محبت جائز ہے مگر معاشرتی اخلاقیات کا لحاظ رکھیے


پچھلے دنوں لاہور یونیورسٹی میں ایک انوکھا منظر دیکھا گیا کہ جب ایک لڑکی نے درجنوں اسٹوڈنٹس کے سامنے لڑکے سے محبت کا اظہار کیا اور پھر جب محبت قبول کی گئی تو دونوں بغل گیر ہو گئے اور کافی دیر تک ایک دوسرے سے لپٹے رہے۔

اس منظر کو درجنوں موبائل کیمروں نے قید کر لیا اور پھر سوشل میڈیا پر یہ منظر لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔ اس ویڈیو کو لے کر اکثر پاکستانی عوام نے ناگواری کا اظہار کیا اور اس حرکت کو غلط حرکت کہا اور لکھا۔ اسی طرح اس کھلے عام اظہار محبت کو کچھ لوگوں نے بہت خوبصورت جانا اور لڑکی لڑکے کے اس فعل کی کھل کر سپورٹ کی۔ اس معاملے پر جب شور اٹھا تو یونیورسٹی نے دونوں بچوں کو یونیورسٹی سے نکال دیا۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ اسلامی معاشرہ ہے اور اس معاشرے کی کچھ حدود و قیود ہے جن پر کاربند رہنا ضروری ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ جامعات میں مختلف قسم کے غلط کام ہوتے ہیں جن میں چرس و شیشہ نوشی اور مختلف قسم کی غیر اخلاقی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں مگر اس پر روک ٹوک نہیں ہوتی تو محبت کے اظہار پر کیوں قدغن ہے؟ ان سے بس اتنا ہی عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر کوئی طالب علم چرس پیتا یا نشہ کرتا پایا جائے تو اسے یونیورسٹی نکال دیتی ہے یعنی وہ غلط کام کہلایا جاتا ہے۔ یعنی کرنے والا جانتا ہے کہ یہ کام غیر قانونی ہے جو ہمارے لئے مشکل پیدا کر سکتا ہے، اس لئے اسے چھپ کر کیا جاتا ہے۔

ہماری سوسائٹی کی کچھ روایات ہیں، معاشرے میں خواتین کی عزت کی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت نہیں تھی لیکن آہستہ آہستہ لڑکیاں علمی میدان میں آنے لگی اور پھر مخلوط تعلیمی نظام میں بھی تعلیم حاصل کرنے لگی۔ ان میں سے بہت سی لڑکیاں اپنے خاندان سے بہت مشکل سے اجازت پا کر علم حاصل کرنے کے لئے جامعات کی طرف آئیں لیکن ابھی تک ان کا گھرانا قدامت پسندی کے اصولوں پر گامزن ہے۔ اب ان گھرانوں میں یہ ویڈیو دیکھی جائے گی تو ان ہزاروں لڑکیوں کے لئے مشکل پیدا ہو سکتی ہے جن کو بہت مشکل سے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ملی تھی۔

آزاد خیال گھرانے اور تعلیم یافتہ گھرانوں کی خواتین کو اپنے گھرانے کی جانب سے سپورٹ حاصل ہے لیکن ان کی تعداد انتہائی قلیل ہے مگر قدامت پسند فکر کے حامل خاندانوں کی تعداد اکثریت میں ہے اور اس فکر سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

میں محبت کے خلاف ہوں اور نہ اس کے اظہار کے مگر ہر چیز کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے جو تربیت یا معاشرے کی روایت سے ہم آہنگ ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں ہزاروں جوڑے محبت کی کیفیت میں پروان چڑھتے ہیں اور انہی مقامات سے اس طرح کے جوڑے بھی وجود میں آتے ہیں۔ لیکن اسکول ہو یا یونیورسٹی اس کا اپنا ایک قانون ہوتا ہے جس پر چلنا ضروری ہے کیونکہ ہر ادارے کا قانون وہاں کے معاشرے کی مناسبت سے طے پاتا ہے اور اس پر چلنا ہر شہری کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر اس طرح اظہار محبت کی فکر عام ہو گئی تو روزانہ درجنوں واقعات دیکھنے میں آئیں گے جو بہرحال مناسب نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کی اخلاقی روایت کے تحت دیکھا جائے تو یہ عمل انتہائی غیر شائستہ ہے جس کی بہرحال مذمت بنتی ہے۔

ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس محبت کے اظہار پر تو انگلیاں اٹھا رہے ہیں اور آوازیں بلند کر رہے ہیں مگر ہم میں سے ہی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو جامعات میں ہونے والی انتہاپسندی پر آواز نہیں اٹھاتے۔ جہاں مشال خان کے قتل جیسے واقعات پر اکثریت خاموش نظر آتی ہے۔ یہی نہیں جامعات میں ہونے والی ثقافتی سرگرمیوں پر جب طلبا تنظیم غنڈہ گردی کرتی ہے تو اس پر بھی بہت سے لوگ خاموش رہتے ہیں۔ اگر یہ اظہار غلط ہے تو پھر انتہا پسند رویہ اور فکر بھی غلط اور بدترین ہے۔ معاشرتی روایات کے مطابق چیزیں دیکھیں تو بہت سی چیزیں غلط ہے مگر اکثر لوگوں کی منافق نظریں صرف اپنی مرضی کے مناظر دیکھتی اور ان کے خلاف احتجاج کرتی ہیں مگر دوسری قسم کی انتہا پسندی پر ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments