خاموش بد دعا


آج دفتر پہنچنے میں دیر کیوں ہوئی۔
فراز کو دفتر میں داخل ہوتے ہی میں نے پہلا سوال کیا۔
اس کے چہرے کے تاثرات ہی کچھ ایسے تھے۔
ہاں یار راستے میں بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ اس نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
میں نے بھی سوچا ابھی جانے دیتا ہوں دوپہر میں بات کروں گا۔

کھانے کے وقفے پہ اپنا اپنا کھانے کا ڈبہ لئے ہم کیفے پہنچے۔ فراز کو بے دلی سے کھانا کھاتے دیکھ کر مجھے صبح کا سوال یاد آ گیا۔

میں نے سوال دہرایا تو اس پر فراز نے بیزاری سے بتانا شروع کیا۔

صبح جب دفتر کی طرف آ رہا تھا تو ایک دم ایک رکشہ رکا اور ایک اسکول کی طالبہ اس رکشے ولے پہ چیختی رکشے سے اتری۔ اس کے چیخنے پہ بھیڑ جمع ہو گئے۔ پوچھنے پہ پتا چلا کہ رکشے والا اس لڑکی کو شیشے میں گھور رہا تھا۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ ہجوم نے رکشے والے کی کد بنانا شروع کردی۔

مجھے بھی تجسس ہوا تو رکشے والے کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھا۔ وہ تو ایک باریش بوڑھا تھا یہ دیکھ کر مجھے بہت کراہئیت آئی کہ اس کی عمر دیکھو اور حرکت۔ سارا موڈ خراب ہو گیا۔

پھر کیا ہوا جان بچی یا مارا گیا۔ میں نے پوچھا۔
نہیں اسے پولیس پکڑ کر لے گئی۔

فراز کے بتانے پہ مجھے بھی کافی تجسس ہوا کہ اس عمر میں اتنی ٹھرک ذرا معلوم تو کروں۔ ویسے بھی میں ایک یو ٹیوبر تھا تو چٹ پٹا موضوع کیونکر ہاتھ سے جانے دیتا۔

فراز سے مطلوبہ تھانے کا اتا پتا لے کر شام کو تھانے جانے کاپروگرام طے کر لیا۔

دفتر سے چھٹی کے بعد تھانے پہچا۔ تھوڑی سی تک ودو کے بعد صبح کے واقعے میں گرفتار بڑے میاں کی معلومات حاصل ہو گئیں پھر کچھ پولیس والوں کی مٹھی گرم کی تو ملاقات کی جگاڑ بھی لگ گئی۔

لاک اپ تک آنے میں کوئی چار پانچ سو لگ گئے۔ لیکن ملاقات کا انتظام اچھا مل گیا۔

داڑھی اور چہرے کی سادگی دیکھ کر مجھے بھی یقین نہی آیا کہ بھلا یہ شخص اسکول کی بچیوں کو تنگ کرتا ہوگا۔ بہرحال واقعہ تو ہوا تھا اور وہ زخمی حالت میں حوالات میں بند تھا۔

میں نے انہیں اپنے آنے کا مقصد بتایا اور ان سے تفصیلات جاننے کی درخواست کی۔

پہلے تو وہ مجھے پتھرائی آنکھوں سے دیکھتے رہے اور پھر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ کافی دیر تک وہ روتے رہے ان کو روتا دیکھ کر میں نے انہیں چپ کرانا مناسب نہیں سمجھا۔ کچھ دیر جب وہ رو چکے تو ایک لمبی سانس کھنچ کر اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔

کہتے ہیں کسی کی خاموش بددعا آج قبول ہو گئی۔ ماجرا کیا تھا انہیں کی زبانی سنئیے۔

گاؤں کے زمین دار کی اولاد ہونا بھی خوش نصیبی ہے۔ سارے گاؤں پہ رعب تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ سب سے الگ تعلیم اوڑھنا پچھونا مزاج میں نکھار لے آتا ہے۔ کہیں کہیں یہ نکھار رعونت اختیار کرلیتا ہے۔

ایسا ہی کچھ میرے ساتھ تھا پورے گاؤں کے کچے مکانات کے بیچوں بیچ پکے دومنزلہ گھر کی شان ہی نرالی تھی۔ اس پر مزارعے کی خدمت داریاں پورے گاؤں پہ بھرم قائم کردیتی تھیں۔ کم عمری سے ہی خود سری سوار تھی۔ پڑھنے کے لئے شہر کے ہاسٹل میں رہنا پڑا۔ جب چھٹی پہ گاؤں آتا تو دوستوں کے ساتھ شرارتیں اور اٹکھیلیاں ہوتی رہتی۔ جوانی کی اٹھان تھی جوانی کا خمار گاؤں میں کھیتوں کام کرنے والی ہر لڑکی ہماری شرارتوں سے نالاں رہتی۔

انہی دنوں گاؤں میں نئے قاری صاحب تشریف لائے۔ میری گلی کے نکڑ پر مسجد تھی اور رہائش کے لئے انہیں گلی میں مکان مل گیا رہنے کے لئے۔ قاری صاحب کی دوبیٹیاں تھیں۔ ایک دن اسکول جاتے میری نظر ان کی بڑی بیٹی پہ پڑی۔ سر سے پاؤں تک عبایہ اوٹھے چہرے پہ نقاب لگائے لیکن آنکھیں ایسی مقناطیسی کہ میں اپنی نظریں نہ چھپک سکا۔ اب میرا معمول بن گیا اسے آتے جاتے دیکھنے کا۔

ایک دن شام کو اپنی چھت پر پتنگ اڑانے میں مگن تھا کہ نظر سامنے والے گھر کے آنگن میں پڑی۔ وہ دلکش حسینہ دالان میں بنا دوپٹے کے آلگنی پہ کپڑے اتار رہی تھی۔ میں اسے دیکھتا رہا اور میری خوشی کا عالم ایسا تھا کہ کپکپی طاری ہو گئی۔ مجھے تو معلوم ہی نا تھا کہ یہ میرے گھر کے اتنا پاس رہتی ہے۔

اب تو صبح دوپہر شام میرے چھت کے چکر لگتے تھے۔ گاؤں میں ایک میرا ہی گھر پکا اور دومنزلہ تھا باقی مٹی گارے کے گھر تھے۔ جو میرے گھر سے صاف دکھتے تھے۔

آج کئی دنوں بعد مجھے وہ پری وش نظر آئی۔ ہاتھ میں تولیہ اور کپڑے لٹکائے غسل خانے میں داخل ہوئی۔ میرے اندر شرارت ایک دم شیطانی میں بدلی اور میں منڈیر سے اسے نہاتے دیکھنے کے لئے چپک کر کھڑا ہو گیا۔ عورت کی چھٹی حس کہ لیں کہ برہنہ کھڑی اس کی نگاہیں ایک دم چھت پہ میری جانب اٹھیں میں سٹپٹایا لیکن نگاہ ہٹا نہیں پایا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سا کرب نظر آیا اور موٹے موٹے آنسو امڈ آئے جیسے ابھی ابھی وہیں زمین میں گڑ جائے گی۔

اس کی نگاہ ایک آرے کی طرح مجھے کاٹتی ہوئی گزرگئی میرے اندر کا شیطان وہیں جامد ہو گیا اور مجھ پہ خوف طاری ہو گیا۔ ایسے لگا جیسے اس نے مجھے بدعا دی ہوکہ اے بد بخت میں کبھی کسی غیر مرد کے سامنے نہیں آئی تھی اورتو نے مجھے میری ہی نظر میں ننگا کر دیا۔ اس احساس شرمندگی سے میں اتنا نادم ہوا کہ مجھے بخار چڑھ گیا۔

تین دن بعد جب بخار اترا تو اس سے معافی مانگے کا ارادہ کیا اور گلی میں اس کے گھر کی جانب بڑھا کہ گھر کے دروازے پہ ایک بڑا سا تالہ مجھے منہ چڑا رہا تھا۔

اس دن سے لے کر آج تک وہ خاموش بددعا میرا پیچھا کر رہی تھی اور بہت اچھا ہوا مجھے آج وہ بددعا لگ گئی جبکہ آج میں نے اس بچی کو قطعی میلی نظر سے نہیں دیکھا تھا اسے کوئی غلط فہمی ہوئی لیکن میں نے اسے نہیں جھٹلایا اور ہجوم سے مار کھاتا رہا۔ تاکہ میں اس خاموش بددعا کی چبھن سے آزاد ہو جاؤں۔

اب میں پرسکون ہوں۔ اس کی بددعا آج پوری ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments