چہار کالمی خبر، ڈاچی ایکسپریس اور معروف شاعروں کی رعونت


خبرنامہ زوروشور سے ہائی کورٹ کے باہر ہونے والی اخلاق ( باختگی ) سے بھر پور پاکستانی سیاست کا آج کا کارنامہ یعنی اپنے امریکہ پلٹ شہباز گل پر انڈے بازی اور سیاہی کی گل پاشی کی خبر کی چاشنی لے رہا تھا کہ شہباز گل خود سامنے آئے۔ اور ان کے منہ سے جھڑتے پھولوں میں جب یہ فقرہ آیا۔ ”تو میں۔ مریم نواز۔ تیرے گھر جاتی امراء کے سامنے۔ کھڑے ہو کر پریس کانفرنس کروں گا“ ۔

کہ یک دم ہم اکسٹھ سال کے قبل کے فیصل آباد میں جا پہنچے۔

کوئی نصف شب کے قریب جنرل بس سٹینڈ پر بس سے اترے تو سامان اتار فارغ ہوتے ایک آدھ تانگہ ہی موجود تھا۔ بوڑھا ضعیف تانگہ بان اور بہت ہی مریل گھوڑا۔ ڈی گراؤنڈ تک سوا روپیہ مانگا سامان رکھ نکلنے کو تھے کہ سامنے ایک صاحب پہ نظر پڑی۔ ارے یہ تو اپنے خورشید عالم ہیں۔ تانگہ بان سے کہا کہ صاحب میرے گھر کے قریب رہتے ہیں ان کو بھی ساتھ لے لو کچھ اضافی پیسے بن جائیں گے۔ بڑی مشکل سے بارہ آنے دینے پہ راضی ہوئے۔ اب گھوڑا بالکل آہستہ چل رہا تھا۔

جتنی اس کی طاقت تھی۔ اور موصوف بوڑھے تانگہ بان سے ذرا تیز چلنے کی فرمائش کرتے کرتے تنگ آ چکے تھے۔ بوڑھے نے اپنے اور گھوڑے کے بڑھاپے کا ذکر کرتے معذرت چاہی۔ تو اچانک گرجے۔ بابا میں کل شام تیرے متعلق پہلے صفحہ پر چہار کالمی لگاؤں گا۔ جی یہ روزنامہ پکار (شام کے اخبار) کے مالک ایڈیٹر پبلشر اور پکار پریس کے مالک تھے۔ دو بہت محنتی بھائی۔ اخبار چھاپنے کے بعد خود سپلائی کرتے۔

اب ذہن جو صحافیوں ادیبوں شاعروں کی طرف گھوما تو کچھ اور دریچے کھلے۔ ریلوے روڈ پر سٹیشن سے ریل بازار کی طرف آتے بائیں ہاتھ پکار پریس تھا۔ جی ٹی ایس چوک میں نوائے وقت اور قندیل کے دفاتر تھے ساتھ ڈیلی بزنس اخبار اور پریس تھے۔ نفیس طبیعت عبدالرشید غازی کی کوٹھی بھی ڈی گراؤنڈ کے ساتھ تھی۔ کچہری بازار میں روزنامہ غریب عوام اور سعادت کے دفاتر تھے ان کے مالکان اور ایڈیٹر حضرات۔ ریاست علی آزاد۔ خلیق قریشی اور سعادت والوں کو بھی (شاید ناسخ سیفی صاحب ان کا بیٹا شاید ایوب سرور تھا) کو بھی۔ کالج کے اساتذہ کی طرح پیپلز کالونی میں ترجیحی بنیادوں پر پلاٹ ملے تھے جو اے بلاک میں چار چار کنال کے ساتھ ساتھ تھے اور سامنے گراؤنڈ کو پریس گراؤنڈ کانام دیا گیا مگر عرف عام میں گنجی گراؤنڈ کہلاتی رہی۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ کاغذ کی کمیابی کی وجہ سے اخباری صنعت کو اشاعت کے مطابق امپورٹ لائسنس کا کوٹہ ملتا تھا۔ زیادہ اشاعت مگر کم کوٹہ والے اخبار مل ملا (آج کے منی لانڈرنگ فرنٹ مینوں کے پیش رو سمجھ لیجیے) دوسرے ناموں سے عموماً شام کے یا ہفتہ وار اخبار کا ڈیکلیریشن حاصل کرتے۔ سو پچاس اخبار چھاپ متعلقہ دفاتر بھجواتے باقی کوٹہ بلیک میں فروخت ہوتا۔ ان میں سے بعض پیسے اینٹھنے کے لئے بلیک میل کرنے یا چمچہ گیری (آج کل تو خیر یہ ایک معزز ترین اور آسان ترین پیشہ ہے اور الا ماشاءاللہ ابلاغ اور میڈیا کے تمام شعبوں کی اکثریت فخریہ شریک ہے) کا ہی کام کرتے۔

یہ انیس سو اکسٹھ کی بات ہے۔ بڑے بھائی ایم بی بی ایس کر کے میو ہسپتال لاہور میں آئی وارڈ میں ہاؤس جاب پر تھے۔ حسب معمول جمعہ کے دن کاروباری سلسلہ میں لاہور جا ان سے ملاقات کو پہنچا تو پریشان بیٹھے تھے۔ اور سامنے ایک اخبار رکھا تھا۔ کہنے لگے ایک بچہ کی آنکھوں کا آپریشن ہوا اور اسے احتیاط کی بہت ضرورت تھی۔ اس لئے ایک فرد سے زیادہ اس کے پاس کسی کو آنے نہیں دیا۔ اور اس کے لواحقین کل بہت رعب جھاڑ ناراض گئے۔ مگر میں نے اجازت نہیں دی۔ اب یہ دیکھو۔ آج صبح یہ اخبار تقریباً ہر وارڈ میں تقسیم کیا گیا ہے۔

اس اخبار کا نام پہلی مرتبہ سنا تھا۔ پہلے صفحے پر موٹی سرخی تھی۔ ڈاکٹر شفیق۔ ایک بچے سے زیادہ ضدی۔ نیچے خبر کا متن خود اندازہ کر لیں۔

انہی دنوں ریلوے نے فیصل آباد لاہور کے درمیان ڈاچی ایکسپریس کا افتتاح کیا۔ سڑک بہت خراب ہونے اور حادثات کی کثرت کے علاوہ تین چار گھنٹے کے سفر کے دو گھنٹہ میں طے ہونے نے خوب پذیرائی بخشی۔ اور اتنا رش ہوتا کہ اکثر کھڑے ہو جانا پڑتا۔ جمعہ کے روز فیصل آباد کے اکثر کاروباری صبح جاتے اور شام واپسی کے اوقات موزوں ہونے کے باعث اسے ترجیح دیتے۔ ہر مسافر دوسرے سے حسن سلوک کرتا چار نشستوں والے برتھ پہ چھ تک بیٹھ جاتے۔ سفر ہنسی خوشی گپ شپ میں گزرتا۔ دوستیاں بنتیں واقفیت اور علم میں اضافہ ہوتا بزرگوں کی باتوں میں اخذ کرنے والا بہت کچھ ہوتا

کچھ دیر کے لئے اس ٹرین کو جھنگ تک بھی کر دیا گیا تھا۔ ان ہی دنوں کی بات ہے لاہور سے واپسی پر درمیانہ درجہ میں سوار ہوئے (صرف درمیانہ اور تیسرا درجہ تھا) تو حسب معمول ڈبہ مکمل بھر چکا تھا اور مسافر کافی کھڑے تھے۔ ذرا آگے بڑھے تو دیکھا کہ ہر نشست پر جثہ کی مناسبت سے پانچ یا چھ مسافر بیٹھے آخری آمنے سامنے کی نشستوں پر صرف چار چار اور وہ بھی اکثر منحنی جسم والے براجمان ہیں۔ قریب جا کے دیکھا تو تقریباً تمام چہرے پہچانے نظر آئے۔

آٹھوں کے آٹھوں پاکستان کے معروف و مشہور شاعر حضرات تھے اور اکثر سے گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے اپنی طالبعلمی کے زمانہ میں مشاعرہ میں بطور رضا کار کام کرتے مصافحہ ہو چکا تھا اور رسالوں اخباروں میں تصاویر نظر آتیں۔ پہلے صاحب سے انتہائی ادب سے گزارش کی کہ محترم دیکھئے یہ بزرگ کھڑے ہیں ذرا کھسک جائیں تو کافی گنجائش ہے۔ انتہائی رعونت سے جواب ملا آپ کو پتہ نہیں یہ صرف چار چار مسافروں کی نشست ہے۔ اور ہم چار چار ہی بیٹھے ہیں۔

میں گنگ ہو کہ رہ گیا۔ انہی کا ”گنڈاسہ“ شاید مجھے لگ چکا تھا کہ یہ احمد ندیم قاسمی تھے اور امروز اخبار کا باقاعدہ قاری اور امروز و فردا عنوان سے ”عنقا“ کے قلمی نام سے ان کا کالم میرا پسندیدہ تھا اور ایک دو روز قبل ہی انہوں نے انسانی بے مروتی بد لحاظی اور بزرگوں کے احترام نہ ہونے کا اپنے کالم کے مزاج کے اعتبار سے ذکر کیا تھا۔ جب ان کے ساتھیوں کی درشت آوازیں بھی شامل ہوئی تو دیکھا قاسمی صاحب کے ساتھ اپنے وہ اینٹیں گارا اٹھاتے پڑھتے احسان دانش تھے ساتھ آج تک غریبوں کے سب سے بڑے ہمدرد ”دستور کو نہیں مانتا“ والے حبیب جالب تھے۔ نغمگی بکھیرنے والے قتیل شفائی اور طفیل ہوشیار پوری بھی تھے دو کے نام بھول چکا اور ایک میرے پہچان میں نہ تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے کہا بھی کہ بیٹھنے دیں۔ مگر لہجہ اور درشت ہو گیا۔ پیچھے سے ایک آواز آئی بیٹا رہنے دو کوئی بڑے آدمی لگتے ہیں۔ ہم تو عادی ہیں کھڑے چلے جائیں گے۔ وہ معروف بزنس مین تھے۔

ہم روز کے مسافر اور بھیدی۔ ایک اور جوان کے ساتھ مل دو بزرگوں کو سہارا دے کر اوپر کے برتھ پہ چڑھا دیا۔ اور سامنے کے برتھ پہ خود اکڑوں جا بیٹھے۔ اس پر ان کے غصہ بھری نظروں کے انگارے بھولتے نہیں۔ ان کی باتوں سے پتہ چلا کہ معاشرہ کے بگاڑ درست کرنے والے یہ سپوت۔ جھنگ کالج کے مشاعرہ کے لئے جا رہے تھے۔ تب ہمارے دل سے بھی یہ صحافیانہ پیشہ ورانہ دعا نکلی تھی۔ ”خدا کرے ان کی ٹرین اتنی لیٹ ہو جائے کہ مشاعرہ کا وقت ختم ہو چکا ہو“ اکیس بائیس سال کی عمر میں اس باوقار شعبے کے معزز افراد کے قول و فعل کے تضاد کا یہ جھٹکا ابھی تک ذہن سے جھٹکا نہیں جا سکا۔

بعد میں اسی ڈاچی ٹرین میں دو تین مرتبہ فیصل آباد کے صحافیوں محترمین خلیق قریشی شاعر بھی تھے۔ ایوب سرور وغیرہ کے ساتھ سفر کا اتفاق ہوتا رہا۔ اور اس دن ریل کا وہ پورا ڈبہ دو گھنٹے قہقہے انڈیلتا رہتا۔ قریشی انتہائی بھاری بھرکم ڈیل ڈول والے خوش مزاج واقعی خلیق اور انتہائی حاضر جواب تھے۔ یہ لوگ خود لوگوں کو بلاتے انتہائی تنگ بیٹھتے بھی جگہ نکالتے۔ اپنا سامان برتھ سے اتار پاؤں میں رکھتے کھڑے احباب کو برتھ پر بیٹھ جانے کی دعوت دیتے۔

قریشی صاف کہتے بھائی میں کھڑا نہیں ہو سکتا ۔ مگر یہ چھوٹا بچہ تھک گیا ہو گا مجھے پکڑا دو۔ پوچھا گیا۔ جناب کبھی لاجواب بھی ہوئے۔ فرمانے لگے ہاں۔ کچھ دن پہلے صبح سیر کرتے واپسی پر سامنے آتے ایک بے تکلف دوست نے پوچھا ”قریشی صاحب یہ سویرے سویرے کہاں سے؟“ منہ سے نکل گیا ”سیر سور کر کے آیا ہوں“ میرے پیٹ کی طرف اشارہ کرتے کہا ”یہ کہو نا سور سیر کر کے آ رہا ہے“ جب ہم اے بلاک رہائش لے گئے تو اکثر صبح سیر کرتے ان احباب سے صاحب سلامت ہو جاتی۔ مگر کبھی غرور کا شائبہ نہ ملا۔

اسی ڈاچی ایکسپریس میں ایک صبح جاتے نیشنل سلک ملز کے مالک میاں محبوب گوڑوواڑہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقع ملا۔ سڑک خراب کی وجہ سے کار میں بھی بہت وقت اور دھکے لگتے۔ ڈرائیور سٹیشن پر چھوڑ جا کے لاہور سٹیشن پر لے لیتا۔ کئی دوستوں کے نشست پیش کرنے کے باوجود شکریہ ادا کرتے کھڑا رہنے کو ترجیح دی۔ کاروباری باتیں شروع ہوئیں تو ان کے دو ارشاد کبھی نہ بھولے۔ درست یا غلط کے تبصرہ کے بغیر۔ کہ ہر ایک کا اپنا تجربہ اور سوچ ہوتی ہے۔

فرمایا۔ زندگی میں پہلا سو روپیہ بنانا سب سے مشکل رہا اس کے بعد کے سو بننے میں وقت کم ہوتا گیا۔ پہلا ہزار بہت دیر میں اکٹھا ہوتا ہے۔ اس کے بعد کے ہزار اکٹھے ہونے میں وقت بتدریج کم ہوتا جاتا ہے۔ پہلا لاکھ جان جو کھوں سے جمع ہوتا ہے بعد کے لاکھ اتنا وقت نہیں لیتے۔ علی ہذالقیاس۔

فرمایا نئے اور ترقی پذیر ملکوں ٹیکس چوری یا بلیک سے کمایا پیسہ اس کی معیشت کی ترقی کو تیز کر دیتا ہے۔ کہ وہ جلد بڑی رقم بن نئی صنعت اور کاروبا ر قائم کرنے میں تیزی لاتا ہے۔

زندگی میں ان دونوں بیانوں کو درست پایا گو دوسرے پر عمل سے گریز ہی کی توفیق رہی۔ اور منی لانڈرنگ اور دوسرے ملکوں میں زرمبادلہ چھپانے کے چکر شروع ہوتے یہی عمل ملکی تباہی کو آج کی معراج تک لے آیا۔

ایک کلاس فیلو ایم اے جرنلزم کے پنجاب کے دوسرے بیچ میں آتے ایم اے جرنلزم کر کے نوائے وقت اور پھر کوہستان اخبار کے سٹاف رپورٹر بنے۔ کبھی کبھار ناشتہ ان کے پاس ہوتا۔ اور وہ چند گھنٹے ہمارے ساتھ لاہور کی مارکیٹوں میں خجل ہوتے رہتے۔ ایک مرتبہ بتایا کہ یار پچھلی مرتبہ ہاتھ ہو گیا۔ میں تمہارے ساتھ تھا اور اسی بعد دوپہر لکشمی چوک پہ جلسہ ہو حکومت مخالف جلوس نکلنا تھا۔ میں شام کو فلاں اخبار کے دوست رپورٹر کے پاس چلا گیا احوال پوچھا۔

تقریروں کا ملخص لیا اور اپنے اخبار میں آنکھوں دیکھا حال کی رپورٹ جمع کرا آیا۔ اگلے دن میرے اور دوست کے اخباروں میں تو لیڈروں کے دھواں دار خطاب (کہ تجربہ بتا دیتا ہے کہ انہوں نے کیا کہا ہوگا۔ اور جلوس کی تفصیل شامل تھی۔ مگر باقی اخباروں میں مختصر خبر تھی۔ کہ فلاں اہم واقعہ کے باعث یہ جلسہ اور جلوس منسوخ کر دیا گیا تھا۔

یہ ساٹھ کی دہائی کے اوائل کی یادیں ہیں۔ سوچتا ہوں ہمارے ہر شعبہ میں ذمہ داری اور اخلاقی روایات کے انحطاط اور فقدان کی رو کی ابتدا ہو چکی تھی اور اس وقت سے آج تک جتنے گنا کرنسی کی قدر کم ہوئی ہے آج کی کاروباری دیانت۔ آج کی دفاتر کی کارکردگی۔ آج کے انصاف۔ آج کی انتظامیہ آج کے اشرافیہ آج کے سیاست دان اور سیاست مذہبی رہنما اور مذہب کے مسخ شدہ تصور اور سب سے آگے لگے میڈیا کے عمل و کردار میں اس سے دس گنا انحطاط نظر آتاہے۔ کہ ”یہاں ہر چیز بکتی ہے۔ بابو جی تم کیا کیا خریدو گے“

ڈاچی ایکسپریس شاید بند ہو چکی۔ مگر کرپشن بد عنوانی اور اخلاق باختگی کی طوفان میل کا آخری سٹاپ پتہ نہیں کہاں ہے۔ ہاں اگر جنرل بس سٹینڈ فیصل آباد سے ڈی گراؤنڈ پیپلز کالونی تک تانگہ کے سوا روپیہ کرایہ۔ اب شاید ڈیڑھ دوسو ہو گیا۔ تو ”یہ تو ہونا ہی تھا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments