یوم پاکستان: چالیس سے سینتالیس تک


قوموں کی زندگی میں موڑ آتے ہی ہیں، زندہ قومیں اپنے عزم اور وقار کے ساتھ ان سے نبرد آزما ہوتی ہیں، ایسا ہی ایک موڑ برصغیر کے مسلمانوں کی قومی زندگی میں مارچ 1940 میں آیا، قیادت اور قوم کو ایک فیصلہ کرنا تھا کہ انہوں نے آگے کیا کرنا ہے، انگریز حکمرانوں کی حالت دوسری جنگ عظیم کے بعد خاصی نازک تھی اور کانگریس موقع کی تلاش میں تھی کہ انگریز برصغیر سے جائیں اور وہ اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر خطے کے حکمران بن جائیں، یہ ناممکن نہیں تھا، کم از کم آج کے ہندوستان کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس وقت ان حالات میں مسلمانوں کے تحفظات کو صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت تھی۔ کانگریسی لیڈر مسلمانوں کے بجائے اکثریتی ہندوؤں کے وکیل بنے ہوئے تھے، تو برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا تھا جو ایک جانب کانگریس کی چالوں پر نظر رکھ سکے اور دوسری جانب انگریزوں کی رگ رگ سے واقف ہو۔

قوم کی نگاہ انتخاب میں وہ شخص کوئی اور کیسے ہو سکتا تھا سوائے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے۔ ذہانت، عزم و ہمت، شجاعت، دیانت اور راست گوئی میں کوئی محمد علی جناح کا ہم سر نہیں تھا، بدترین سیاسی مخالف بھی مانتے تھے کہ جناح جھوٹ نہیں بولتے۔ یہ مسلم لیگ کی قیادت کا ہی نہیں برصغیر کے تمام مسلمانوں کی ترجمانی کے سوال کا جواب تھا، جس کا کوئی اور توڑ نہیں تھا۔

بات حال کی نہیں تھی بات تو مستقبل کی تھی، کیسے رہنا ہے، کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے، کا سوال تھا، مسلمانان ہند کی ترجمانی کا تقاضا تھا کہ کسی ایک جگہ پر عوامی فیصلے لیے جائیں اور عوام کے سامنے لئے جائیں، آج بھی کہا جاتا ہے لاہور جاگتا ہے تو تحریکیں اٹھتی ہیں، یہ معاملہ صرف آج کا نہیں 1940 کا بھی تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس لاہور کے منٹو پارک میں ہوا، منٹو پارک میں خلقت امڈ آئی تھی، تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، اسٹیج عین اسی جگہ لگایا گیا تھا جہاں آج اس دن کی یادگار مینار پاکستان واقع ہے۔

ایک جانب مسلم لیگی زعما اہم فیصلے لے رہے تھے، وہیں موجود عوام سے ان فیصلوں پر منظوری لی جا رہی تھی، عجب دن تھا، عجب ولولہ تھا، قوم اپنے محبوب قائدین کو روبرو دیکھ رہی تھی، ان کی تقاریر بھی سن رہی تھی اور فیصلے بھی سنا رہی تھی، وہ ایک زندہ جلسہ تھا، شاید لاہور جاگ چکا تھا، اب وقت دوسروں کو جگانے کا تھا۔ سہ پہر 3 بجے شیر بنگال اے کے فضل حق نے قرارداد لاہور پیش کی، انہوں نے کہا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو کوئی آئینی منصوبہ جب تک قبول نہیں ہو گا جب تک ایک دوسرے سے جڑی اکائیوں کی جداگانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔

قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں ایک آزاد مملکت قائم کی جائے، جس میں شامل اکائیوں کو خودمختاری اور حاکمیت حاصل ہو، چوہدری خلیق الزمان، مولانا ظفر علی خان سردار اورنگزیب خان اور عبداللہ ہارون نے قرارداد کی تائید میں مختصر تقاریر کیں اور اجلاس کی کارروائی اگلے روز کے لیے ملتوی ہو گئی۔

چوبیس مارچ کو دن گیارہ بجے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔ یوپی کے نواب محمد اسمعٰیل خان، بلوچستان سے قاضی محمد عیسیٰ اور مدراس یعنی موجودہ چنائی سے عبد الحمید خان نے قرارداد پاکستان کے حق میں تقریریں کیں، اسی دوران قائداعظم نے اجلاس میں ارض فلسطین کے حوالے سے قرارداد پیش کرنے کی ہدایات دیں۔

عبد الحمید بدایونی اور سید رضا علی نے اس قرارداد کی حمایت میں تقاریر کیں، قرارداد کو فوری طور پر منظور کر لیا گیا، اس کے بعد آئین کی تبدیلی کے حوالے سے قراردادیں پیش کی گئیں اور ان کی فوری منظوری بھی لے لی گئی، اگلے سال کے لیے مسلم لیگ کے عہدیداران کا انتخاب عمل میں لایا گیا، اس کے بعد قائداعظم نے اپنا مختصر خطاب کیا۔

1941 مدراس میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد پاکستان کو جماعت کے دستور کا حصہ بنا لیا گیا، اسی بنیاد پر تحریک پاکستان کا آغاز ہوا۔

قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد قائداعظم ؒ نے جواہر لعل نہرو اور گاندھی کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور کیے، لیکن کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ میں کسی سمجھوتے پر اتفاق نہ ہو سکا۔

یہ عالمی سطح تبدیلیوں کا زمانہ تھا، یورپ اور شمالی افریقہ کا اکثر حصہ دوسری عالمگیر جنگ کی لپیٹ میں تھا، جاپان جو جرمنی اور اٹلی کا حلیف تھا۔ اس جنگ میں ایشیائی ممالک پر اپنے دعوے کے ساتھ کود پڑا تھا، جاپان نے ملایا، کوریا، فلپائن اور دیگر مشرق بعید کے ممالک پر قبضہ کر لیا جاپان یہیں نہیں رکا، بہت جلد برما بھی جاپان کے قبضے میں چلا گیا، برما پر قبضہ کرنے کے بعد ہندوستان کی سرحد کو خطرات لاحق ہو گئے تھے، اب یہ صاف طور پر نظر آ رہا تھا کہ جاپانی حملہ آور عنقریب ہندوستان میں داخل ہو جائیں گے۔

مارچ 1942 میں حکومت برطانیہ نے لارڈ کرپس کو ہندوستان بھیجا تاکہ وہ ہندوستان میں موجود قیادت کے ساتھ صورتحال پر مذاکرات کریں، مارچ 1942 میں کرپس کمیشن اور قائداعظم سمیت دیگر رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کے طویل دور ہوئے۔ کانگریس کرپس تجاویز پر ناراض تھی، لارڈ لن لنتھ گو کے طرزعمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا، سرحدی صورتحال کے باوجود ’ہندوستان چھوڑ دو انگریزو‘ کا نعرہ لگا دیا، تاریخ میں یہ واقعہ Quit India Movement کے نام سے جانا جاتا ہے، گاندھی نے خود اس تحریک کو علانیہ بغاوت سے تعبیر کیا، انگریزوں نے کانگریسی لیڈرز کو گرفتار کر کے نظر بند کرنا شروع کر دیا، جس پر جگہ جگہ فسادات پھوٹ پڑے، ریل کی پٹریاں اکھاڑی گئیں۔

1944 میں گاندھی جی جیل سے رہا ہوئے، اسی سال ستمبر کے مہینے میں انھوں نے قائداعظم کو سیاسی معاملات پر بات چیت کے لیے مدعو کیا، بمبئی میں دونوں لیڈروں کی ملاقات ہوئی، اسی ملاقات میں گاندھی جی نے یہ تسلیم کر لیا کہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور انہیں اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن وہ یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ کسی علاقے کو ہندوستان سے الگ کیا جائے۔ گاندھی جی کچھ اور دینے کے لیے تیار تھے لیکن وہ مسلمانوں اور مسلم لیگ کچھ اور ہی سوچ رہے تھے اور ان کے مطالبات کچھ اور تھے۔ قائداعظم ؒ کی گاندھی جی کے ساتھ یہ ملاقات بے نتیجہ ثابت ہوئی۔

5 ستمبر 1945 کو کانگریس نے ایک قرارداد منظور کی جو اکھنڈ بھارت کی قرارداد کہلاتی ہے، جس کا بنیادی نکتہ ہی یہ تھا کہ ہندوستان کا کوئی حصہ انڈین یونین سے علیحدہ نہیں ہو سکے گا۔ 1946 کے عام انتخابات کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ قائداعظم ؒ کی مدبرانہ قیادت میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو اپنے مخصوص طرز زندگی بسر کرنے کا موقع دیا جائے۔

مارچ 1947 میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو وائس رائے ہند بنا کر ہندوستان بھیجا گیا۔ تین جون 1947 کو تاج برطانیہ نے ہندوستان کے حوالے سے اعلان کیا وہ ہندوستان کو آزاد کر دیں گے، کانگریس کی لاکھ جتن، ہزاروں چالوں کے باوجود دو قومی نظریہ کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی آزادی کا پروانہ بھی جاری کر دیا گیا۔

اٹھارہ جولائی کو برطانوی پارلیمنٹ نے قانون آزادی ہند منظور کیا، جس کا مفہوم یہ تھا کہ 15 اگست 1947 سے ہندوستان میں دو آزاد مملکتیں قائم کی جا رہی ہیں، جو ہندوستان اور پاکستان کہلائیں گی، دونوں مملکتوں میں تاج برطانیہ کی منظوری سے گورنر جنرل مقرر کیے جائیں گے، جو اپنی اپنی مملکت کی حکومت کا ذمہ دار ہوں گے۔

7 اگست کے دن قائداعظم محمد علی جناحؒ، گورنر جنرل لارڈ ما ؤنٹ بیٹن کے خصوصی ڈکوٹا طیارے میں بیٹھ کر دہلی کے پالم ائر پورٹ سے کراچی کے ہوائی اڈے ماری پور پہنچے، جہاں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر قائداعظم زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا امڈ آیا۔

گیارہ اگست 1947 کو قائد اعظم ؒ نے کراچی میں دستور اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی، اسی اجلاس میں اتفاق رائے سے دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب کر لیا گیا، اس موقع پر قائد نے خطاب فرمایا جس میں دستور ساز اسمبلی کے مقاصد کا تعین کیا گیا، قائد ؒ نے کہا ایک تو دستور ساز اسمبلی نے دستور مرتب کرنا ہے دوسرا اسمبلی پاکستان کی وفاقی مقننہ کی حیثیت سے ایک مکمل خودمختار ادارہ ہو گی۔ مذہبی رواداری کے حوالے سے آپ نے تقریر میں کہا آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے، مندروں میں جانے کے لیے، غرض کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا عقیدے سے ہو ریاست کا اس سے کوئی سروکار نہیں، مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے، ریا ست کے لیے ہر مذہب کے لوگ برابر کے شہری ہوں گے۔

بنی نوع انسان ان دنوں تاریخ کے سب سے بڑی ہجرت کے لمحات سے گزر رہی تھی، تیرہ اگست کی شام وائسرائے ہند سر لارڈ ماؤنٹ بیٹن اپنی اہلیہ کے ہمراہ کراچی پہنچے، رات 11 بج کر 55 منٹ پر لاہور میں واقع سرکاری ریڈیو اسٹیشن سے اہم اعلان کچھ اس طرح نشر ہوا ”یہ آل انڈیا ریڈیو لاہور ہے، آپ ہمارے اگلے اعلان کا انتظار کیجیے۔ یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے، آپ کو پاکستان مبارک ہو“ یہ جملے جو اس نو تعمیر شدہ ریاست کے باشندوں نے سنے، اب ایک آزاد قوم کی حیثیت سے سفر کا آغاز کر چکے تھے۔

اگلے دن 14 اگست کی صبح دستور ساز اسمبلی میں اہم اجلاس ہوا جس میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے خطاب کیا جب کہ اسی اجلاس میں مہمان خصوصی لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھی خطاب کیا۔ یوں یہ سفر جس کا آغاز 23 مارچ 1940 کے دن لاہور کے منٹو پارک میں قرارداد پاکستان سے ہوا تھا، 14 اگست 1947 میں آزادی ملنے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments