صارفین کے حقوق کی پامالی


بنیادی طور پر دو قسم کی انڈسٹریز ہوتی ہیں۔ پہلی سروس انڈسٹری جس میں کوئی شخص یا ادارہ اپنی سروسز کے عوض آپ سے پیسے وصول کرتا ہے۔ دوسری مینوفیکچرنگ انڈسٹری جس میں کوئی چیز خام مال سے فیکٹری میں تیار ہوتی ہے، ہول سیلر کے پاس سے ہوتی ہوئی مارکیٹ پہنچتی ہے۔ اس کڑی کا آخری اور اہم ترین پرزہ صارف ہے جس کے لئے اور جس کے ذریعے یہ سارا نظام چلتا ہے۔ کیونکہ اس کی جیب سے پیسہ نکل کر نہ صرف ان صنعتوں کا پہیہ چلاتا ہے بلکہ بالواسطہ ٹیکس کی شکل میں نظام حکومت چلانے میں بھی ایک بڑا حصہ ڈالتا ہے۔

دنیا بھر میں صارف کو بہت سارے حقوق دیے جاتے ہیں۔ اسی ہفتے میں وہ تاریخ ( 15 مارچ) گزری ہے جسے دنیا میں کنزیومر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ امریکہ کینیڈا میں مارکیٹ کے تاجر اورسیلز مین کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ”Customer is alway right“ یعنی ”گاہک ہمیشہ درست ہوگا“ یا Customer is King یعنی ”گاہک بادشاہ ہے“ ۔ اس لئے خوش خلقی سے پیش آنا، بہتر ماحول فراہم کرنا، اس سے فضول بحث نہ کرنا، یعنی اس کے لئے ہر ممکن آسانی پیدا کرنے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ پھر ایک اور اہم چیز جو تمام مغربی ممالک میں رائج ہے کہ آپ خریدی ہوئی چیز 14 دن کے اندر واپس کر کے اپنی رقم واپس حاصل کر سکتے ہیں ( شمالی امریکہ کے بعض بڑے سٹور ایک سال بعد بھی چیز واپس لے کر رقم واپس کر دیتے ہیں ) ۔

اسی طرح قیمت ہر چیز کے سامنے لکھی ہونی ضروری ہی۔ سب سے دلچسپ قانون جس سے خادم کا اس وقت پالا پڑا جب طالب علمی کے دور میں ایک بڑے سٹور میں بھی کام کرتا تھا کہ اگر سٹور کی غلطی سے کوئی قیمت غلط مشتہر ہو گئی ہے یا سٹور میں اس شے کے سامنے لکھی گئی ہے تو سٹورصارف کو اسی مشتہرقیمت پر دینے کا پابند ہوگا ( ظاہر بات ہے کہ گاہک کم قیمت لکھی ہوئی چیز کو ہی خریدنے آئے گا) ۔ ایک واقعہ ہمارے ایک ساتھی کی غلطی سے پیش آیا جب اس نے ایک بیش قیمت کیمرے کے سامنے ایک کم قیمت کیمرے کی قیمت لکھ دی اور ہمیں ایک گاہک کی نشاندہی پر وہ مہنگا کیمرا آدھی سے بھی کم قیمت پر بغیر لیت و لعل کے اسے دینا پڑا۔

ساری دنیا میں گاہک کو متوجہ کرنے کے لئے سیل لگائی جاتی ہے سیل کے ان معاملات کوبھی واضح اور صاف مشتہر کرنا لازمی ہے۔

اسلام آباد کے ایک بڑے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے گئے وہاں ایک بڑے بورڈ پرانہوں نے ایک بنک کارڈ پر بڑی آفر مشتہر کررکھی تھی۔ آرڈر دیا، کھانا کھایا جب بل کی باری آئی تو ان کو بتایا گیا کہ آپ کی آفر والا کارڈ بھی موجود ہے تو انہوں نے آئیں بائیں شائیں شروع کردی کہ یہ تو ”بفے“ پر ہے آپ نے ”آ لا کارٹ“ منگوایا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب ہماری عادتیں بھی کسی حد تک خراب ہو چکی ہیں ان کو کہا کہ بورڈ پر یہ والی بات لکھی دکھا دیں۔ سپروائزر آیا، مینیجر آیا ہم اپنی بات پر اڑے رہے۔ بالآخر مینیجر کو اس کے حسب منشا ادائیگی کر یہ کہہ کے رخصت ہوئے کہ ہم آپ کو کنزیومر کورٹ بلوائیں گے کیونکہ آپ کے ریسٹورنٹ کے اندر اسے مشتہر کرنا اور پھر اس سے روگردانی کرنا مناسب نہیں۔

خیر واپس آ کر اسلام آباد کی کنزیومر کورٹ میں بنک اور ریسٹورنٹ دونوں کو فریق بنا کر مقدمہ دائر کر دیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ اس دھوکہ دہی کی نشاندہی ہو اور آئندہ یہ محتاط رہیں۔ اب مینیجر کی کالز آنا شروع ہو گئیں کہ ”سر میں تو نہیں سمجھتا تھا آپ یہ کر گزریں گے۔ آپ تشریف لائیں آپ ہمارے مہمان ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔“ عرض کی کہ نہ مفت کھانے کی خواہش ہے نہ ہم کسی آفر کے سلسلے میں گئے تھے اور اللہ کا کرم ہے کہ جو رقم آپ کو دی وہ کوئی گراں بھی نہیں لیکن کچھ مغرب کا اثر ہو چکا کہ کچھ کام معاشرے کے سدھار کے لئے کرنے بھی ضروری ہوتے ہیں۔

فریق مخالف کے وکیل نے بھی بحث کے دوران استہزائیہ لہجے میں کہا ”بھائی صاحب یہ کینیڈا نہیں آپ کو لگ سمجھ جائے گی۔“ جواب ہمارے پاس بھی تھا کہ ”اسی لئے تو عدالت آئے ہیں کہ کینیڈا کی کوئی ایک اچھی روایت ہمارے ہاں بھی قائم ہو سکے۔“ پھر مخالف وکیل کئی طرح کی ٹال مٹول اور آفرزپرآیا لیکن قصہ مختصر کہ اچھا خاصا سبق سکھانے کے بعد جج صاحب سے عرض کردی کہ بس یہی ہمارا مقصد تھا جو پورا ہو چکا کہ صارف سے غلط بیانی نہیں کرنی اور اس آفر سے کہیں زیادہ خرچہ وہ وکلا کی فیسوں کی شکل میں کرچکے لہذا ہم اپنا کیس واپس لیتے ہیں۔ حالانکہ جج صاحب ان سے ایک اچھی خاصی رقم ہرجانے کے طور پر لے کر دینے کا فیصلہ کرچکے تھے۔

گارنٹی اور وارنٹی کے بھی عجیب مسائل ہیں۔ ایک دوست کو ایک مہنگے فون کے خراب ہونے کے بعد اس بات کا پتہ چلا کہ یہ ڈبہ بند ہو کے دبئی سے آیا ہے اور اس کی وارنٹی کا پیریڈ ختم ہونے کے بعد دوبارہ جھاڑ پونچھ کر کے ڈبے میں ڈالا گیا اور ”برینڈ نیو“ کے طور پر بیچا گیا ہے۔ بہت سے سٹور تو وارنٹی لکھ کر دینا بھی ضروری نہیں سمجھتے اور ضرورت پڑنے پر صاف مکر جاتے ہیں۔

بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور اور نت نئے سٹور قائم ہوچکے، آن لائن شاپنگ بھی شروع ہو چکی لیکن بہت ساری قباحتیں ابھی باقی ہیں جن کی طرف پوری توجہ نہیں۔ ان برانڈز پر آپ اگر ایڈوانس پیمنٹ کر کے آن لائن خریداری کر لیں اور وہ چیز ان کو بعد میں پتہ چلے گا کہ ہمارے پاس موجود نہیں تو آپ کی رقم واپس کرنے میں چھ ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔ رابطے کا کوئی ذریعہ ہی موجود نہیں ہوتا، ویب سائٹ پر لکھے فون کی دوسری طرف سے آواز آتی ہے کہ ”آپ کا مطلوبہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں“ ای میل کوئی دیکھتا نہیں اور یہ اچھے بڑے برانڈز کا حال ہے۔

سیل کے اشتہارات کا ذکر ہوا، آپ کو ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا پر ایسے ایسے اشتہارات سے پالا پڑے گا کہ آپ سب کام چھوڑ کر فوراً خریداری کے لئے بھاگیں۔ لیکن وہ 70 فیصد کم قیمت کی چیز آپ ڈھونڈتے ہی رہ جائیں نہ وہ آن لائن ملے گی نہ کسی سٹور میں۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی ایک آدھ چیز پر وہ سیل ہوتی ہے لیکن خاکسار کو توپچھلے کئی برسوں سے جوتوں کے ایک انٹرنیشنل برانڈ کی ویب سایئٹ یا سٹور پر کوئی ایک بھی چیز مشتہر رعایتی قیمت پر دکھائی نہیں دی۔ یہی شکوہ بہت سے دوستوں کو دوسرے برانڈز سے بھی ہے۔

Flat 50 اور entire store 50 % off کے بھی ہر سٹور کے اپنے اپنے مطلب ہیں۔ ”یہ جی نیا آیا ہے یہ سیل میں شامل نہیں، یہ جی سیزن کا ہے یہ بھی شامل نہیں۔“ تو بھائی پھر آپ نے پورا سٹور کیوں مشتہر کر رکھا ہے۔ آپ کا حق ہے کہ گاہک کو متوجہ کریں نہ کہ اسے خراب کریں۔ ( گنتی کے دو ایک برانڈز بہرحال موجود ہیں جو اس پر پورے طریقے سے عمل کرتے ہیں ) ۔

صارف کی بہتری اور حق کے لئے ریاست، تاجر اور خود صارف ذمہ دار ہیں۔ کنزیومر رائٹس کا زیادہ تر صارفین کو پتہ بھی نہیں ہوتا نہ ہی وہ ”وقت ضائع“ کرنے کو مناسب خیال کرتے ہیں پھر انا بھی آڑے آتی ہے کہ چند سو یا چند ہزار کے لئے بحث کریں یا کوئی قدم اٹھائیں۔

صارف کے لئے مناسب قوانین، باقاعدہ تربیت، صارفین کی آرگنائزیشن، تاجر کا رویہ، سخت قانون اور ازالے کے طور پر جرمانہ وغیرہ سے اس نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ لیکن کرے گا کون؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments