ایک اور شخص جو مسنگ پرسن ہو گیا!


بہت سے لوگ اب اس شخص کو سوچتے ہیں، جو کبھی اسٹیس کو کے خلاف مزاحمت بن کر ابھرا تھا۔ وہ شخص جو وہ آئی پی کلچر کے خلاف تھا۔ کبھی وہ وی آئی پی موومنٹ کے خلاف بڑھ چڑھ کر تقریریں کیا کرتا تھا۔ وہ شخص جو گلیمرائزڈ زندگی گزارنے کے باوجود میڈیا سے شرماتا تھا۔ وہ شخص جو رواداری پر یقین رکھنے والا تھا۔ عوام کے مذہبی جذبات کو ابھار کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی مذمت میں جس کے بیانات اب تک ریکارڈ پر موجود ہیں۔

وہ شخص جس کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ وہ منافقت سے پاک ہے۔ کہا جاتا تھا کہ دیگر روایتی سیاستدانوں کی طرح وہ دو چہرے نہیں رکھتا اس کا اندر اور باہر ایک ہے۔ مصلحت سے کام لیتے وقت جس کا چہرہ چغلی کھا جاتا تھا۔ وہ شخص کھیل سے کمائی شہرت کو فلاحی کاموں میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔ وہ شخص جو مخاطب سے نرم لہجے میں بات کرتا تھا۔ وہ شخص جو مغربی اخلاقیات کے مثالیں بیان کیا کرتا تھا۔ وہ شخص مخالفین کو ماتحتوں سے مشاورت نہ کرنے پر بادشاہت کے طعنے دیا کرتا تھا۔

وہ شخص جو موروثی سیاست کا بہت بڑا ناقد تھا۔ وہ شخص جسے ساری عمر خفیہ ذرائع سے آنے والی سیاسی امداد کے خلاف برسر پیکار رہنے والے سیاستدان نے اپنا مشن آگے بڑھانے کی خاطر چنا تھا۔ وہ شخص کرپشن کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے والا تھا۔ وہ شخص خود کو تبدیلی کا استعارہ کہلواتا تھا۔ وہ روایتی الیکٹیبلز سے جان چھڑا کر نئے چہرے، اور نوجوان خون کی مدد سے ملکی مسائل حل کرنے کا خواہاں تھا۔

دور دور تک بغور دیکھنے کے باوجود کسی کو اب وہ نظر نہیں آ رہا۔ وہ شخص نجانے اب کہاں رہ گیا ہے۔ شاید وہ کہیں ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو چکا، یا پھر اس وقت جو چہرہ نظر آ رہا تھا، وہ سراب تھا۔ یا شاید شہرت اور اقتدار حاصل کرنے کی خاطر اس نے خوشنما ماسک سے اپنا اصل چہرہ چھپا رکھا ہو۔ اب دنیا پر اس کا اصل چہرہ آشکار ہو رہا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اس شخص نے جس تبدیلی کی خاطر عمر تیاگ دی، اپنی ذات پر اس کے نفاذ میں وہ ناکام رہا ہے۔

کیسے مان لیں کہ آج جو شخص اس کی جگہ پر کھڑا نظر آ رہا ہے وہ کوئی اور ہے۔ کسی کو اگر اب بھی اس آئیڈیل شخص کی موجودگی پر اصرار ہے، تو اس بات کی وضاحت کیا ہوگی کہ وہ اپنے اقوال و نظریات کیوں فراموش کر بیٹھا ہے؟ حسن ظن سے کام لینے کے بعد بھی یہ سوال بنتا ہے کہ آخر اس شخص کو دوسروں سے کون سی چیز منفرد بناتی ہے جس کی وجہ سے خلق خدا اب بھی اسے اپنا مسیحا مانتی رہے؟

آج خود اس شخص کا لائف اسٹائل لگژری ہے۔ بظاہر آمدن کے ذرائع نہ ہونے کے باوجود ایک پرتعیش محل نما گھر میں وہ پر آسائش زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس کے ٹھاٹ باٹھ، طور اطوار اور رہن سہن کسی بھی وی آئی پی شخص سے کم نہیں۔ وہ بھی مہنگی ترین آرام دہ گاڑیوں میں لاؤ لشکر کے ساتھ گھومتا ہے۔ جب وہ کہیں نکلتا ہے تو عوام کے لیے اسی طرح راستے بند اور سڑکیں تنگ ہوجاتی ہیں جیسے پرانے سربراہان مملکت کی آمد پر کی جاتی تھیں۔

وہ بھی اب خود نمائی کی لت کا شکار ہو چکا، اکثرو بیشتر خبروں کی زینت بننے اور تشہیر حاصل کرنے کے لیے وہ جھوٹے دعووں اور بے بنیاد خبروں پر مبنی ٹویٹ سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ مخالف نقطہ نظر اور تنقید سننے کا اس شخص میں ذرا بھی حوصلہ نہیں رہا۔ صحافیوں کے تلخ سوالات پر وہ سیکنڈز میں بھڑک اٹھتا ہے۔ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ توہین رسالت ﷺ سے متعلق قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں خود اس کی جماعت بھی شریک کار تھی، اس کی بدولت پیدا ہوئے مذہبی جذبات کو استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو تباہ کرنے کی اس نے بھی بھرپور کوشش کی۔

چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں سب نے دیکھ لیا کہ وہ بھی اصولوں پر سمجھوتا کرتا ہے۔ اس کے جھوٹ اور فریب کی کہانیاں خود اس کی سابقہ شریک حیات کی زبانی عوام تک پہنچ چکیں۔ اب وہ فلاحی کاموں سے حاصل ہوئی نیک نامی اقتدار کی جنگ میں ایندھن کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اس شخص نے مخالفین کے خلاف جس سطحی گفتگو سے کام لیا اور جو زبان استعمال کی اس کی تاریخ میں مثال میسر نہیں۔ اپنے وکیل کے ساتھ عدالت کے باہر اس نے جو تضحیک آمیز سلوک کیا تھا وہ اس کے مزاج کے آمرانہ ہونے کی دلیل ہے۔

موروثی سیاست سے متعلق اس کے دہرے معیارات بھی اس کے دائیں بائیں کھڑے افراد سے واضح ہوچکے ہیں۔ ایک مدت تک محض اقتدار پانے کے لیے انگلیوں کے اشارے پر ناچتے ہوئے بھی اسے دنیا دیکھ چکی ہے۔ کرپشن کے خلاف اس کے اقوال بھی ایل این جی، ادویات اور آٹے و چینی اسکینڈل کے ساتھ کب کے تحلیل ہوچکے۔ اس کے لشکر میں بھی اس وقت بابر اعوان، نذر محمد گوندل، اعظم سواتی، زبیدہ جلال اور فردوس عاشق اعوان جیسے برسوں کے آزمودہ کار تھکے ہوئے گھوڑے موجود ہیں۔ رہی سہی کسر عامر لیاقت کی مصاحبت نے پوری کردی۔ ان کی موجودگی کا جواز بھی کیا خوب پیش کیا، کہ ہمارا جن سے مقابلہ ہے ان سے نمٹنے کے لیے انہی جیسے لوگ درکار ہیں۔

حقیقت یہی ہے وہ خود دیگر روایتی سیاستدانوں سے کسی طرح مختلف نہیں۔ ان کی جماعت کی پنیری بھی انہی ہاتھوں نے لگائی، جن کے ہاتھوں اس ملک کی بیشتر جماعتوں کی بنیاد رکھی گئی۔ خود ان کی ذات کا بت تراشنے میں انہی کا کمال تھا جنہوں نے اس سے پیشتر ان بتوں کو بھی تراشا تھا جنہیں ڈھانے کا مشن آج اسے سونپا گیا ہے۔ اصول، نظریہ اور کرپشن کے خلاف جنگ صرف عوام کو متوجہ کرنے کا حربہ تھا۔ جس پراسرار انداز میں راتوں رات اس شخص کو پذیرائی ملی اور دیگر جماعتوں سے لوگ اڑان بھر کر جوق در جوق اس کے قافلے میں شامل ہوئے وہی اس کی کریڈیبیلٹی کو مشکوک بنانے کے لیے کافی تھا۔ اس کے باوجود کافی عرصہ تک مگر ان کو خلق خدا کی جانب سے پذیرائی ملتی رہی۔

آج کے دور میں لیکن لمبے عرصے تک عوام کو بیوقوف بنانا ممکن نہیں رہا۔ ٹیکنالوجی کے دور میں کسی شخص کی کہی ہوئی بات اور حرکات وسکنات چھپی نہیں رہتی۔ ایک بچہ بھی ایک کلک سے کسی کے قول وفعل کا تضاد جان سکتا ہے۔ یہ معلوم کرنا نوجوان نسل کے لیے مشکل نہیں کہ کسی کے افکار اس کے کردار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ نظر بظاہر یہ آ رہا کہ اس شخص کے متعلق بھی خلق خدا جان چکی کہ یہ وہ تعبیر ہرگز نہیں جس کا خواب دکھایا جا رہا تھا۔ ہر گزرتے پل اس کی مقبولیت ماند پڑتی جا رہی ہے اور اس کا طلسم ٹوٹ رہا ہے۔ اوپر تلے ملنے والی انتخابی شکستوں کے بعد اس کے پالنے والوں کو بھی اس کے تہی دامن ہونے کا یقین جلد ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments