انسان، تہذیب اور زندگی


کسی قوم کی ثقافت اس قوم کے ذہن کی پیداوار ہوتی ہے۔ انسانی ذہن ہی اپنی ثقافت کی بنیاد رکھتا ہے اور انسانی ثقافت ہی ہے جو انسان کی زندگی کو آسان یا مشکل بناتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جب اپنی ہی بنائی ہوئی انسانی ثقافت انسان کے لئے لیے زندگی میں خوشی اور غم کا باعث ہوتی ہے تو پھر کیوں نہ صرف ایسی ثقافت بنائی اور اپنائی جائے جو انسان کے لئے صرف اور صرف خوشی اور شادمانی کا باعث ہو۔

عام طور پر دنیا میں دو قسم کے انسان بستے ہیں، ایک تو وہ جو حقیقت پسند ہیں اور دوسرے وہ جو کسی نصب العین کے پرستار ہیں یا مثالیت پسند ہیں۔ اصل یہ ہے کہ حقیقت پسندی اور کسی نصب العین کی پرستاری ہی سے انسان نے ترقی کی شکل پائی ہے۔ یہی دو قوتیں ذاتی، معاشرتی، قومی، غرض تمام انسانی سرگرمیوں میں ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتی ہیں۔ نوع انسانی کی حقیقی ترقی ان ہی دو قوتوں کے مناسب تعاون اور مناسب آمیزش سے ہی ممکن ہے۔

تیسری قسم کے انسان وہ ہیں جو نہ تو حقیقت پسند ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی نصب العین ہے۔ وہ محض زمین پر ایک بوجھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ وہ صرف انسانی وسائل کو بے دریغ ضائع کرتے ہیں اور ان کا انسانی ترقی میں کوئی قابل قدر کردار نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف اپنے خود ساختہ شاندار ماضی پر خوش رہتے ہیں اور موجودہ نسلوں کو صدیوں پرانے گزرے ہوئے اپنے آباء و اجداد کے بہادری اور کامیابی کے من گھڑت قصے سناتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو کامیاب و کامران سمجھتے ہیں بلکہ ان کے خیال کے مطابق آنے والی مستقل کی دنیا کے بھی یہ جائز حق دار اور مالک ہیں۔ حقیقت میں ایسے لوگ نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں۔

انسانیت کی عمارت میں نصب العین کی وہی حیثیت ہے جو مٹی کے بت بنانے میں پانی کی ہے۔ پانی کی بدولت مٹی میں نرمی اور لچک پیدا ہوتی ہے لیکن پانی کی مقدار کا حساب رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اگر پانی کم ہو گیا تو وہ بت ٹوٹ جائے گا اور اگر پانی زیادہ ہو گیا تو مٹی اس قابل نہ رہے گی کہ اسے کوئی شکل دی جا سکے یہ بالکل کیچڑ بن کر رہ جائے گی۔ پانی اور مٹی کی بہترین آمیزش کی مثال انگریز قوم ہے۔ انگریز قوم میں حقیقت پسندی اور نصب العین دونوں مناسب مقدار میں موجود ہیں۔

اس کے برعکس ایسے ملکوں کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جہاں آئے دن انقلاب برپا ہوتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے خمیر میں بعض ایسے غیر ملکی اور اجنبی نصب العین راہ پا گئے ہیں جو پوری طرح قوم کے مزاج میں رچ بس نہیں سکے اور اس لئے اس قوم کا خمیر، تناسب اور اعتدال کی سطح قائم نہیں رکھ سکا، ان کی مٹی بھی کیچڑ بن کر رہ گئی ہے۔

کسی بھی تہذیب کو سمجھنے کے لئے وہاں پر کئی برس زندگی گزارنا اور مقامی لوگوں کے رسم و رواج سے باہمی تعلق قائم کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ مگر انٹرنیٹ کی دنیا میں وقت کو جہاں پر لگ گئے ہیں وہیں لوگوں کو اور ان کی تہذیب کو سمجھنا بھی قدرے آسان ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ارتقاء کا عمل بھی تمام تہذیبوں میں بدستور جاری ہے۔ یہاں پر چند تہذیبوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن میں عرب، ہندوستان، یورپ اور ایشیائی ممالک میں چین شامل ہے۔

عرب پر الہامی مذاہب کے اثرات ہیں جو کہ موجودہ زندگی کو فانی اور عارضی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک موجودہ زندگی کی کوئی اہمیت نہیں اور مستقل کی زندگی صرف اور صرف آخرت کی زندگی ہے۔ ان کی موجودہ زندگی کا فلسفہ بھی اس آخرت کی دائمی اور ابدی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ ان کا اس موجودہ دنیا میں ہر عمل اپنی دائمی اور ابدی زندگی کو سدھارنے کے لیے ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں میں اپنی ذاتی سوچ، منطق اور سائنس کے برعکس الہامی قوانین کے اثرات ہیں جو ان کو اس موجودہ زندگی سے کبھی بھی محبت کا درس نہیں دیتے۔

ان الہامی مذاہب میں جن میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام شامل ہیں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو جنت سے نکالنے اور زمین پر بھیجنے کی وجہ وہ گناہ قرار دیا جاتا ہے جو انہوں نے خدا کی نافرمانی کی صورت میں ممنوع پھل کھا کر کیا تھا۔ ان مذاہب کے مطابق اس زمین پر زندگی بنیادی طور پر ہماری وہی سزا ہے جو ہمارے آباء نے خدا کی نافرمانی کی صورت میں کی تھی۔

ہندوستان کے عوام پر بھی الہامی مذاہب کے علاوہ ہندو مت اور بدھ مت مذاہب کے اثرات ہیں۔ یہ دونوں مذاہب بھی انسان کو موجودہ زندگی اور دنیا سے دوری کا درس دیتے ہیں اور آخری زندگی کے لیے سخت ترین تپسیا کی شرط لگاتے ہیں جو کہ صرف موجودہ دنیا سے الگ اور کنارہ کشی اختیار کر کے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔

اس وجہ سے ان تہذیبوں میں آپ کو ادب، فلسفہ اور فنون لطیفہ سے بیزاری اور گناہ کا تصور ملے گا۔ اگر ان علاقوں میں آپ کو ادب اور فنون لطیفہ کے کچھ اثرات نظر آتے ہیں تو وہ چند حکمرانوں کی اپنی ذاتی پسند اور سیاسی مجبوریوں کا نتیجہ تھے نہ کہ ان تہذیبوں کا حصہ۔ خاص مذہبی ذہن رکھنے والے لوگوں نے ہمیشہ ادب فلسفہ، فنون لطیفہ اور سائنس کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں آپ کو سائنس اور فلسفہ پنپتے اور پھولتے نظر نہیں آئیں گے۔

یورپ نے سولہویں صدی سے اپنی پرانی اور فرسودہ تہذیبوں سے بغاوت کرتے ہوئے نئی تہذیب کو جنم دیا۔ ان لوگوں نے ادب، فلسفہ، فنون لطیفہ اور سائنس کے لیے بہت قربانیاں دیں اور کلیسا کے دور سے انہیں مکمل آزادی حاصل ہے اور انہوں نے اپنی قوم اور آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ اور خوشحال دنیاوی مستقبل دیا۔ یہ لوگ اپنے وہم، خوابوں اور توہمات کی دنیا سے باہر آئے اور موجودہ دنیا کو سچ سمجھتے ہوئے حقیقت مان کر اس میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا۔

آج ساری انسانیت یورپ کے اس کے کردار کی احسان مند ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یورپ مکمل طور پر سائنسی ہوتا چلا گیا جہاں انسانی جذبات اور احساسات کی کوئی قدر و منزلت نہ رہی۔ یورپ میں آنے والا دور مکمل طور پر سائنسی اور مشینی ہوتا چلا گیا اور انسانی جذبات اور احساسات کی مکمل طور پر موت ہو گئی۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ انگریزوں کے اندر باہمی امتزاج کمال کا ہے جو ان کی ترقی کی وجہ ہے۔

چین میں تین مذاہب رائج ہیں ؛ کنفیوشس کا دین، تاؤ کا مذہب اور بدھ مت۔ مگر چین کی صحت مند سوچ بوجھ ان تینوں میں گھل مل چکی ہے۔ چینیوں نے ان مذاہب کے کٹرپن کو کم رکھا ہے اور ان تینوں کو ایک پرمسرت انسانی زندگی کی تلاش کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ چین میں انسان مغرب کے مقابلے میں کہیں زیادہ فطرت اور بچپن سے قریب تر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ ایسی زندگی ہے کس میں جبلت اور جذبات دونوں کو پوری آزادی حاصل ہوتی ہے۔

اکثر یہی ہوتا ہے کہ جہاں کہیں آپ کا قیام نہ ہو وہ جگہ ہمیشہ مثالی اور عمدہ سمجھی جاتی ہے محض اس لیے آپ وہاں نہیں رہتے۔ مگر خوش قسمتی سے انسان کو خدا نے ذوق سلیم اور خوش طبعی بھی عطا کی ہے۔ میرے نزدیک ذوق سلیم کی قدرت نے یہ کام سونپا ہے کہ انسان اپنے خوابوں پر نکتہ چینی کرتا رہے اور ان خوابوں کو دنیا کے حقائق سے بھی روشناس کراتا ہے۔ ہوائی قلعے بنانا اور سپنے دیکھنا انسان کے لیے ضروری ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے خیالی پلاؤ اور اپنے سپنوں پر خود ہنس بھی سکے۔ یہ صلاحیت قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہے اور چینی اس عطیے سے مالا مال ہیں۔ ظریف کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ مرتے ہوئے مریضوں کو بڑے قرینے سے ان کی موت کی خبر سنائے۔ بعض اوقات تو ظریف کی دھیمی سی سرزنش مریض کی زندگی کو موت کے پنجے سے چھڑایا بھی لیتی ہے۔

چینیوں کے نزدیک روئے زمین پر پر انسان سب سے بڑا آوارہ گرد ہے۔ انسان کو تخلیق کرتے وقت خالق اکبر جانتا تھا کہ وہ روئے زمین پر سب سے بڑا آوارہ گرد پیدا کر رہا ہے۔ یہ آوارہ گرد اعلیٰ پائے کی ذہانت ضرور رکھتا ہے مگر ہے آوارہ گرد۔ اور اصل میں آوارہ گردی کی خوبیاں ہی انسان کی سب سے امید افزاء خوبیاں ہیں۔ خالق اکبر کا پیدا کیا ہوا یہ آوارہ گرد بڑا ذہین ہے اور وہ ابھی تک کچھ خود سر اور کچھ عجیب الخلقت سا بالغ بچہ ہے مگر وہ ابھی تک اتنا عظیم اور دانش مند نہیں۔ ابھی تک وہ بہت شرارتی اور کھلنڈرا ہے اور ہر آزادی کو سب سے محبوب چیز جانتا ہے۔ پھر بھی اس میں اتنی خوبیاں باقی ہیں کہ قدرت اپنے مقاصد کی برآوری کے لیے اس کی صلاحیتوں پر بھروسا کر سکتی ہے۔

کوئی بھی تہذیب اس وقت مکمل کہلا سکتی ہے جب وہ تکلفات اور نفاستوں سے ترقی کرتے کرتے پھر سادگی تک آ جائے اور شعوری طور پر، فکر کی سادگی اور زندگی کی سادگی کی طرف لوٹ آئے۔ صرف وہی شخص عقل مند کہلا سکتا ہے جو علم کی دانش سے ترقی کرتے کرتے حماقت کی دانش تک پہنچ جائے اور ایک زندہ دل فلسفی بن جائے۔ جو پہلے تو زندگی کی المناکیوں کو محسوس کرے اور پھر زندگی کے طربیے پر ہنس سکے۔

مختصر پیغام اور تعلیم یہ ہے کہ زندگی کا جی بھر کر لطف اٹھایا جائے اور حقیقت پسندی سے اپنا ناتا ہمیشہ مضبوط رکھا جائے۔ یہی وہ تعلیم ہے جو چینی فکر و ادب میں ہر جگہ ہمیشہ رواں دواں نظر آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments