قرارداد لاہور: وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحرتو نہیں


آج ہم یوم پاکستان منا رہے ہیں۔ 23 مارچ 1940 کو قرارداد لاہور پیش کی گئی اور ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی منزل کا تعین کیا۔ سب جانتے تھے کہ ہندوستان کی آزادی کے دن قریب آ رہے ہیں۔ مسلمانوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ فیصلے کرنا تھے۔ کانگرس ان کے خدشات دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور مسلم لیگ کی مرکزی کونسل بھی سر جوڑ کر بیٹھی تھی۔

مسلم لیگ کے اجلاس سے کچھ روز قبل رام گڑھ میں کانگرس کا سالانہ اجلاس ہوا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو کانگرس کا صدر منتخب کیا گیا۔ مولانا آزاد نے بہت قابلیت سے اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔ اور یہ تسلی دی کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں کوئی خوف نہیں ہو گا کیونکہ ہندوستان میں نو کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ ان کی ایک اپنی تاریخ ہے وہ کوئی چھوٹی موٹی اقلیت تو نہیں کہ کوئی انہیں دبا لے۔ اتنے بڑے گروہ کو کیا خوف ہو سکتا ہے؟

آج پاکستان سے زیادہ تعداد میں مسلمان ہندوستان میں آباد ہیں۔ آج کے ہندوستان کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ نہ جانے مولانا آزاد کے خیالات کا ہندوستان کہاں کھو گیا؟ ان سے قبل بدر الدین طیب جی، رحمت اللہ محمد سیانی، نواب سید محمد بہادر، سید حسن امام اور مولانا محمد علی جوہر کانگرس کی صدارت کر چکے تھے۔ لیکن مولانا آزاد کے بعد پچھتر برس گزر گئے ایک بھی مسلمان کانگرس کی صدارت کے عہدے پر فائز نہ ہو سکا۔

1940 میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وائسرائے لارڈ لینلتھگو کی وائسرائے کونسل میں وزیر تھے۔ جب مارچ میں وائسرائے نے اس وقت کے سیاسی منظر پر ان کی رائے مانگی تو انہوں نے ایک طویل میمورنڈم لکھ کر بھجوایا۔ جو کہ وائسرائے نے برطانیہ کی مرکزی حکومت کو بھی بھجوایا۔ اس میں انہوں نے یہ رائے دی کہ تاریخی طور پر ہندوستان ایک متحد ملک نہیں رہا تھا۔ اسے انگریزوں نے اپنے انتظامی مقاصد کے لئے ایک ملک بنایا تھا۔ اور پھر اس میں سے برما کو علیحدہ ملک قرار دیا گیا۔

کانگرس کی صوبائی حکومتوں کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے، اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کو تین علیحدہ ممالک یعنی شمال مغربی ہندوستان، بنگال اور باقی ہندوستان کی صورت میں آزاد کیا جانا چاہیے۔ اس کے بغیرہندوستان کے موجودہ سیاسی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

وائسرائے نے 5 مارچ کو وزیر ہند لارڈ زیٹلینڈ کو خط میں اس میمورنڈم کے بارے میں لکھا کہ چوہدری ظفر اللہ خان نے مجھے ایک نوٹ لکھا ہے اور اس سے لگتا ہے کہ موجودہ حالات ظفر اللہ خان کے متوازن ذہن پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔ اور یہ تجویز ایک انتہائی نقطۂ نظر معلوم ہو رہی ہے۔ 12 اپریل کو وائسرائے نے دوبارہ وزیر ہند کو لکھا کہ ظفر اللہ خان نے اپنی تیار کردہ دستاویز جناح کو بھجوا دی ہے۔ مسلم لیگ اپنے اگلے اجلاس میں اس تجویز کو منظور کرے گی۔ [یہ خطوط برٹش لائبریری میں محفوظ ہیں ]۔

بہرحال چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس میمورنڈم میں جہاں تقسیم برصغیر کی تجویز دی تھی وہاں مذہبی آزادی کے تحفظ کے بارے میں لکھا تھا کہ ہم اس تجویز کی بھرپور حمایت کرتے ہیں کہ قانون ساز اسمبلی کو مذہبی معاملات میں مداخلت کے قوانین بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ کسی قانون اسمبلی کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ مذہبی معاملات میں مداخلت کرے۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب مسلک کے اعتبار سے احمدی تھے۔ ابھی وہ زندہ تھے کہ پاکستان کی اسمبلی نے احمدیوں کو قانون اور آئین کی اغراض کے لئے غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم منظور کی تھی۔ [پاکستان ٹائمز 23 جنوری 1982 ]

جب لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں بنگال کے مولوی فضل الحق صاحب نے یہ قرارداد پیش کی تو انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندوستان کے مسلمان کسی ایسی سکیم کو قبول نہیں کریں گے جو ان کی رضامندی کے بغیر ان پر مسلط کی جائے۔ اور اگر ایسا کیا گیا تو ہم ایسے آئین کو ناقابل عمل بنا دیں گے۔ مولوی فضل الحق صاحب کو اندازہ نہیں تھا کہ اسی ملک میں جس کا وہ خواب دیکھ رہے تھے ایک جرنیل یعنی جنرل ایوب خان عوام کی رضامندی کے بغیر پورا کا پورا آئین بنا کر نہ صرف بنگال بلکہ پورے پاکستان پر مسلط کر دے گا۔

اور جب یہ آئین اپنی موت مرے گا تو ایک اور جرنیل یعنی جرنل آغا محمد یحییٰ خان منتخب لیڈر کو اس لئے اقتدار منتقل نہیں کرے گا کیونکہ وہ بنگالی ہے اور بنگال کے منتخب نمائندوں کو برطرف کر کے جعلی ممبران اسمبلی کو زبردستی بنگال پر مسلط کرنا شروع کر دے گا۔ آخر یہ نتیجہ نکلے گا کہ بنگال پاکستان سے علیحدہ ہو جائے گا۔

اس قرارداد کی تائید کرنے والوں میں ایک نام مسلم لیگ بلوچستان کے صدر قاضی محمد عیسیٰ صاحب کا بھی تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ان صوبوں کے مسلمانوں کو، جنہوں نے اس تجویز کے مطابق ہندوستان کا حصہ بننا تھا مخاطب کر کے کہا کہ ہم آپ کی مکمل حمایت جاری رکھیں گے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی تو کیا مدد یا حمایت کرنی تھی، قاضی عیسیٰ صاحب کو یقینی طور پر اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ ان کے خوابوں کے ملک میں ان کے اپنے صوبے پر بار بار فوج کشی کر کے ان کے سیاسی لیڈروں کا قتل کیا جائے گا۔ اور اغواء ہونے والوں کا کوئی سراغ نہیں ملے گا۔ ان کا اپنا بیٹا یعنی فائز عیسیٰ صاحب سپریم کورٹ کا جج ہونے کے باوجود عدالت میں کھڑا ہو کر انصاف کی دہائی دے گا۔

پاکستان کی بنیاد رکھنے والے سیاست میں خواتین کے کردار سے غافل نہیں تھے۔ اس قرارداد کی تائید کرنے والوں میں ایک نام بیگم صاحبہ مولانا محمد علی کا بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر مسرت ہے کہ مسلمان عورتوں کو سیاست کے میدان میں کام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ یقینی طور پر اس محترم خاتون کو اندازہ نہیں تھا کہ اس ملک کے بننے کے ستر برس بعد بھی گھریلو تشدد کا اتنا راج ہو گا کہ خواتین میں سے پچاس فیصد کو اپنے گھر میں تھپڑوں سے، پچیس فیصد کو مکوں سے اور ستائیس فیصد کو ٹھڈوں سے نوازا جائے گا۔ ملک کی ایک خاتون نے وزیراعظم بننے کی غلطی کی تو اسے دہشت گردوں نے اگلے جہاں پہنچا دیا۔ (Pak J Med Sci Vol 19 no 1 p 24۔ 27 )

ہم نے 23 مارچ 1940 کو جس قسم کے ملک کے خواب دیکھے تھے وہ خواب پورے نہیں ہوئے۔ ہمیں اپنی منزل کیوں نہیں ملی؟

جب کوئی قوم اپنی منزل کا تعین کرتی ہے تو اسے پانے کے لئے کچھ اصولوں پر قائم رہنا پڑتا ہے۔ ہم نے جن اصولوں کا اعلان 23 مارچ 1940 کو کیا تھا ان پر قائم نہیں رہ سکے۔ 23 مارچ کو قائداعظم محمد علی جناح نے ان الفاظ میں ان میں سے ایک اہم اصول کا اعلان کیا تھا:

”میرا ہمیشہ یہ عقیدہ رہا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرا یہ عقیدہ درست ہے کہ کوئی حکومت اقلیتوں میں احساس تحفظ اور اعتماد پیدا کیے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کوئی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی جس کی حکمت عملی اور اور پروگرام اقلیتوں کے ساتھ غیر منصفانہ اور ظالمانہ ہو۔ ایک نمائندہ حکومت کی کامیابی کی کسوٹی یہ ہے کہ اقلیتوں کو احساس ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھ عادلانہ اور منصفانہ برتاؤ کیا جائے گا۔“

[تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ ص 697 ]

یہ وہ اصول تھا جو قائد اعظم نے بیان فرمایا تھا۔ اور یہ وہ کسوٹی تھی جس پر پاکستان کی حکومتوں کو پرکھنا چاہیے۔ کیا آج کا پاکستان اس معیار پر پورا اترتا ہے؟ اگر ہم اس اصول پر قائم نہیں رہ سکے تو کامیاب کیسے ہو سکتے تھے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments