اب وہ پولیس نہیں رہی


مرشدی جناب مشتاق یوسفیؔ صاحب نے ایک جگہ اپنے ایک عزیز دوست، جو کہ اسلام آباد میں کسی بڑے منصب پر فائز تھے، کے حوالے سے ایک قصہ لکھا ہے۔ لکھتے ہیں :

”میرے وہ عزیز دوست پریزیڈنٹ ہاؤس میں ایک پر ہجوم تقریب کے بعد مائیک پر اعلان کروا رہے تھے کہ غلام نبی ڈرائیور گاڑی لے آئے۔ چار دفعہ متواتر اعلان کے باوجود غلام نبی ڈرائیور نہیں آیا تو ہمارے دوست نے پانچویں بار ذرا وضاحت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ غلام نبی جو کہ پندرہ سال سے مالی کا کام کرتا رہا ہے اور پچھلے ڈیڑھ ماہ سے ڈرائیوری کر رہا ہے، گاڑی لے آئے۔ اعلان ہوتے ہی سابق مالی غلام نبی نے کار پورچ میں لا کے کھڑی کر دی۔“

پولیس کے ساتھ ہمارے تعلق کو ایک عرصہ گزرا ہے چنانچہ جب بھی پولیس کے بارے میں کچھ سنتے۔ دیکھتے یا پڑھتے ہیں تو ہمارا دھیان سب چیزوں سے ہٹ کر فوراً ادھر چلا جاتا ہے۔ اور پھر قلم بھی اسی خیال کی پیروی کرنے لگتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ویڈیو دیکھی جس میں کچھ لوگ ایک باوردی پولیس افسر کی سرعام پٹائی کر رہے تھے۔ ہمیں اس سلوک اور ’عزت افزائی‘ پر سخت حیرت ہوئی اور یہ منظر ہمیں ہمارے بچپن میں لے گیا جب ہم پولیس کی بے پناہ عزت، رعب اور پروٹوکول دیکھا کرتے تھے۔

پولیس کے حوالے سے ہماری یادوں کا سلسلہ ہمارے بچپن تک چلا جاتا ہے۔ اس ضمن میں چند تصویریں ہمارے پردۂ خیال پر گویا چپک کر رہ گئی ہیں۔ والد گرامی کو پولیس کی خدمت اور خصوصاً انہیں کھانے کھلانے کا بے انتہا شوق تھا۔ ادھر پولیس والوں نے بھی اس ضمن میں انہیں کبھی ’مایوس‘ نہیں کیا اور ان کے شوق کی تکمیل میں ان کا ہمیشہ بھرپور ساتھ دیا۔ پولیس والے اکثر ہمارے مہمان بنتے لیکن خاص طور پر جب کسی ایس ایچ او یا مقامی سرکل کے ڈی ایس پی کی نئی پوسٹنگ ہوتی تو ان کی پہلی دعوت کا منظر دیدنی ہوتا۔

ان دنوں ولایتی (بناسپتی) گھی اور برائلر مرغی کی رسائی ابھی دیہات تک نہیں ہوئی تھی۔ سب کچھ اصلی ہوا کرتا تھا۔ کیا خوراک۔ کیا لوگ! ایسے میں افسران کو بڑے پرجوش انداز میں دعوت دی جاتی۔ پولیس والے بڑے طمطراق سے تشریف لاتے۔ والد محترم بھرپور اہتمام کرتے۔ دیسی مرغ اور بٹیرے ان دعوتوں کا لازمی حصہ ہوتے۔ آس پاس کا کوئی ایک آدھ بڑا زمیندار بھی مدعو ہوتا۔ ڈیرہ سج جاتا۔ دعوت شروع ہوتی تو گرمیوں میں کھانے سے پہلے دودھ سوڈے کا دور چلتا۔

ایک بڑے سے ”کرمنڈل“ میں دودھ، سوڈا اور برف ہم وزن ڈال کر پولیس کا یہ مرغوب مشروب تیار ہوتا۔ ان دنوں پولیس میں مالی لحاظ سے کرپشن کا چلن کچھ زیادہ نہیں تھا۔ لیکن ایسا ہوتا بھی تو ایسی پرتکلف دعوتوں سے شاید زیادہ مہنگا نہ پڑتا۔ پکے کھانوں کی خوشبو سارے علاقے میں پھیل جاتی ہے۔ تھانیداروں کی اتری ہوئی ٹوپیوں، پیٹیوں اور چڑھی آستینوں سے کھانے کے لیے ان کی رغبت کا پتہ چلتا۔

انہی دنوں یہ لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ ایک دیہاتی نے کسی تھانیدار کی دعوت کی اور کھانے کی تیاری کے دوران اس سے پوچھا، ”جناب! آپ کے لیے دیسی مرغ پکا رہے ہیں، اس کے اندر کیا ڈالیں۔“ ؟ تھانیدار صاحب نے کمال عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا، ”اس کے اندر بھی مرغ ہی ڈال لیں۔“ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ملازموں کے ساتھ ساتھ ہم بھی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں کھانے کے برتن وغیرہ باہر لے کر آتے۔

ان دنوں عزت و احترام اور رعب داب کے حوالے سے پولیس اپنے عروج پر تھی۔ انہی دنوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک سپاہی پورے گاؤں کو اپنے آگے لگا کر تھانے لا سکتا تھا۔ (حالانکہ بعض اوقات سارے گاؤں کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی) ۔ سو! قانون کی عمل داری لا قانونیت کی حد تک ہو رہی تھی۔ تفتیش نہایت آسان اور سادہ ہوا کرتی تھی۔ فنگر پرنٹس اور ڈی این اے جیسی ”قباحتوں“ سے تفتیش ابھی محفوظ تھی۔ ان کی جگہ پر ’مولا بخش ٹیکنیک‘ موجود تھی۔ ’موثر اور زود اثر‘ ۔ جرم سے مجرم کی جانب تفتیش کے ’فرسودہ‘ طریقے کی بجائے اسے ڈائریکٹ مجرم سے جرم کی جانب بڑھانے کا طریقہ رائج تھا۔ اس طریقہ تفتیش میں ضروری ہوتا ہے کہ اصل مجرم کو تفتیش شروع ہونے سے پہلے ہی پکڑ لیا جائے۔ ( ستم یہ ہے کہ اکثر تفتیشیں، اس کے باوجود، بھی کامیاب رہتیں )

پولیس کا یہ کلچر اور اس انداز کی پولیسنگ اب دم توڑ رہی ہے۔ پولیس کی یہ نسل معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے روایتی کردار نایاب ہونے کو ہیں۔ چچا منظور احمد، ریٹائرڈ انسپکٹر، انہی کرداروں میں سے ایک ہے۔ یہ عمر بھر اس طرز پولیسنگ کا انتہائی فعال پیروکار رہا۔ چچا چالیس سالہ پولیس نوکری کے بعد کچھ عرصہ پہلے ریٹائر ہوا۔ ہماری اس سے پرانی یاد اللہ ہے۔ وہ پولیس کے موجودہ انداز و اطوار اور مختلف اقسام کی پولیس متعارف کروانے کے بڑے ناقدین میں سے ہے۔

اپنے زمانے کو یاد کر کے آہیں بھرتا ہے جب معاشرے میں پولیس کی عزت بام عروج پر تھی۔ وہ کہتا ہے تب ’نکے تھانیدار‘ کا مرتبہ آج کے بڑے تھانیدار سے بھی بڑا تھا۔ پولیسنگ پر اس سے ہمیشہ طویل بحث رہتی ہے۔ جب بھی اس سے پولیس کے موجودہ مسائل اور ان کی وجوہات جاننے کی کوشش کی، اس نے بڑی عجیب بات بتائی۔ وہ کہتا ہے، ”پولیس کو اپنا اصل کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔“ کئی اور باتوں کی طرح چاچے کی یہ بات بھی ہماری سمجھ میں کبھی نہیں آئی۔

چچا منظور ایک بات پر بہت زور دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ”اگر آپ چاہتے ہیں کہ پولیس کی کارکردگی بہتر سے بہتر ہو تو پولیس کو عزت دیں، دیکھنا سب اچھا ہو جائے گا۔ جس روز میں نے اسے اس پولیس افسر کی ویڈیو دکھائی جس کی سرعام درگت بن رہی تھی تو وہ بہت مغموم ہو گیا۔ پھر کہنے لگا،“ انسانی حقوق پر بات کرنے والے اس ویڈیو پر کوئی بات نہیں کریں گے۔ معلوم ہے کیوں؟ ”۔ پوچھا،“ کیوں ”؟ کہنے لگا،“ کیونکہ اس کے لیے پہلے انہیں پولیس کو بھی انسان سمجھنا ہو گا۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments