جسٹس قاضی فائز عیسیٰ: ’جو اپنے آئینی دائرے سے باہر نکل جاتے ہیں وہ سچے پاکستانی نہیں‘


جسٹس قاضی فائز عیسی نے جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس نظرِ ثانی کیس کی سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے عدالتی فیصلوں، حکومت کی جاسوسی، آزدی صحافت، ججوں کی ویڈیو ریکارڈنگ سے لے کر بلیک میلنگ اور فوجی آمروں کے رویوں کی بات کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بنچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کی عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی ہے اور وہ اس درخواست کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔ عدالت نے ان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ‘حکومت ججوں کے پیچھے پڑنے کے بجائے اور ان کی جاسوسی کرنے کے بجائے اپنا کام کرے۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں اکیلا ہوں اور چٹان کی طرح اکیلا ہی کھڑا رہوں گا۔’

انھوں نے کہا کہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ‘تمام مقدمات میں براہِ راست کوریج دی جائے۔ میں صرف اپنے کیس کو براہِ راست نشر کرنے کی بات کررہا ہوں۔اور میری استدعا بھی یہی ہے۔ کہ میرے مقدمے میں براہِ راست بتایا جائے، دکھایا جائے کہ کیا ہورہا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘قائدِ اعظم کے دوست کے بیٹے کو غدار کہا جارہا ہے۔’

انھوں نے فل بنچ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ اس بنچ کے باقی جج میرے جونیئر ہیں۔ اور اس بارے میں پروپیگینڈا بھی کیا جارہا ہے کہ جونیئر جج کبھی کسی سینئیر کے خلاف فیصلہ نہیں دیتے۔ ساتھ میں یہ بھی کہا گیا کہ عدالت میرے معاملے کو فل کورٹ میٹنگ میں بھجوا دے۔’

انھوں نے پہلے ہونے والے ایک واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘دو جج میرا کیس سننے سے معذرت کرچکے ہیں۔اور پانچ جج میرے حوالے سے ہونے والی فل کورٹ میٹنگ میں شرکت نہیں کریں گے۔ تین جج سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر ہیں۔’

اس بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے انھیں روکتے ہوئے کہا کہ ‘یہ آپ نے کیسے تعین کرلیا کہ جج شرکت نہیں کریں گے۔

لیکن جسٹس فائز عیسی نے اپنی بات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ‘حکومت نے کہا کہ عوام جاہل ہیں عدالتی کارروائی نہیں سمجھ سکیں گے۔’

مزید پڑھیے:

’سب کو معلوم ہے جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس ہوں گے‘

جسٹس فائز عیسیٰ کو ’قتل کی دھمکی‘: سپریم کورٹ کا وائرل ویڈیو پر ازخود نوٹس

’ججز قابل احتساب ہیں تو حکومت بھی احتساب سے بالاتر نہیں‘

حلف کی پاسداری کی جاتی تو ملک کے حالات مختلف ہوتے: جسٹس فائز عیسیٰ

ترقیاتی فنڈز کیس: چیف جسٹس اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، فائز عیسیٰ کا اختلافی نوٹ

عمر عطا بندیال نے ایک بار پھر انھیں روکتے ہوئے کہا کہ ‘حکومت نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ عدالتی کارروائی میں تکنیکی باتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اس بارے میں بات کی گئی تھی۔ آپ کا کہا ہوا ہر لفظ میڈیا میں رپورٹ ہوتا ہے۔اس سے پہلے آپ نے گٹر کا لفظ استعمال کیا تھا۔ آپ الفاظ کے چناؤ میں خیال کریں۔ آپ خود جج ہیں۔’

اسی بات پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے دلیل دی کہ ‘قائد اعظم بھی اردو نہیں بول سکتے تھے۔ لیکن جب وہ بات کرتے تھے تو لوگ کہتے تھے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ قرار دادِ پاکستان بھی انگریزی میں تھی۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں نے سمجھی اور قبول کی۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘اسی قراردادِ پاکستان پر لوگوں نے ملک بنایا جو آمروں نے دو لخت کردیا۔ ضیا الحق اور پرویز مشرف جیسے فوجی آمروں نے ملک کو برباد کیا۔ ہم انھیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم اس ملک کے نوکر ہو۔ لسانی کارڈ نے اس ملک کو برباد کردیا ہے۔ تو یہ بھاشن نہ دیں کہ قوم عدالتی زبان نہیں سمجھتی۔’

دوسری جانب انھوں نے کہا کہ ‘تمام قانون اور عدالتی فیصلے نجی پرنٹنگ پریس چھاپتے ہیں۔ شرم کی بات ہے کہ کل نجی کمپنیاں چھاپنے سے انکار کردیں تو کیا ہوگا۔ اگر جج فیصلوں سے بولتے ہیں تو میڈیا کو عدالت سے باہر نکال دیں۔ اگر فیصلوں سے بات کرنی ہے تو فیصلے بعد میں میڈیا کو جاری کردیں۔ ‘

جب صحافت کی بات آئی تو جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ‘صحافت تو اتنی آزاد ہے کہ ساری خبریں عمران خان اور شیخ رشید سے شروع ہوتی ہیں۔ اگر میڈیا آزاد ہے تو کوئٹہ تک لانگ مارچ کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟’

سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘ ‘بھٹو مقدمے کے 963 صفحات کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ اوپن کورٹ میں سماعت ہوئی۔’

انھوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل فیصلہ بھٹو کیس کا تھا۔ ‘مجھ سے سوال کرتے ہوئے ایک صاحب نے کہا کہ جب جج بھٹو کا مقدمہ سنتے تھے تو پیچھے بندوق والے کھڑے ہوتے تھے۔ بندوق ججوں کی کن پٹی پر تھی۔ اگر بھٹو کے مقدمے کی ریکارڈنگ ہوتی تو آج سب کچھ سامنے ہوتا۔’

اس کیس کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ‘جسے مردِ مومن کہتے تھے اس نے ملک اور عدلیہ کے ساتھ کیا کِیا یہ سب کے علم میں ہونا چاہیے۔’

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ‘وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی براہِ راست نشر ہونا چاہیے۔ یہ طے ہونا چاہیے کہ کہاں سیاست ختم ہوتی ہے اور کہاں سے طرزِ حکمرانی کا آغاز ہوتا ہے۔ وزرا بھی سیاسی بیانات جاری نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ایسا کرنا ان کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘یہ کسی قانون کی کتاب میں نہیں لکھا کہ میرے عزیز ہم وطنوں والی تقریر براہِ راست نشر کی جائے۔ یہاں ایسا ہوتا ہے کہ عمران خان آتے ہیں اور ساتھ پانچ کمپیئر آجاتے ہیں۔ اسی طرح لفظ اسٹیبلشمنٹ کسی قانون کی کتاب میں نہیں لکھا ہوا۔ کبھی محکمہ زراعت کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور کبھی شمالی علاقہ جات کا۔ کیا سچ کو براہِ راست نشر نہیں کیا جاسکتا؟’

انھوں نے کہا کہ ‘ججوں کی ریکارڈنگ کس نے کی؟ اور کس نے بلیک میل کیا؟ احتساب عدالت کے جج سمجھوتہ کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔ ہماری ایجنسی کی یوں تو بہت تعریف کی جاتی ہے لیکن کیا اس نے ویڈیو بنانے والے کا پتا لگایا؟ کراچی کے ایک ڈیتھ سیل سے ریکارڈنگ کرکے قومی میڈیا میں چلایا گیا۔’

انھوں نے کہا کہ ‘یہ ملک جتنا ان کا ہے اتنا ہمارا بھی ہے۔ جو اپنے آئینی دائرے سے باہر نکل جاتے ہیں وہ سچے پاکستانی نہیں۔’

اپنی دلیل جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘مقتدر حلقے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کے مالک ہیں تو یا فرعون ہیں یا پھر پاگل۔’

اسی طرح انھوں نے عدلیہ کے بارے میں کہا کہ ‘جج کو بلیک میل نہیں ہونا چاہیے۔ جج بلیک میل ہونے کے بجائے خودکشی کرلے۔ ایک جج کے لیے موت غلط فیصلہ دینے سے بہتر ہے۔’

انھوں نے پاکستان کے صدر اور وزیرِ اعظم کے بارے میں کہا کہ ‘صدر اور وزیرِ اعظم کی جانب سے روز احتساب پر بھاشن دیے جاتے ہیں۔’

‘لیکن وزیرِ اعظم نے ایک آئینی ادارے الیکشن کمیشن پر حملہ کیا۔ اور سپریم کورٹ کو اس حملے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ کل کو عدالت پر حملہ کیا جائے گا۔ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیرِ اعظم ایسا ہوتا ہے؟’

انھوں نے کہا کہ ‘میں اس عدالت کو طاقتور بنانے کا مقدمہ لڑ رہا ہوں۔’

انھوں نے اپنے دلائل کے اختتام میں کہا کہ ‘میں نے دلائل کا آغاز اسلام سے کیا تھا۔ اور اختتام بھی اسلام پر کرنا چاہتا ہوں۔ کفر کا لفظ اسلام آنے سے پہلے استعمال ہوتا تھا۔ کفر کا مطلب ہے سچ کو چھپانا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سچ نہیں بولا جاسکتا۔’

انھوں نے کہا کہ ’23 مارچ آرہا ہے۔ پاکستان بنانے والے اس دن غائب ہون گے۔ لیکن جہاز بڑے شوق سے اڑائیں جائیں گے۔’

انھوں نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘کچھ عرصے بعد قائدِ اعظم کے بجائے ضیا الحق کی تصویر نہ لگا دی جائے۔’

اپنی درخواست کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ‘میری درخواست ہے کہ میری درخواست پر مختصر حکمنامہ جاری کر کے نظرثانی کیس کو سنا جائے۔’

اس دوران جج عمر عطا بندیال نے باقی ججوں کے ساتھ مشاورت کرکے فیصلہ کرنے کے لیے وقت مانگ لیا۔

قاضی فائز نے یہاں یہ بھی واضح کیا کہ ‘دس رکنی بنچ کے ایک رکن اگلے ماہ ریٹائر ہو رہے ہیں،’ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے انھیں کہا کہ ‘ہمارے علم میں یہ بات ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp