یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ جمہوریت ہی بہترین انتظام حکومت ہے۔

پیپلز پارٹی نے 1985 کے غیرجماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو اپنی اس سیاسی غلطی کا برملا اظہار کرتی تھیں، آج ویسی ہی صورتحال ہے ، ایک طرف پیپلز پارٹی ہے جو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے خلاف ایک مضبوط موقف رکھتی ہے تو دوسری طرف پی ڈی ایم میں شامل مسلم لیگ ن، جے یو آئی ف اور کچھ دیگر جماعتیں ہیں جو اسمبلیوں سے باہر نکل کر احتجاج کرنے اور حکومت گرانے کی بات کرتی ہیں۔

پیپلز پارٹی کا موقف پہلے روز سے بالکل واضح ہے کہ وہ ایسے کسی عمل میں شریک نہیں ہو گی جس سے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی وجوہات پیدا ہوں، بلکہ وہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے عمران خان کی فسطائیت کا نہ صرف مقابلہ کریں گے بلکہ ان حکومت کو گرانے کا ہر طریقہ استعمال کریں گے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ استعفوں کے آپشن کو مکمل طور پہ رد کر دیا جائے، استعفے آخری آپشن کے طور پر ضرور رکھنے چاہئیں۔

لکھاری دوستوں نے پیپلز پارٹی پہ سندھ حکومت کی قربانی دینے سے فرار کا الزام لگایا مگر وہ بھول گئے کہ ایک فوجی آمر کی گود میں کون پروان چڑھا، کس نے ایک دوسرے فوجی آمر کو صرف ایک صوبے کی حکومت کے عشق میں ایل ایف او کے نفاذ میں مدد کی اور آخر تک اس کے ساتھ شریک اقتدار رہے۔

پیپلز پارٹی کے خلاف اپنے امتیازی رویوں کے ثبوت کے طور پہ 2017 میں بلوچستان حکومت کو گرانے پھر سینیٹ انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے کردار کو زد تنقید بناتے وقت یہ بھول گئے کہ اسی پیپلز پارٹی سے 2008 کے انتخابات کے بعد کیا سلوک کیا گیا، کس طرح جھوٹے میمو گیٹ معاملے پر کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں پیپلز پارٹی کے خلاف کھڑے ہو گئے، لیکن پھر اسی پیپلز پارٹی نے 2014 کے دھرنے میں ایک مثبت جمہوری کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف مسلم لیگ نون کی حکومت کو بچایا بلکہ پی ٹی آئی کو واپس اسمبلی میں لانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

اس وقت پی ڈی ایم یقیناً حکومت مخالف جمہوری قوتوں کا مضبوط پلیٹ فارم ہے مگر اس کی بنیاد ڈالنے میں اہم کردار بھی پیپلز پارٹی نے انجام دیا، پی ڈی ایم جماعتیں ضمنی انتخابات لڑنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھیں مگر دلائل کے ساتھ انہیں ضمنی انتخابات میں حصہ لینے پہ آمادہ کیا جس کا نتیجہ عمران خان حکومت کی ہر صوبے میں ذلت آمیز شکست کی صورت نکلا، آج تاریخ میں پہلی بار ایک برسر اقتدار حکومت اپنے ہی ادارے کے خلاف کھل کر بے نقاب ہوئی تو اس کی وجہ پیپلز پارٹی کی شاندار سیاسی حکمت عملی ہے، آج ڈسکہ میں عمران خان بے نقاب ہوئے تو اسی حکمت عملی کے تحت ہوئے، قومی اسمبلی میں حکومت کو اکثریت کے باوجود شکست ہوئی اسی حکمت عملی کے تحت ہوئی، چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں آج حکمران دنیا بھر میں رسوا ہو کر کٹہرے میں کھڑے ہیں تو پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کی بدولت۔

اگر کسی کو گمان ہے کہ پیپلز پارٹی اب مزاحمتی سیاست بھول چکی ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ، وہ تجزیہ کرتے وقت اپنی ایک آنکھ بند کر چکا ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت و قابل فخر کارکنان نے ہر قدم ، ہر موڑ پہ اپنے مزاحمتی کردار کی نشانیاں پیش کی ہیں، اور ان شاءاللہ اگر مستقبل میں ضرورت پڑی تو پیپلز پارٹی کی قیادت و کارکنان جمہوریت کے استحکام آئین و پارلیمان کی بالادستی کی جنگ میں صف اول میں کھڑے ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنان آج بھی جالبؔ، فرازؔ اور فیضؔ کی نظموں کو اپنی سیاسی جدوجہد کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے یقیناً مصالحت کو اہمیت دی، اس کی بہترین مثال میثاق جمہوریت ہے جو ایک ایسے سیاسی مخالف کے ساتھ کیا جس نے ساری زندگی ایک آمر کی گود میں پرورش پانے کے بعد شہید بھٹو، شہید بینظیر بھٹو اور ان کے خاندان کی ذاتی کردارکشی کی ، ان پہ جھوٹے مقدمات بنائے ، نیب جیسا بدنما داغ جمہوری اداروں میں شامل کیا اور پھر اس کے ذریعے سیاسی انتقام کی تاریخ رقم کی مگر جب میاں صاحب اور ان کے خاندان پہ مشکلات آئیں تو شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے سب اختلافات ،ذاتی مخاصمت ایک طرف رکھ کر میاں صاحب سے سعودی عرب میں ملاقات کر کے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور ایک نئے مفاہمتی سیاسی دور کا آغاز کیا۔

آج جس جگہ پیپلز پارٹی کھڑی ہے ، بہتر ہوتا کہ وہاں مسلم لیگ نون کی سیاسی تاریخ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھ کر بات کی جاتی مگر سیاسی بغض و عداوت انسان کی عقل کو اکثر اپنے حصار میں جکڑ لیتی ہے، پیپلز پارٹی آج بھی پی ڈی ایم کی تحریک کا اہم ترین اور لازمی جزو ہے ، اس کے بغیر کوئی تحریک چل سکتی ہے نہ ہی کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔

پیپلز پارٹی کا فوری استعفے دینے کا استدلال بالکل درست ہے ، اگر استعفے دے کر اپوزیشن ایوانوں سے باہر آ جاتی ہے اور عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ان نشستوں پہ ضمنی انتخابات کروا دیں تو پھر اپوزیشن کہاں کھڑی ہو گی، یا استعفوں کے بعد ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو گئی اور کسی تیسری قوت کو جمہوریت پہ شب خون مارنے کا جواز میسر آ گیا تو کون اس کا ذمہ دار ہو گا؟سسٹم کو استعفوں کی وجہ سے لپیٹ دیا گیا تو قوم کس کو قصوروار ٹھہرائے گی؟

اس جیسی کئی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی ایوانوں سے فوری طور پر مستعفیٰ ہونے کے معاملے پہ اختلاف رکھتی ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی خدانخواستہ پی ڈی ایم کی تحریک سے الگ ہو رہی ہے، پیپلز پارٹی آج بھی ہر غیر آئینی، غیرجمہوری اقدام کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے اور پی ڈی ایم کی قیادت بالخصوص مسلم لیگ نون کی قیادت کے ساتھ تاریخ کی سب سے بہترین ورکنگ ریلیشن شپ میں ہے تو ایسے میں نادان دوست جوش تحریر میں دونوں جماعتوں کے درمیان اس اعتماد، ادب و احترام اور مفاہمت کے تعلق کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments