23 مارچ سے 23 مارچ تک


خوش قسمتی سے مسلمان زعماء نے کانگرس کے قیام اور اس کا ساتھ دینے میں مسلمانوں کے لئے مضمر خطرات کو بروقت بھانپ لیا۔ سرسید احمد خان اور سید امیر علی پہلے مسلمان رہنما تھے جنہوں نے مسلمانوں کو ایک الگ قوم قرار دیا اور انہیں کانگرس میں شامل ہونے سے روکا۔ سید امیر علی نے خاص طور پر مسلمانوں پر زور دیا کہ ان کی ایک الگ سیاسی جماعت ہونی چاہیے ورنہ ان کے حقوق کی حفاظت نہ ہو سکے گی۔

مسلمانوں کے لئے الگ جماعت کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نواب آف ڈھاکہ سلیم اللہ خان نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے موقع پر مسلمان رہنماؤں کے اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کانفرنس کے اختتام پر 30 دسمبر 1906 ء کو ایک اجلاس منعقد کیا جس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی۔

اجلاس میں نواب سلیم اللہ خان نے آل انڈیا مسلم کنفیڈریشن کے قیام کی تجویز پیش کی تاہم اتفاق آل انڈیا مسلم لیگ پر ہوا، چنانچہ انڈین نیشنل کانگرس کے قیام کے ٹھیک 21 برس (کانگرس کا قیام 28 دسمبر 1885 ) اور دو روز بعد مسلمانان برصغیر کی نمائندہ جماعت وجود میں آ گئی۔ نواب وقار الملک اور نواب محسن الملک اس کے جائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ مارچ 1908 ء میں علی گڑھ میں مسلم لیگ کے ایک خصوصی اجلاس میں سلطان محمود سر آغا خان کو باضابطہ طور پر مسلم لیگ کا صدر اور سید علی حسن بلگرامی کو سیکرٹری چنا گیا۔ اس طرح سر آغا خان مسلم لیگ کے پہلے صدر تھے۔ مسلم لیگ کے بانیوں کے ذہن میں آزادی یا الگ وطن کا کوئی تصور نہ تھا بلکہ ابتداء میں اس کے جو مقاصد متعین کیے گئے وہ یہ تھے۔

1۔ مسلمانان ہند کے مفادات اور ان کے حقوق کا تحفظ۔
2۔ مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان مفاہمت کی فضاء پیدا کرنا۔
3۔ مسلمانوں اور ہندوستان کی دوسری اقوام کے مابین رواداری کا فروغ۔

1913 ء میں پہلی بار مسلم لیگ نے ہندوستان کے لیے حکومت خود اختیاری کا مطالبہ کیا۔ اسی سال قائداعظم محمد علی جناح بھی مسلم لیگ میں شامل ہوئے تاہم وہ اس کے ساتھ ساتھ کانگرس میں بھی شامل تھے۔ انہیں ”ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا جاتا تھا۔ سات برس تک وہ بیک وقت دونوں جماعتوں میں شامل رہے اس دوران انہوں نے ہندو ذہن کو بڑے قریب سے پڑھا اور یہ وہ مشاہدہ تھا جس سے ہندوانہ عزائم ان پر پوری طرح آشکار ہو گئے۔ چنانچہ 1920 ء میں انہوں نے کانگرس سے علیحدگی اختیار کر لی۔

اس وقت تک مسلمانان برصغیر کی جدوجہد ایک متحدہ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ پر ہی مرکوز تھی تاہم 1930 ء میں پنجاب مسلم لیگ کے صدر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے الٰہ آباد میں اپنے اس تاریخی خطبہ میں جو اصل میں تصور پاکستان کی بنیاد بنا، پہلی بار ایک الگ مملکت کا نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے فرمایا:

”ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں مذہبی و ثقافتی اور سماجی اور معاشی اختلافات اس قدر بنیادی ہیں کہ یہ کبھی دور نہیں ہو سکتے۔ مسلمانوں کے حقوق صرف اسی صورت میں محفوظ رہ سکتے ہیں کہ انہیں اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت دی جائے اور مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل مسلم ریاست بنائی جائے جس میں مسلمان آزادی سے اپنے مذہب کے اصولوں پر عمل پیرا ہو سکیں۔ جہاں صرف مسلمانوں کو حکمرانی کرنے کا اختیار حاصل ہو۔“

انہوں نے مزید فرمایا:

”میں حالات کا نہایت تدبر سے جائزہ لے کر اس حتمی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ برصغیر کے شمالی اور مشرقی حصے میں ایک نئی سلطنت ابھرنے والی ہے جس کو دنیا کی کوئی قوت نہیں روک سکتی“

حضرت علامہ کے یہ تاریخی الفاظ دراصل اس سلطنت کے قیام کی پیشین گوئی تھے جو بعد میں پاکستان کے نام سے وجود میں آئی۔ قائداعظم محمد علی جناح بھی پوری طرح قائل ہو چکے تھے کہ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔

مارچ 1939 ء میں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے ایک کمیٹی مقرر کی تاکہ الگ وطن کے سلسلے میں مختلف تجاویز اور منصوبوں کا جائزہ لے کر حتمی رپورٹ مرتب کرے۔ اس کمیٹی نے حضرت علامہ کی علیحدہ وطن کی تجویز، چودھری رحمت علی کی وسیع تر پاکستان، ڈاکٹر عبداللطیف کی پندرہ ثقافتی حصوں، خان آف ممدوٹ کی ہندوستان کے نیم وفاق کی تجویز، سر عبداللہ ہارون کی دو ریاستوں کی تجویز اور سر سکندر حیات کی دو درجہ وفاق کی سکیم کا جائزہ لیا اور اپنی سفارشات پیش کیں۔

سبجیکٹ کمیٹی نے غوروخوض کے بعد مسودے کی منظوری دے دی۔ 22 مارچ 1940 ء کو مسلم لیگ کا وہ تاریخی اجلاس لاہور میں شروع ہوا جس میں باضابطہ طور پر مسلم لیگ نے ”پاکستان“ کے مطالبے پر مبنی قرارداد منظور کی۔ قرارداد جو 23 مارچ 1940 ء کو پیش اور 24 مارچ 1940 ء کو منظور ہوئی قرارداد لاہور کہلائی۔ بعد میں اسے قرارداد پاکستان کہا جانے لگا۔ قرارداد متحدہ بنگال کے وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق نے پیش کی۔ چودھری خلیق الزمان نے اس کی تائید کی۔

سردار اورنگزیب، مولانا ظفر علی خان اور سر عبداللہ ہارون نے قرارداد کی حمایت میں تقاریر کیں۔ تائید کرنے والوں میں نواب محمد اسماعیل ایم ایل اے (بہار) ، قاضی محمد اسماعیل صدر مسلم لیگ بلوچستان، عبدالحمید خان ایم ایل اے (مدراس) ، آئی آئی چندریگر ایم ایل اے (بمبئی) ، سر عبدالرؤف شاہ ایم ایل اے (سی پی) ، ڈاکٹر محمد عالم ایم ایل اے (پنجاب) ، سید ذاکر علی (یوپی) ، بیگم صاحبہ مولانا محمد علی (یوپی) ، مولانا عبدالحامد بدایونی (یوپی) بھی شامل تھے۔

ابتدائی قرارداد میں شمال مغرب اور شمال مشرق کے مسلم اکثریت والے خطوں کے لئے دو الگ الگ آزاد ریاستوں کا تصور جھلکتا تھا چنانچہ اس پر توجہ دی گئی اور اپریل 1946 ء میں صوبائی اور مرکزی مجالس قانون ساز کے مسلم لیگی ارکان کے اجتماع میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب، سرحد، بلوچستان، سندھ، بنگال اور آسام کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس مجوزہ اسلامی ریاست کی جغرافیائی حدبندی ہو جانے کے باوجود ابھی تک اس کا کوئی نام نہیں رکھا گیا تھا۔

چودھری رحمت علی کا تجویز کردہ نام ”پاکستان“ پہلی بار 1946 ء میں مسلم لیگ کے دہلی میں منعقدہ کنونشن میں استعمال کیا گیا اور پھر اپنا لیا گیا۔ 1945 ء میں شملہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد وائسرائے ہند لارڈ ویول نے محسوس کر لیا کہ ہندوستان کی تقسیم اب ناگزیر ہو چکی۔ چنانچہ اس نے 21 اگست 1945 ء کو اعلان کیا کہ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات موسم سرما میں ہوں گے۔ مقابلہ کانگرس، مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی میں ہوا۔

دسمبر 1945 ء کو انتخابات منعقد ہوئے، مسلم لیگ کو مرکزی اسمبلی کی 102 میں سے 30 نشستیں ملیں۔ جبکہ صوبائی انتخابات میں 86 میں سے 75 نشستیں مسلم لیگ نے جیت لیں جو 1935 ء کے انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ایک شاندار کامیابی تھی۔ ان انتخابات کے نتائج نے قیام پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کر دی اور 14 اگست 1947 ء کو برصغیر کے مسلمانوں کے خوابوں کی تعبیر پاکستان کی شکل میں سامنے آ گئی۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کی جاں گسل جدوجہد نے اس عظیم نجات دہندہ کے قویٰ مضمحل کر دیے تھے۔

قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد قوم کا یہ محسن اسے روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ بابائے قوم حضرت قائداعظم کا ابھی کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ اس نوزائیدہ مملکت کی قیادت کے دعویداروں کے مابین جوتیوں میں دال بٹنے لگی۔ عوام اس کھیل سے اس قدر بیزار ہوئے کہ ایک طالع آزما نے سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشیوں سے فائدہ اٹھا کر نوزائیدہ مملکت پر طاقت کے بل بوتے پر حق حکمرانی حاصل کر لیا۔ اس نجات دہندہ نے گو صنعتی لحاظ سے ملک کو بے مثال ترقی دی لیکن سیاسی اداروں کو پنپنے نہ دیا۔

اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ایک شخص بدصورت ولن کی طرح کود کر اندر آیا اور مسلط ہو گیا۔ اس نے شراب و شباب پر ملک کو ہی داؤ پر لگا دیا۔ جب اپنا کردار ادا کر کے یہ رخصت ہوا تو اس کی جگہ لینے کے لئے جو شخص آیا اسے ہر کام کی بہت جلدی تھی۔ اقتدار میں چند ماہ کی تاخیر بھی اسے گوارا نہ تھی۔ اسی عجلت میں ملک ٹکڑے کرنے میں فریق بن گیا۔ اس نووارد نے صحیح معنوں میں جمہوریت کی مٹی پلید کی اسے ذرا بھی اختلاف پسند نہ تھا۔ اختلاف کرنے والے بعض قریبی ساتھی بھی کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل دیے گئے۔ جمہوری اداروں کے ساتھ ساتھ اس نے صنعتی اداروں پر بھی ہاتھ صاف کیا۔ ہر چیز اکھاڑ پچھاڑ کر رکھ دی۔ قوم سراپا احتجاج بن گئی۔

کئی ماہ کی خونریز تحریک کے بعد ایک سراپا سپاس شخص مسیحا کے روپ میں آیا اور 90 روز میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ تاہم چند ہی روز بعد انہوں نے فرمایا کہ پہلے مجھے علم نہ تھا کہ صورتحال اس قدر خراب ہے اس لئے 90 روز کا وعدہ کر لیا تھا لیکن اندر سے غلیظ پوتڑے برآمد ہو رہے ہیں جن کو دھونے کے لئے عمر خضر کی ضرورت ہے۔ چنانچہ 90 روز 90 ماہ سے بھی طویل ہو گئے جس کے بعد ناچار انتخابات ہوئے۔ نئی حکومت بنی۔ لیکن اس حکومت کا سربراہ جو بظاہر بڑا کم گو، مسکین اور کمزور سمجھا جاتا تھا۔ حقیقی حکمرانوں کے سامنے دیوار چین بن گیا۔

اس کے بعد کی تاریخ سامنے ہے۔ قوم کے لیڈروں نے قیام پاکستان کے جو مقاصد بیان کیے تھے وہ ہنوز شرمندہ تکمیل تھے۔ یہ مقاصد پورے کرنے والے اندر دھما چوکڑی مچائے ہوئے ہیں اور چند ڈرے اور سہمے ہوئے لوگ دیوار سے لگے خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments