سفر جاری ہے


میرے پیارے جدا کیا ہوئے زندگی بدل گئی۔ جب اندر جھانک کر دیکھا تو وہ وہیں بازو پھیلا کر استقبال کر رہی تھی۔ دراصل بدل میں ہی گئی ، اندر سے باہر سے چہرہ چہرہ دھلنے لگا۔ معصوم ہم سب لوگ اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے اس قدر بوجھ اکٹھا کر لیتے ہیں کہ طاقت کا قلی اس کو اٹھانے سے انکار کرنے لگتا ہے۔

ہم سفر اپنی اپنی باریوں پر بے رنگ ٹکٹ سے بھی چڑھتے دیکھے۔

وہ جو ایک عرصے سے ہاتھ میں ٹکٹ تھامے لائن میں لگے تھے ، انتظار میں بیٹھے رہے اور نہ جانے کہاں کہاں سے نئے نئے بھولے بسرے چہرے بنا لائن کے ہوا کی تیزی سے ٹرین پر چڑھتے دیکھے۔

چند ماہ قبل مجھے بھی فرسٹ کلاس ایئرکنڈیشنڈ ٹرین کا ٹکٹ موصول ہوا۔ تیاری کیا کرتی، کیا رکھتی کیا چھوڑتی ، اس کی تو ہوش ہی نہیں تھی۔ اس ٹرانزٹ سے اصل کی امید نے دل پھول کی پتی کی مانند ہلکا کر دیا، سارا بوجھ اتر گیا۔ تیاری میں یادداشت کو مخمل کے جزدان میں بند کر لیا ہے۔

ایک طویل ٹرانزٹ میں خلل کے باعث فیس بک سے رابطہ منقطع رہا۔ معمول میں قدرتی تبدیلی سے بڑھ کر بہت کچھ دیکھنے کو ملا۔ باہر جمود اور اندر فیکٹریاں ، وہ بھی سچے سودوں کی لگ گئیں۔ زندگی کا پیغام ملنے لگا۔ کپڑے جھاڑے تو خاک ہی خاک بھربھر کر ریت سے الگ ہونے لگی۔ ارے میں نے تو سنا تھا کہ ہم مٹی کے باوے ہیں۔ پھر یہ گرم لوہے جیسی تپتی اور سرابوں کی ماں ریت کہاں سے میری چکنی، گندمی اور خوشبودار مٹی میں شامل ہو گئی تھی۔

کچھ برسوں سے میری چٹی دودھ رنگت میں مٹیالی آ گئی تو بہت تشویش ہونے لگی ، ماں کہتیں دودھ جیسی رنگت کو مٹی مٹی کر دیا ہے تم نے، کچھ اپنا بھی دھیان کیا کرو۔ ”دھیان“ تو ٹوٹے دلوں کو جوڑنے، اپنے پرائے، امیر غریب، گورے انگریزوں سے لے کر کالے حبشیوں میں اس ہی کا عکس ڈھونڈھنے میں لگا رہا۔

بے شمار انسانوں کی طرح میں بھی ایک عرصہ اپنی زندگی بنانے کی کوشش میں رہی۔ مطلب یہ ہوا کہ جب ادھر منتقل ہوتے ہیں تو کیا مردہ حالت میں ہوتے ہیں؟ سوال ٹیڑھا ہے یا!

انتھک محنت کی تسبیح کرتے کرتے سب بدل گیا ، یقین مانیں چند دہائیوں سے آیئنے کا منہ دیکھا ہی نہ تھا۔ محل نما گھر میں قد آور امپورٹڈ کٹ گلاس کے زاویوں میں بند آئینے موجود تھے۔ کیا مجال تھی کہ دھیان ان کی جانب جاتا۔ بس مستقبل بنانے، زندگی بنانے، بچے، گھر بار اور نہ جانے کیا کیا بنانے میں لگی رہی۔ اس کی دی عطاؤں کو اپنے نام لکھوانے کا ارادہ کرتا ہوا بے بس انسان۔ تب ہی تو ہماری خود کی بنائی زندگی کا شیشہ ایک جنبش سے چکنا چور ہو جاتا ہے۔

گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر نہایا اور دھلا نور باہر لان کی مٹی میں جا بیٹھتا اور بچوں کی طرح اس کے لاڈ اٹھانے لگ جاتا۔ میں کہتی ”ہائے وے نور تو نے تو چنگے بھلے نیلے سوٹ پر مٹی ہی مٹی لگا لی ۔ اب یہ گندے کپڑے لے کر گھر کے اندر نہ آنا“ ۔

سر پر ہاتھ مارتا ہوا نور کہتا ”او باجی اے سب مٹی ای مٹی اے، مٹی لگنا تے خوش بختی اے تسی وڈھے لوک اینوں گندا لیندے او“ دو سال قبل گردوں کے کینسر سے ہمارا چار دہائیوں پرانا نور چھپن برس مٹی کے لاڈ اٹھاتے اٹھاتے اس دنیا سے چلا گیا۔

اس ان پڑھ نے زندگی سے نہیں مٹی سے دوستی رکھی۔ تب ہی تو وہ جھولی جھاڑتا تو مٹی کے باوے کی مٹی جھڑتی، جبکہ زندگی بنانے والی انا پرست جھولی میں ریت ملی مٹی تھی۔ جان سے پیارے ابا کو میں نے اپنے ہاتھوں سے کوویڈ کے دنوں میں چند لوگوں کی موجودگی میں ”سپرد خاک“ کیا تو نور کی بات سمجھ میں آنے لگی۔

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments