کہانی ایک کوزہ گر کی


(ریل کی پٹڑیوں کے پارمضافات میں گاؤں آباد ہے۔ ہر طرف ایک عجیب سی چیختی ہوئی خاموشی، راستوں پہ ہر طرف کیچڑ، بارش کا پانی نہ جانے کب سے ٹھہرا ہو ا ہے اور اس پانی کے کناروں پر کائی جمی ہوئی تھی۔ چھوٹے چھوٹے مینڈک تیزی سے پھدکتے ادھر سے ادھر جاتے اور ٹروں ٹروں کرتے ہوئے اس بے جان خاموشی کو چڑھاتے تھے۔ فیروزاسی بستی میں ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ پیشے سے وہ ایک کوزہ گر تھا۔ لیکن کوزے بنانے اس نے بہت برسوں سے چھوڑ دیے تھے۔ اس کی جھونپڑی میں اشیائے ضروریہ کی کمی اس حد تک تھی کہ جیسے مردے میں جان کی کمی ہو۔ )

اسے بچپن ہی سے مٹی سے لگاؤ تھا۔ وہ گل و لا سے ایسے مجہور کوزے بنانا چاہتا تھا جو نہ صرف حقیقت سے لبریز ہوں بلکہ ان میں انسانوں کی طرح کی وہ خصلتیں بھی پائی جائیں جس سے سزا اور جزا کا مرتکب ہوتا ہے۔ وہ سیال کوزوں کی جانب بڑھنا چاہتا تھا جو اسے چیخ چیخ کر پکارتے تھے کہ اے ابن آدم! توں چراغ آفریدم تو ٹھہر ا، مگر کبھی تخلیق کے عمل سے گزرنے والی اس تخلیق شدہ مخلوق کی بے چینی سے واقف ہوا؟ وہ جو کوزے تم نے بنائے ہیں کیا خبر، ان کوزوں میں بپھرتی ہوئی، لرزتی ہوئی بے چینی تجھے امر کر دے کہ جس احساس سے تو واقف ہے مگر معاشی بے کسی کا تو بھی تو جکڑا ہوا ہے۔

اچانک سے ایک صراحی دار گردن والے کوزے کی گہرائی سے زور دار صدا بلند ہوئی۔ اے کوزہ گر! اے میرے محسن! اے میرے تخلیق کار، سن، ذرا غور سے سن، یہ جو میں ہوں، وہ تو ہے، اور جو تو ہے، وہی تو میں ہوں، ہاں وہی میں، جس کی بازگزشت تیرے اندر کہیں دور بسی ہوئی تھی۔ کوزہ گر چونک کر اپنی ساری تخلیقات پہ نظر دوڑاتا ہے۔ ایک بوسیدہ سے ادھیڑ عمر آدمی کا مجسمہ جیسے خود سے ہم کلام ہو۔ اور یہ کہتا ہو، کہ مفلس ذہن کے بوسیدہ لوگ جو بڑے بڑے محلات میں رہتے تو ہیں، جن کو زندگی نے اپنی ساری خوبصورتیوں سے نواز ہے، جن کی خاطر وقت دوڑتا بھی ہے اور رک بھی جاتا ہے، وہ۔

وہ لوگ، مگر خالی۔ بوسیدہ اور ریت کا ڈھیر ہی تو ہیں، جیسے کہ میں۔ کہیں قریب سے موہنجوڈارو کے آثار والی تہذیب کی خاتون کا کوزہ بھی کچھ گویا ہے۔ ہوس کے پجاری ابن آدم، بنت حوا کی عصمت کو ریزہ ریزہ تو کرتے ہیں مگر زچگی کے نو ماہ کے اس قرب ناک دور کے قرب سے واقف نہیں، یہ دور بنت حوا کے لیے قرب ناک ہونے کے ساتھ ساتھ خوشی کا لبادہ اوڑھے محو رقصاں ہوتا ہے کہ پھر کسی مائی کے ہاں لال ہونے والا ہے اور یہی مائی کا لال پھر کسی مائی کا دامن اور ستر لال کرنے سے نہ کترائے گا، چاہے وہ کسی سڑک کے کنارے ملے، ہسپتال کے بستر پر، یا پھر سکول، کالج، یونیورسٹی میں یا پھر گلی میں کھیلتی ہوئی کسی بچی کی صورت۔

پھر اچانک ایک صدا بلند ہوتی ہے اور کسی سرکاری دفتر کا کلرک بمعہ اپنی کرسی میز اورنیز فائل کے، ہاتھ میں قلم لیے اپنے کام میں مشغول دکھائی دے رہا ہے۔ مگر یقیناً فائل کے نیچے اگرمائع معیشت کے پہیے نہیں لگے ہوتے تو نہ ہاتھ میں قلم ہوتا اور نہ ہی یہ مشغول دکھائی دیتا۔ البتہ ساتھ والی میز پہ بیٹھے ایک اور صاحب سگریٹ کا کش لیتے چائے کے سپ لے رہے ہیں۔ ادھر دور ہسپتال میں ایمرجنسی وارڈ کے حاضر سروس با ریش ڈاکٹر صاحب رات کی ڈیوٹی پہ اپنے فرائض یو ں سر انجام دے رہے ہیں کہ کمرے کو کھلا چھوڑا ہوا ہے اور کرسی پر گویا یو ں براجمان ہیں کہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے جیسے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوں اور آ نے والے مریض قطار اندر قطار اس بات کے منتظر ہیں کہ قبلہ حاکم وقت ڈاکٹر صاحب کی نیند میں خلل نہ ہو اور وہ ہر پندرہ منٹ کے بعد بیدار ہوتے اور مریضوں سے ایسے گویا ہوتے جیسے حاکم اپنے محکوم سے بتیا رہا ہو، اور آخر میں اپنے نجی کلینک کا نمبر اور پتہ لکھ کر دے دیتے کہ صبح یہاں آ کر چیک کروا لینا اگر طبعیت بحال نہ ہو، اب بھلا طبعیت نے بحال کہاں سے ہونا ہے کہ جس انداز سے مریض کا علاج کیا جا رہا ہے۔ کوزہ گر بھی با کمال فنکار اور ماہر کوزہ گر تھا، کہ حضرت نے جیسے پورے شہر کا ہی نقشہ کھینچ دیا اور زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات کو اپنے اس مصنوعی انسانوں کے شہر کو بنا دیا۔

ادھر کالج کے پروفیسر صاحب، ماشا اللہ سے توند حسب توفیق باہر اور ایک دوسرے پروفیسر سے لجائی ہوئی نظر اور صورت سے درخواست گو ہیں کہ یار میرا آج کا لیکچر ذرا آپ لے لو۔ ان پروفیسر صاحب نے استفسار کیا کہ کیوں بھیا؟ کاہے؟ تو قبلہ یوں گویا ہوئے کہ یار شام کو اکیڈمی میں لیکچر دینا ہے ذرا وہ تیا ر کر لوں! یہ سن کر دوسرے پروفیسر صاحب دم بخود ہو گئے اور ایسے چپ ہوئے کہ جیسے پتھر ہو گئے ہوں۔ ایک جانب حضرت، انجینئر صاحب بھی اپنے کام میں مشغول تھے، اور اپنے ماتحت کو بتا رہے تھے کہ کون سا میڑیل استعمال کرنا ہے۔

عمارت کی تعمیر میں جس جس کونے سے وہ کھدر سکتے تھے وہ تمام کونے انھوں نے کھدرے۔ یہ سارا ماحول اس شہر کا ان پڑھ طبقہ بھی دیکھ رہا تھا۔ دوسری جانب کوزہ گر نے مختلف بازار بھی ترتیب دیے تھے۔ ان بازاروں میں سب کچھ تو تھا مگر خلوص کے، ہر چیز ملاوٹ شدہ، ہر چیز میں ڈنڈی، ہر چیز میں نا جائز منافع خوری کا فن، ناقص، غیر معیاری اور زائد المیعاد چیزوں کی بھرمار۔ گویا اس شہر کو نہ پڑھے لکھے طبقے نے سنبھالا، نہ ان پڑھ نے، نہ ہنر مند نے نہ ہی ناقص العمل انسان نے۔

یہ سارا ماجرا چوک میں بیٹھے ایک بزر گ کا مجسمہ اپنے گرد جمع مجمعے کو سنا رہے تھے۔ ان کی شخصیت پر اثر تھی، چہرے پہ وجاہت اور پاکیزگی کے ساتھ نور ٹپکتا تھا۔ ان کے پاس بیٹھے مجمعے میں موجود بے روزگاروں کے ساتھ ساتھ مثالی لوگوں کا کٹھ تھا جو ایک مثالی معاشرے کی بنیا د رکھنے پر مصر تھے۔ ارسطو کو پڑھانے والے استاد افلاطون کی محبت بھی سچ بولنے سے نہ روک سکی، ہر وہ انسان جو ڈر کی حد سے آگے نکل کر سوچ رہا تھا، وہی آگے جا رہا تھا۔

مگر موجودہ دور کے انسان میں وہ سکت نہیں۔ اس لیے کوزہ گر نے وہ کوزے بنائے جو ہیں تو اس معاشرے کے باشندے اور اس معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ مگر وہ سرمایہ دارانہ نظام کے گرویدہ ہیں۔ اس شہر کے سارے مجسموں کے رویوں کو مجسمہ ساز نے بہت خوبصورت پیرائے میں مجسمہ سازی کے عجائب گھر کی صورت دکھایا۔ کہ سارے کے سارے لوگ اپنی اپنی سوچ میں ڈوبے ہیں۔ نفسہی، نفسہی کا ورد کرنے والے اس کھوکھلے شہر میں سب دوسروں کے مسائل پہ ہنستے ہوئے کبھی یہ نہیں سوچ سکتے کہ ہوا جب چلتی ہے تو آشیانے کسی کے نہیں بچتے اگر رویے ایسے ہوں۔

مجسمہ ساز نے انسانوں کو سبق دینے کے لیے ایک چھوٹا سا شہر جانوروں کا بھی بسایا اور اس میں ایک گھر میں موجود ایک چھوٹے سے خاندان کے جانوروں کی کہانی دکھائی ہے۔ اس خاندان میں ایک میاں اور ایک بیوی رہتے ہیں۔ بیوی اپنے میاں سے لڑ کر کہہ رہی ہے کہ آج میں نے گھر میں ایک چوہا دیکھا ہے تو آپ ایک کڑکی خرید لائیں تا کہ اس چوہے سے نجات پائی جائے۔ چنانچہ میاں اگلے دن کڑکی لے آتا ہے۔ اس گھر میں میاں بیوی کے علاوہ ایک عدد بکری، مرغی اور کبوتر بھی رہتے تھے، جن میں ناجائز قبضہ مافیا چوہا بھی گھس آیا تھا۔

چوہے کو جب پتہ چلا کہ صاحب خانہ ایک کڑکی گھر میں لائے ہیں تو وہ باری باری بکری، مرغی اور کبوتر کے پاس جاتا ہے، اور یہ کارستانی سناتا ہے کہ گھر میں کڑکی آ گئی ہے تو بچ کے رہنا، مگر تینوں تمسخر سے اسے مذاق کا نشانہ بنا دیتے ہیں کہ یہ ہمار ا مسئلہ نہیں تمھارا مسئلہ ہے۔ چوہا شرمندہ ہو کر واپس چلا گیا۔ ایک دن کڑکی میں سانپ پھنس گیا اور خاتون خانہ نے بغیر دیکھے کڑکی کو اٹھا نا چاہا کیونکہ اس نہیں معلوم تھا کہ اس میں سانپ پھنسا ہے چوہا نہیں، چنانچہ سانپ نے اسے ڈس لیا۔

اب طبیب کو لایا گیا تو طبیب نے دوا کے ساتھ رائے دی کہ کبوتر کی ہڈی کو پیس کر دوائی بنا کر زخم پر لگائی، سو سب سے پہلے کبوتر کی بلی دی گئی، طبیب نے یہ بھی کہا تھا کہ مزید طبعیت خراب ہونے پر مرغی کی یخنی پلائی جائے، لہذا مرغی کو بھی زبح کر دیا گیا۔ مگر خاتون خانہ کی طبعیت نہ سنبھل سکی اور وہ چل بسیں۔ لہذا رسم قل خانی کے لیے بکری کو بھی زبح کرنا پڑ گیا۔ اب مرغی، کبوتر اور بکری تو نہ رہے البتہ چوہا ویسے ہی دندناتا پھر رہا تھا۔ لیکن اگر وہ شاید چوہے کی بات کو سمجھ جاتے اور اس کی دور اندیشی کو خاطر میں لاتے تو شاید حالات کچھ اور ہوتے۔ کوزرہ گر نے اس کہانی کو اپنے مہجور کوزوں کی مدد سے دکھایا اور انسانوں کا پیغا م دیا۔ اب یہ ان کی مرضی جو مجسموں کے رویوں سے سمجھیں یا پھر قربانی دے کر۔ البتہ

فیروز، فیروز، سلمیٰ نے دبی ہوئی آواز میں فیروز کو پکارنا چاہا۔ مگر فیروز اپنی بے بسی کا تماشا بنا چپکے سے روتا ہوا مٹی کے ڈھیر کی مانند پڑا رہا۔ ادھر سے ریل گاڑی کی گونجتی ہوئی صدا، پٹڑیوں کی لرزاہٹ اور پرندوں کی چہچہاہٹ نے ماحول کو اور زیادہ ڈراؤنا بنا دیا۔ سلمیٰ بالآخر اس کی جھونپڑی میں گھس جاتی ہے اور فیروز کو جھنجھوڑ کر اٹھاتی ہے۔ تو۔ فیروز اپنے مہجوور کوزوں کی طرح مٹی کے ڈھیر کی مانند پڑا تھا اور درد کے فاصلے مختصر کر چکا تھا۔

اس شہر میں مدت سے یہ ریت چلی آ رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments