یوم خفت


عصر حاضر میں مختلف نسبتوں سے دن منانے کا چلن عام ہو چکا ہے۔ لگتا ہے عنقریب سال کے 365 دن کم پڑ جائیں گے اور ایک ہی دن کو کئی نسبتوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ مجھ سمیت میرے چند احباب کو یونیورسٹی کی جانب سے ایک تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ وہ تقریب بغیر کوئی وجہ بتائے مقررہ وقت سے چند گھنٹے پہلے مؤخر کر دی گئی۔

مجھ سمیت کچھ دوست جو مختلف مصروفیات اس تقریب کی وجہ سے ترک کیے بیٹھے تھے ، عجیب سی صورتحال سے دوچار ہو گئے۔ ہم نے سوچا سبھی احباب کو ایک جیسی خفت کا سامنا کرنا پڑا تو کیوں نہ آ ج مل کر یوم خفت ہی منایا جائے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ چند دن پہلے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی جانب سے راقم کو ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور کے کالم نگاروں اور ادبی شخصیات کے اعزاز میں ایک شام کا اہتمام کر رہی ہے جس میں مجھ ناچیز کو بھی بطور مہمان شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ تقریب کے مہمانان گرامی کی فہرست پر نظر ڈالی تو قحط الرجال کا لفظ مجسم ہو کر نگاہوں کے سامنے آ گیا۔

مختار مسعود صاحب قحط الرجال کو یوں بیان کرتے ہیں کہ مردم شماری ہو تو بے شمار اور مردم شناسی ہو تو نایاب، قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی، مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط اور حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔

چند روز قبل روزنامہ کائنات کا خصوصی ایڈیشن جو کہ 1970 کی بہاولپور صوبہ بحالی کی تحریک کے پس منظر میں شائع کیا گیا تھا ، پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس شمارے میں اس وقت کے بہاولپور کے تمام کالم نگاروں، دانشوروں اور ادیبوں کی تحریریں پڑھیں، یقین جانیے لطف آ گیا، تحریروں میں ایسی روانی، چاشنی، لطافت اور نغمگی تھی کہ نثر میں بھی شاعری کا لطف آیا۔ اب چند ایک کو چھوڑ کر یہ حال ہے کہ بقول ناصر کاظمی

گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ

کچھ ناموں پر سینہ کوبی اپنی جگہ لیکن یہ سوچ کر دل کو تسلی دی اور دل میں تھوڑا احساس تفاخر بھی در آیا کہ یونیورسٹی نے ہمارا نام بھی مہمانوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ ہم بھی ہر آنے جانے والے سے یونیورسٹی کے اس اچھے اقدام کا ذکر کرتے اور بہانے سے دعوت نامہ مع مہمانوں کی فہرست ان کے سامنے دھر دیتے لیکن منہ سے کچھ نہ بولتے تاکہ دوسرا خود ہی فہرست میں ہمارا نام دیکھ لے۔ احباب فہرست دیکھتے تو چونک اٹھتے کہ حضرت اس میں تو آپ کا نام بھی شامل ہے تو دل میں ایک ٹھنڈک سی اتر جاتی لیکن ظاہری طور پر عاجزی وانکساری کا مظاہرہ شروع کر دیتے۔ مہمانوں کی فہرست پر ایک دوست نے یہ پھبتی بھی کسی کہ یونیورسٹی نے ساری جماعت اسلامی اکٹھی کر دی ہے تو میں نے عرض کی حضور مجھ پر یہ تہمت مت لگائیں کیونکہ

ابھی باقی ہیں خوں میں کچھ آ ثار آذری کے

شومئی قسمت تقریب سے چند گھنٹے پہلے یونیورسٹی کی جانب سے پیغام موصول ہوا کہ ہمارے اعزاز میں رکھی گئی آج کی تقریب نامعلوم وجوہات کی بناء پر ملتوی کر دی گئی ہے تو ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ ہم نے تو گزشتہ رات خواب بھی دیکھا تھا کہ تقریب میں ہمیں یونیورسٹی کی جانب سے اعزازی شیلڈ بھی عنایت کی گئی۔ ہم سوچ رہے تھے ایسا ہوا تو ہم بھی سکہ بند کالم نگاروں کی فہرست میں مانے جائیں گے مگر ہمارے خوابوں کے تاج محل یوں زمیں بوس ہوں گے ، ایسی امید نہ تھی مگر جو کاتب تقدیر کو منظور۔

ابھی ہم غم اور مایوسی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن تھے کہ استاد محترم انور گرے وال صاحب کا فون آ گیا کہ آپ کی خفت مٹانے کا انتظام کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے دولت خانے پر مجھ سمیت تقریب کے چند اور مدعوئین کے لیے محفل کا اہتمام کیا ہے، احباب چائے نوشی کریں گے اور اپنا غم غلط کریں گے۔ چونکہ تمام مصروفیات یونیورسٹی کے پروگرام کے چکر میں پہلے ہی ترک کی جا چکی تھیں  سو راوی فراغت ہی فراغت لکھ رہا تھا، اس لیے وقت سے پہلے ہی گرے وال صاحب کے دولت خانے پر جا پہنچے۔

وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور میں انہیں دیکھ کر۔ میں نے عرض کی کہ حضرت شاید اسی موقع کے لیے کسی عاشق نامراد نے کہا تھا کہ سر سلامت ہونے چاہیں عزت آنی جانی شے ہے۔ فرمانے لگے میاں چھوڑو سیانے کہہ گئے ہیں سردی اور بے عزتی جتنی محسوس کرو اتنی زیادہ لگتی ہے۔ اتنی دیر میں انعام بھائی بھی پہنچ گئے۔ پھر ہم تینوں مل کر برادرم راجہ شفقت کا انتظار کرنے لگے اور حساب کتاب لگانے میں مصروف ہو گئے کہ شفقت بھائی اپنے بھاری تن و توش کے ساتھ چھوٹے دروازے سے اندر داخل ہو پائیں گے یا مین گیٹ کھولنا پڑے گا لیکن راجہ شفقت نے ہمارے تمام اندازے غلط ثابت کر دیے اور بڑی مہارت سے سانس روکتے ہوئے چھوٹے دروازے سے ہی اندر داخل ہو گئے۔

انور گرے وال صاحب نہایت نفیس اور مہمان نواز شخصیت ہیں۔ آج کل بال غازی ارطغرل کی طرز پر بڑھا رکھے ہیں۔ فراخ پیشانی کی سلوٹیں غمازی کرتی ہیں کہ جوانی کڑی تپسیا اور ریاضت میں گزری۔ صاحب کشف بھی ہیں ، یہ عقدہ آ ج کھلا جب ہمارے دل کا حال بوجھ لیا اور ہمارے ظاہری انکار کے باوجود دلوں کا حال بوجھتے ہوئے چائے سے پہلے دنیا بھر کے لوازمات میز پر سجا دیے۔ ہم سب نے اللہ پاک کی ان نعمتوں سے خوب انصاف کیا لیکن ازراہ مروت یہ بھی کہنا نہ بھولے کہ گرے وال صاحب آ پ نے ہمارے منع کرنے کے باوجود اتنا تکلف کر ڈالا تو انہوں نے فوراً حضرت جون کا یہ شعر لڑھکا دیا

جانے تیری نہیں کے ساتھ کتنے ہی جبر تھے کہ تھے
میں نے تیرے لحاظ میں تیرا کہا نہیں کیا

پہلے تو ہر کسی نے اپنی خفت مٹانے کے لیے ایک دوسرے پر خوب فقرے کسے اور۔ جب تعریف برائے تعریف کا دور چلا تو ایک دوسرے کو جنوبی ایشیا کا عظیم کالم نگار اور دانشور ثابت کرنے میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی۔ جب چائے کا دور چلا تو غیبت احباب بھی شامل گفتگو ہو گئی تو محفل کا لطف دوبالا ہو گیا۔

یوسفی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ جون ایلیاء ان سے ملنے آئے یوسفی صاحب نے انہیں چائے پیش کی۔ چائے نوشی کے دوران کچھ احباب کی شان میں گستاخانہ کلمات کا بھی تبادلہ ہوا تو حضرت جون فرمانے لگے کہ اگر چائے کے ساتھ غیبت احباب بھی شامل ہو جائے تو واللہ شراب کا سا مزہ دیتی ہے۔

آخر میں کچھ عرس یونیورسٹی انتظامیہ کا بھی پڑھا گیا۔ سورج کے سائے جب ڈھل گئے تو مچھروں نے کان میں بگل بجانا شروع کر دیا۔ اس سمع خراشی کی تاب نہ لاتے ہوئے ہم نے اپنے میزبان سے اجازت چاہی اور یوں یوم خفت کا اختتام بھی مچھر جیسی حقیر مخلوق کے ہاتھوں ہزیمت سے ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments