ہم جنسیت اللہ کی مرضی ہے


ہم جنسیت پر استاذی وجاہت مسعود کی تحریر میں انسانی اخلاقیات، انسان کے انسان کے ساتھ رویے، انسانی حقوق اور مختلف شناخت کے حامل افراد کی معاشرے میں قبولیت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ جس پر حسب روایت دشنام ترازی اور ہم جنسیت کو فروغ دینے کے الزامات دھرے گئے ہیں بجائے اس کے دلیل سے بات کی جائے اور مسئلہ سلجھایا اور سمجھا جائے۔

ہم جنسیت کو فروغ دینے کی بات ایسے ہی ہے کہ اگر کوئی معذور افراد کے حقوق کی بات کرے تو یہ کہا جائے کہ فلاں معذوری کو فروغ دے رہا ہے۔ ہم جنسیت انسانی مسئلہ ہے۔ کسی بھی زاویے سے ہم جنسیت کو فروغ نہیں دیا جاسکتا ہے۔ کوئی کیسے کسی کو ہم جنسیت پر راغب کر سکتا ہے۔ یہ کوئی نظریہ، کوئی کلچر یا کوئی مذہبی شناخت نہیں ہے کہ جس کی تبلیغ کی جائے۔ ہم جنسیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم جنسیت جرم نہیں ہے۔ نہ کوئی رویہ ہے۔ نہ ہی کوئی اختیار ی فعل ہے۔ یہ کسی انسان کی مختلف شناخت کا مسئلہ ہے۔

خواجہ سرا الگ شناخت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ زیادہ کی دہری شناخت ہوتی ہے۔ ہر ذی شعور یہ جانتا ہے۔ کوئی بھی شادی شدہ جوڑا توقع نہیں کرتا ہے کہ ان کی اولاد لڑکا یا لڑکی کی بجائے خواجہ سرا پیدا ہو۔ مگر بے اختیار ہیں۔ خواجہ سرا انسانی بطن سے پیدا ہو رہے ہیں۔ بطور انسان خواجہ سراؤں کے بھی حقوق ہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کی بات کرنا دہری شناخت کو فروغ دینا کیسے کہا جائے گا۔

ہم باقی دنیا سے الگ تھلگ ہرگز نہیں ہیں۔ جس طرح باقی دنیا میں الگ شناختوں کے انسان موجود ہیں۔ پاکستان کی سرزمین پر بھی ہیں۔ ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے سب انسان ایک ہی شناخت رکھتے ہیں۔ ایک ہی مذہب رکھتے ہیں۔ ایک ہی رجحان رکھتے ہیں۔ سب ایک ہی جیسا سوچتے ہیں۔ ایک جیسا بولتے ہیں۔ ایک جیسا چلتے ہیں۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہے۔ عورت، مرد اور خواجہ سرا سمیت دیگر کئی شناختیں ہیں۔ ہر انسان اپنی شناخت کے ساتھ جنم لیتا ہے۔

شناخت کے ساتھ جنم لینے پر انسان کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اللہ کی مرضی ہے اور تمام انسان اللہ کی مخلوق ہیں۔ اللہ کی کار سازی ہے۔ کارخانہ قدرت ہے۔ انسان اس پر کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ مذہبی فکر کے لوگ ہم جنسیت کے ذکر پر قوم لوط کا بہت حوالہ دیتے ہیں۔ بستی کے غرق ہونے اور قوم لوط کی تباہی کا بتایا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان، عیسائی اور یہودی یہ بتا سکتا ہے کہ قوم لوط کی ہلاکت کسی صالح اور نیک قوم کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ کسی دوسرے طبقہ نے قوم لوط کی بستی کو غرق کیا تھا۔

تاریخی شواہد ہیں کہ ایسا نہیں ہوا تھا۔ اللہ ہی کے غضب کا شکار ہوئے تھے۔ استادی وجاہت مسعود سمیت تمام انسان دوست افراد کا مدعا یہی ہے کہ ہم جنسیت کی شناخت رکھنے والے افراد بھی اللہ کی مخلوق اور انسان ہیں۔ بطور انسان ہمیں انسان سے نفرت کی بجائے انسانی رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ باقی معاملات اللہ کے سپرد ہیں۔ انسان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

ریاست، کوئی طبقہ، کوئی مذہب یہ حق نہیں رکھتا ہے کہ وہ مختلف شناخت کے حامل افراد کی قسمت کا فیصلہ کرے یا اس کے انسانی حقوق سلب کرے۔ ہر انسان کو اپنی خلوت میں جینے کا مکمل حق حاصل ہے۔ دنیا کا کوئی قانون یہ اجازت نہیں دیتا ہے کہ کسی کی نجی زندگی میں مداخلت کی جائے۔

ریاست کی یہ ذمہ داری تھی کہ محکمہ صحت دہری اور الگ شناخت کے حامل افراد کے بارے میں اگہی دیتا اور عوام میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جاتا مگر ریاست باقی کئی امور کی طرح ہم جنسیت پر بھی خاموش ہے۔ آگہی کے فقدان کے سبب عوام میں کئی عناصر خود فیصلہ کرنے پر اتر آتے ہیں۔ جس کے باعث بے شمار انسان موت کے گھاٹ اتار ے گئے ہیں۔

ہم جنسیت سمیت مختلف شناختوں کے حامل افراد سے نفرت، انہیں انسان نہ سمجھنا۔ انہیں انسانی حقوق نہ دینا۔ انہیں قتل کرنا۔ اللہ کی کارسازی میں مداخلت ہے۔ اللہ کے قوانین سے بغاوت ہے۔ کیوں کہ سب کو اللہ ہی نہیں پیدا کیا ہے۔ اللہ کی ہی مخلوق ہیں۔ اللہ کی مرضی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments