دیار غیر میں پاکستانی خواتین کی زندگی


لکھنا میرے لئے ایک لگژری ہوا کرتا تھا اور چند سال پہلے میں باقاعدہ کالم لکھا کرتی تھی اور بہت ریسرچ کر کے لکھتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب ذمہ داریاں بڑھتی چلی گئیں تو لکھنے والی لگژری انجوائے کرنے کا ٹائم ختم ہونے لگا۔ افسانے، کالم، کہانیاں سب آہستہ آہستہ پیچھے ہوتے گئے۔ ہفتے میں ایک دن تک نہیں بچتا یا ایک دن کے چند گھنٹے بھی۔

پاکستانی لڑکیوں کو جب کسی بھی بیرون ملک مقیم لڑکے کا رشتہ آتا ہے تو ہر طرف رشک، حسد، فخر اور اس سے ملتے جلتے تاثرات کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ چاہے لڑکی خود کتنی ہی پڑھی لکھی کیوں نہ ہو، اسے بھی یہی لگتا ہے جیسا کہ فلموں میں دکھایا جاتا ہے باہر کی زندگی پاکستان کی زندگی کی نسبت آسان ہو گی۔ کم از کم یہاں پہ ہر موقع پہ ہونے والی ذلالت سے سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پھر حقوق کی پاسداری ہو گی اور ہر چیز میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوں گی۔ دوست، رشتے داروں کو لگتا ہے بس پیسہ ہی پیسہ ہو گا، تالی بجا کے ہر کام ہو جایا کرے گا۔ اور بیچاری لڑکیاں آنکھوں میں برف زاروں کے خواب سجائے خود کو کسی رومانوی فلم کا حسین ترین کردار سمجھتی ہوئی، برف جیسے بندھن نبھانے پہنچ جاتی ہیں۔

یہاں کی ٹھنڈ سانسوں کے ساتھ جسم میں اترتی ہے تو دل میں اپنوں کی کمی کا جان لیوا خلاء پیدا ہونے لگتا ہے۔ دکھ سکھ کہنے کے لئے اجنبی دیس کے اجنبی لوگ ملتے ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، سکھیاں اور ساری رونقیں تیاگ کے آنے والیوں کا پالا بھانت بھانت کی عورتوں سے پڑنے لگتا ہے جو کبھی کم پڑھی لکھی، تو کبھی عجیب و غریب عادات کی مالک نفسیاتی مسائل سے گھری ہوتی ہیں نتیجہ بلاوجہ کی بدمزگیاں، کبھی کبھی تو اچھی خاصی ناچاقیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

ان کی پوری دنیا ایک شوہر کے گرد گھومتی ہے جس کے لئے سب چھوڑ چھاڑ یہاں بھیجا جاتا ہے۔ شوہروں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان بیچاریوں کا یہاں کوئی نہیں ہے، سو ان کے بھی جو دل میں آتا ہے وہ کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ بیچاری صبح سے آدھی رات تک سگھڑاپے کے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ کہیں جاب، بزنس یا اس قسم کی دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کے پاس ہیلپ نام کی کوئی چیز نہیں، نہ کام والی، نہ میڈ، نہ کوئی گھریلو مدد۔ بس اپنی مدد آپ اور اس کے بعد اللہ کی مدد۔

نہ صرف گھر کے تمام کام، بلکہ باہر کے بھی کام، بچے بھی اکیلے پیدا کر لیے جاتے ہیں، نہ پریگنینسی میں کوئی پوچھنے والا ہوتا ہے نہ بچے کی پیدائش کے وقت سوائے چند اچھی ہمسائیوں اور دوستوں کے۔ سو آرام کرنے کے ان دنوں میں بھی دن رات اکیلے گھر، اپنا آپ اور نئے بچے کے ساتھ ساتھ پہلے والے بچوں کو سنبھالتے سنبھالتے یہ وقت سے پہلے بوڑھی ہونے لگتی ہیں۔ نہ کوئی خوشی میں ساتھ، نہ غم میں شریک۔ عورت کی زندگی کا سب سے مشکل دور بھی یہ اکیلے گزار لیتی ہیں۔

اور سب سے زیادہ مزہ تو اس وقت آتا ہے جب پاکستان میں لوگ پوچھتے ہیں تم سارا دن کرتی کیا ہو ادھر؟ ڈوب کے مر جانے کو جی چاہتا ہے۔ ویسے یہ ڈوب کے مرچ جانے کا مشورہ میں اکثر باتوں پہ اپنی دوستوں کو دیتی ہوں جہاں کہیں بھی دکھ سے مرنے کا مقام ہو۔

سسرال، رشتہ داروں، دوستوں میں رشک کی نگاہ سے دیکھی جانے والی یہ بیگمات سوئی کی گھڑیوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ان کی زندگی میں صرف ایک ہی لگژری ہے وہ ہے تنہائی۔ جو اس سے سمجھوتا یا دوستی کر لے اس کے لئے دیار غیر جائے سکون ہے اور جو نہ کر پائے وہ نہ یہاں کی رہتی ہیں نہ وہاں کی۔

یہاں کی زندگی میں صرف کام ہے۔ سوتے ہوئے بھی ڈھیر سارے کاموں کی فہرست ترتیب دینا ہوتی ہے جو اگلے دن کرنے ہوتے ہیں۔ یہاں کی زندگی بہت سخت ہے۔ بہت مسائل ہیں اور یہ سب اکیلی رہ کے زندگی کے جور و ستم سہنے والی یہ خود کو بھلائی ہوئی مخلوق قابل تحسین ہیں اور سراسر محبت کیے جانے کے قابل ہیں۔ ان سب کی ہمت قابل فخر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments