چین جلاوطن اویغور والدین کے بچوں کو سرکاری یتیم خانوں میں بھیج رہا ہے: ایمنسٹی انٹرنیشنل


اویغور، سنکیانگ

اویغور خاتون سنکیانگ میں بچوں کے ساتھ

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ چین اویغور خاندانوں کو زبردستی الگ کر کے ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سرکاری یتیم خانوں میں بھیج رہا ہے۔

ایک نئی رپورٹ میں ایمنسٹی نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ یتیم خانوں میں قید تمام اویغور بچوں کو رہا کیا جائے جنھیں ان کے اہل خانہ کی رضامندی کے بغیر قید کر کے رکھا گیا ہے۔

ادارے نے ان والدین سے بات کی جنھوں نے اس وقت اپنے بچوں کو چین میں رشتے داروں کے ساتھ چھوڑ دیا تھا جب اُنھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا ترکی اویغور مسلمانوں کو چین کے حوالے کرنے جا رہا ہے؟

’چینی حکومت اویغور خواتین کی نس بندی اور نسل کشی جیسے جرائم میں ملوث ہے‘

اویغور کیمپوں میں منظم انداز میں مبینہ ریپ کا انکشاف: ’پتا نہیں وہ انسان تھے یا جانور‘

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چین نے 10 لاکھ سے زیادہ اویغوروں کو حراست میں لیا ہے۔

چینی حکومت کو اویغور عوام اور دیگر مسلم اقلیتوں کے خلاف جبری مشقت، زبردستی نس بندی، جنسی استحصال اور ریپ سمیت انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

حکومت نے اس بات کی تردید کی ہے کہ شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں حراستی مراکز میں اویغور قید ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ کیمپ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ’از سرِ نو تعلیم‘ دینے کے لیے ہیں۔

چونکہ چین نے سنکیانگ تک رسائی پر سخت پابندی لگا رکھی ہے، لہٰذا ایمنسٹی نے اُن اویغوروں سے بات کی جو سن 2017 میں اویغور عوام پر ہونے والے ظلم و ستم سے قبل سنکیانگ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

ایمنسٹی نے بتایا کہ مہربان قادر اور ابلیقم ممتینین 2016 میں سنکیانگ سے اٹلی فرار ہوگئے تھے جب پولیس اُنھیں پاسپورٹ حوالے کرنے کے لیے ہراساں کر رہی تھی۔ ادارے کے مطابق اُنھوں نے چار بچوں کو دادا دادی کی عارضی دیکھ بھال میں چھوڑ دیا تھا مگر دادی کو حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا جبکہ دادا سے پولیس نے تفتیش کی۔

مہربان نے ایمنسٹی سے کہا: ’ہمارے والدین کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد ہمارے دوسرے رشتے داروں میں ہمارے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اُنھیں خوف تھا کہ اُنھیں بھی کیمپوں میں بھیج دیا جائے گا۔‘

ایمنسٹی نے بتایا کہ نومبر 2019 میں مہربان اور ابلیقم کو اطالوی حکومت نے بچوں کو اپنے پاس بلانے کی اجازت دے دی تھی لیکن چینی پولیس نے بچوں کو راستے میں ہی پکڑ لیا اور اُنھیں سرکاری یتیم خانے بھیج دیا گیا۔

مہربان نے کہا ’اب میرے بچے چینی حکومت کے ہاتھ میں ہیں اور مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اپنی زندگی میں ان سے دوبارہ مل سکوں گا۔‘

ایمنسٹی نے بتایا کہ عمر اور مریم فارو 2016 کے آخر میں فرار ہو کر ترکی چلے گئے تھے۔ اُنھوں نے اپنے دو کمسن بچوں کو پانچ اور چھ سال کی عمر میں دادا دادی کے ساتھ چھوڑ دیا کیونکہ ان کے پاس ابھی تک ان کی اپنی سفری دستاویزات نہیں تھیں۔ انھیں بعد میں پتہ چلا کہ دادا دادی کو گرفتار کرکے ایک کیمپ میں بھیج دیا گیا ہے اور اس کے بعد سے اُنھیں اپنے بچوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔

ایمنسٹی کی رپورٹ میں چین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین، آزاد محققین اور صحافیوں کو سنکیانگ صوبے میں ان کیمپوں تک مکمل رسائی فراہم کرے اور ان تمام بچوں کو رہا کرے جنھیں ان کے والدین کی مرضی کے خلاف قید کر کے رکھا گیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے چینی محقق ایلکان اکاد نے کہا ’سنکیانگ میں چین کی بے رحمانہ اجتماعی نظربندی مہم نے خاندانوں کو ایک ناممکن صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ بچوں کو وہاں سے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر ان کے والدین ان کی دیکھ بھال کے لیے گھر واپس جانے کی کوشش کرتے ہیں تو اُنھیں ظلم و ستم اور نظربندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

چینی ریاست نے سنکیانگ میں کیمپوں کا وسیع اور خفیہ نیٹ ورک تشکیل دیا ہے اور اندازوں کے مطابق 10 لاکھ سے زیادہ اویغور اور دیگر مسلم اقلیتی گروپوں کے لوگوں کو حراست میں رکھا گیا ہے۔

حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کی اندوہناک پامالیوں کی خبریں سامنے آئی ہیں جن میں اویغور خواتین کی زبردستی نس بندی سے لے کر کیمپوں کے اندر منظم ریپ تک کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

چین نے اس سے انکار کیا ہے کہ وہاں انسانی حقوق کی کسی بھی طرح کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور اس نے ماضی میں کیمپوں میں نظربند رہنے والے (اب جلاوطن) افراد کو کو جھوٹا اور ڈرامے باز کہا ہے۔

چین پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ بولنے والے گواہوں کو دھمکیاں دینے اور بہکانے اور سنکیانگ میں گواہوں کے لواحقین کو ان کے خلاف فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

امریکہ، کینیڈا اور نیدرلینڈ نے اعلان کیا ہے کہ چین اویغور عوام کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اسی طرح کا بل برطانیہ کی پارلیمنٹ نے مسترد کر دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp