یوم جمہوریہ سے جمہوریت تک


23 مارچ کے دن فضاؤں میں جہاز اڑتے ہیں تو آسمان میراج، ایف سولہ، ایف سیونٹین تھنڈر جہازوں کی گھن گرج سے گونج اٹھتا ہے۔ ہیلی کاپٹر سلامی دیتے ہیں اور زمین پر انواع اقسام کے ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کے دستے سلامی کے چبوترے کے آگے سے گزرتے ہوئے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سلام کرتے ہیں۔ آخر میں ملک کے ہر صوبے سے آئے طائفے بھی رقصاں اپنی ثقافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔

سارا دن سرکاری ٹیلی ویژن پر ان جہازوں، ٹینکوں، گاڑیوں کے بارے میں تفصیلات بتائی جاتی ہیں۔ کئی سالوں سے بار بار دہرانے سے اب تو دیکھنے والے سب کو نشریات کا پورا متن بھی زبانی یاد ہو چکا ہے۔ اگر جہازوں اور دیگر سامان حرب کی تفصیلات بتانے سے تھوڑا فرصت ملے تو اس دن کے منانے کی وجہ 23 مارچ 1940 کو منٹو پارک لاہور میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں پاس کی گی گئی قرار داد بتائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی اتنی بار بتائی گئی ہے کہ اب لوگوں خاص طور پر نئی نسل کے ذہنوں میں اس اس قدر نقش ہو چکی ہے کہ امتحان میں بھی اس سوال کا یہی جواب دیا جاتا ہے جو سرکاری طور بھی درست بھی مانا جاتا ہے۔

یہ درست ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس 22 سے 24 مارچ 1940 کو منعقد ہوا تھا جس میں مسلم اکثریت والی شمال مشرقی و مغربی ریاستوں کو خود مختاری دینے کی قرارداد پیش کی گئی تھی جو اجلاس کے آخری روز بحث و تمحیص کے بعد منظور ہوئی۔ مگر پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں 1956 تک اس دن کو منانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

دراصل پاکستان کے وجود میں آنے کے نو سال بعد 23 مارچ 1956 کو پہلا پارلیمانی دستور نافذ ہوا تھا جس میں ملک کو ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کہا گیا تھا۔ دستور پر اتفاق اور اس کے نافذ ہونے پر 23 مارچ کے دن کو ”یوم جمہوریہ“ کے طور پر منایا گیا۔

7 اکتوبر 1958 کو صدر سکندر مرزا نے ملک کے پہلے دستور کو معطل کر دیا اور 27 اکتوبر کو اپنے ہی کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کے ہاتھوں خود بھی معزول ہو گئے تو 23 مارچ 1959 کے دن کو یوم جمہوریہ کے طور پر منانے کا کوئی اخلاقی، قانونی اور دستوری جواز نہیں رہا۔ چونکہ دستور کے 23 مارچ 1956 کو نافذ ہونے کے بعد 1957 اور 1958 تک اس روز کو بطور یوم جمہوریہ منانے کی روایت پڑ چکی تھی، اب اس سے انحراف بھی ممکن نہیں تھا۔

دربار کبھی شاہی حکما، اطبا اور سنیاسیوں سے خالی نہیں رہتا جن کی زنبیل میں ظل سبحانی کی ضعیف العمری میں جسمانی پھرتی کے شاہی کشتہ و معجون کے علاوہ عالمی مسائل اور ستاروں پر کمند ڈالنے کا نسخۂ کیمیا ہمہ وقت موجود ہوتا ہے مگر اب کی بار تو قاضی القضاۃ کی جانب سے نظریۂ ضرورت کی سند جاری ہوئی۔ ملک کے پہلے دستور کے نفاذ کے دن کو ’یوم جمہوریہ‘ کے بجائے 23 مارچ کو 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں پیش کی گئی قرارداد کی یاد میں ”یوم پاکستان“ کے طور پر منانے کا نایاب نسخہ بھی ایسے ہی کسی چارہ گر نے تجویز کیا اور داد پائی۔

ایوب خان نے 1960 میں منٹو پارک کی اس جگہ پر جہاں 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا تھا ایک یادگار بنانے کا ارادہ کیا اور مینار پاکستان کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ 1968 تک اس یادگار کی تعمیر مکمل ہوئی مگر ملک بے آئین رہا اور قوم سالانہ 23 مارچ کو یوم جمہوریہ مناتی رہی۔

ایوب خان نے 1962 اپنا آئین دیا اور ملک میں پارلیمانی نظام کے بجائے ایک وفاقی صدارتی نظام نافذ کیا اور جنرل خود ہی صدر بن گیا۔ بدست خود فیلڈ مارشل کے فیتے اپنے سینے پر سجائے جنرل ایوب خان نے 1969 میں بقلم خود اپنے دیے آئین کو بھی ختم کر کے ملک میں پھر مارشل لا نافذ کیا اور جنرل یحییٰ کو تخت نشین کر دیا۔ ملک پھر بے آئین ہوا مگر سالانہ یوم جمہوریہ کی تقریب اسی دبدبے سے منائی جاتی رہی۔

ایوب خان کے آئین اور صدارتی نظام میں تمام صوبوں کی حیثیت ختم کر کے پورے مغربی پاکستان کو ایک یونٹ اور مشرقی پاکستان کو دوسرا یونٹ قرار دیا گیا تھا۔ اس نئے نظام کے نفاذ سے جہاں مشرقی پاکستان میں مغربی حصے کے خلاف نفرتیں پیدا ہوئیں وہیں مغربی پاکستان کے اندر چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی میں بھی اضافہ ہو گیا۔ مغربی پاکستان میں ون یونٹ کا خاتمہ ایک مقبول مطالبہ کے طور سامنے آیا اور مشرقی پاکستان میں اقتدار، اختیار اور وسائل میں برابر کی شراکت داری کے نعرے بتدریج بڑھتے بڑھتے 1971 کے واقعات بنگلہ دیش کی علیحدگی پر منتج ہوئے۔ مگر قوم یوم جمہوریہ کو شایان شان طریقے سے مناتی رہی۔

بے آئین ملک کے مغربی حصے کے الگ ہونے کے بعد 1970 کے عام انتخابات میں منتخب ہونے والی اسمبلی نے بطور مقننہ دو سال کے عرصے میں ایک اور وفاقی پارلیمانی دستور بنایا جس کا 14 اگست 1973 کو نفاذ ہوا۔ متفقہ طور پر اسمبلی سے منظور ہونے والا یہ آئین بھی صرف چار سال کے بعد ایک بار پھر ردی کا کاغذ قرار دیا گیا مگر قوم ہر سال آئین کے نفاذ کا دن بطور یوم پاکستان مناتی رہی۔

1977 سے 1985 تک ملک بے آئین رہا مگر قوم سالانہ 23 مارچ کو یوم جمہوریہ مناتی رہی۔ پاکستان نے روس کے خلاف امریکی سرپرستی میں مغربی ممالک کے اتحاد میں بحیثیت غیر رکن شمولیت اختیار کی تھی جس کی وجہ سے فوجی امداد اور سامان حرب میں بے تحاشا اضافہ ہوا جس کی نمائش یوم جمہوریہ کے موقع پر کر کے داد وصول کی جاتی رہی۔

دربار کے حکما اور اطبا سے کہا گیا کہ ایسا نسخہ درکار ہے جس سے شاہ کے سر پر سوار آئین کا سانپ بھی نہ مرے اور آمر کی رعایا کو ہانکنے والی لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ تجویز دی گئی کہ غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات منعقد کروا کر ارکان اسمبلی کو گھوڑوں کی طرح خرید کر لوٹوں کی طرح استعمال کیا جائے۔ ان لوٹوں سے آئین کا حلیہ بگاڑ کر ایسا کر دیا جائے کہ جو دیکھنے میں تو وفاقی، پارلیمانی اور جمہوری لگے مگر عملاً نظام صدارتی ہو جس میں پارلیمان صدر کی مطیع اور فرمان بردار ہو۔ صدر کی حکم عدولی کی سزا حکومت کی برطرفی اور اسمبلی کی برخواستگی ہو۔ آئین میں آٹھویں بار ایک آمر کی خواہشات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ترمیم کی گئی اور عملاً صدارتی نظام نافذ ہوا۔

آمر تو گیارہ سال بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا مگر اس کے بعد جو بھی صدارتی کرسی پر بیٹھا، اس نے آئین میں موجود آمرانہ تلوار کا استعمال ہر اس اسمبلی پر کیا جس نے اس کو تخت نشین کر دیا تھا۔ 1997 میں ایک بار پھر آئین کو آمرانہ مغلظات سے پاک کیا گیا مگر 1999 میں ایک بار پھر اقتدار کو خنجر کی وار سے نہ بچایا جا سکا۔ ایک اور آمر آیا آئین ایک بار پھر رکھیل بن گیا۔ 8 سال تک بندوقوں کے سائے میں ملک بے آئین رہا مگر 23 مارچ کا دن ہر سال بطور یوم پاکستان منایا جاتا رہا۔

2008 کے بعد ایک بار پھر آئین بحال ہوا اور جمہوریت کے راستے پر چل پڑا ہے مگر شخصی حکمرانی کے عادی اور اپنی من مانی کے شوقین سیاست دان اور دیگر ارباب اختیار آئین کو اب بھی ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک دستور صرف سیاست دانوں کی ضرورت ہے، عوام کو اس سے سروکار نہیں۔ ایسے اہل دانش کی زبان سے ایک جملہ عموماً سننے کو ملتا ہے کیا آئین بھوکے کو روٹی نہیں دے سکتا۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ دنیا کا کوئی ضابطہ روٹی نہیں دیتا مگر کسی کے منہ سے نوالہ چھیننے بھی نہیں دیتا۔

موجودہ آئین کو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے نہ صرف آمرانہ مغلظات سے پاک کیا گیا ہے بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کی 1940 کی قرارداد پر بھی عمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ”ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو“ ۔

1947 میں مغربی اور مشرقی علاقوں پر مشتمل آزاد مملکت تو قائم کر دی گئی مگر اسی قرارداد کے دوسرے جملے ’خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ‘ کی ضمانت ملک کا آئین دیتا ہے، جس کے نفاذ کے دن کو ہم بطور یوم جمہوریہ منانے سے کنی کتراتے ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments