لفظوں کا جادوگر: وجاہت مسعود


الفاظ کی نفاست، خوبصورت انداز بیاں، تشبیہات کی بہتات، تشریحات کا استعمال، مثبت تنقید، استعارات کی فراوانی، شاعرانہ مثالیں، اردو اور انگریزی ادب سے مثالیں، لفظوں سے چھیڑ چھاڑ، نفاست، الفاظ کا بہترین چناؤ، تجسس، اور ذوق ، یہ سب ہم سب کے ایڈیٹر وجاہت مسعود کی تحریروں کے لازمی عناصر ہوتے ہیں۔ جمہوری سوچ رکھنے والے، انسانی حقوق کے نہ بکنے اور نہ جھکنے والے علم بردار وجاہت مسعود کی تحریریں یقیناً نئے لکھاریوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

ان کی تحریروں سے کچھ نمونے ان کی قلم پر ان کی غیر معمولی گرفت کو ظاہر کرتی ہیں:

’’‏سینیٹر ولید اقبال نے آج کہا، ”مجھے تمیز سکھانے کی ضرورت نہیں، میں سب جانتا ہوں۔“ علامہ اقبال کا انکسار کہتا تھا، ”اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے“ ۔ یہ کہتے ہیں، میں سب جانتا ہوں۔ شاید کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ”مجھے تمیز سکھانے کی ضرورت نہیں۔ اگر تمیز سیکھ سکتا تو اب تک سیکھ چکا ہوتا“

’’‏بلوچستان عوامی پارٹی کے اردو مخفف ”باپ“ نے بہت دن مجھے کنفیوز رکھا۔ بالآخر سمجھ آیا کہ روز قیامت جب ہر ذی روح کو ماں کے نام سے پکارا جائے گا، بلوچستان عوامی پارٹی اپنے ”باپ“ کے حوالے سے پہچانی جائے گی۔‘‘

‏’’مسلط شدہ حکومتی بندوبست اپنی بنیاد میں قوم کی اجتماعی اور انفرادی توہین کا نام ہے۔ افراد، گروہ اور ادارے اپنی توقیر کھو بیٹھتے ہیں تو قوم میں دیانت، بلند کردار اور جرأت اظہار کے اشاریے گر جاتے ہیں۔‘‘

’’‏ناجائز حکومت ناگزیر طور پر چار عناصر سے تشکیل پاتی ہے، ادارہ جاتی انحطاط، مالی بدعنوانی، جنسی اخلاق باختگی اور منظم جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی۔ علاوہ ازیں ناجائز حکومت کو اپنے تسلسل کے لئے جرم اور استحصال کے بین الاقوامی بندوبست بھی سے گٹھ جوڑ کرنا ہوتا ہے۔‘‘

’’ڈسکہ میں کتابوں کی طرف ہمکتی بچی کا سر ہی قلم نہیں کیا گیا، اس کے سر پر رکھا باپ کا دست شفقت بھی قطع کیا گیا ہے۔ اب کیوں نہیں بولتے عورت مارچ کے نعروں پر سینہ کوبی کرنے والے مطالعۂ پاکستان کے ابلہ مکتب۔ یوم حیاء منانے والے بے حیاء منافق خاموش کیوں ہیں؟ آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟‘‘

وجاہت مسعود

’’‏پرویز رشید نے 55 برس پر پھیلے امتحان میں گرفتاری، اسیری، تشدد، جلاوطنی، الزام، کھلی سازش سے عدالتی ناانصافی تک کون سی آزمائش نہیں دیکھی۔ پرویز رشید جیسے سپاہی ہتھیار نہیں ڈالتے، مقام محفوظ کی طرف مراجعت نہیں کرتے، ان کے فرمان امروز اور ارادۂ فردا میں ایک ہی لفظ لکھا ہے، پیش قدمی۔‘‘

’’‏بہادری اور بزدلی اضافی اصطلاحات ہیں۔ ہم سب انسان جسمانی قد و قامت اور ذہنی استعداد میں کم و بیش ایک جیسے ہیں۔ فرق اس ایک بنیادی فیصلے سے طے پاتا ہے جو ہم ضمیر کی تنہائی میں اپنے آپ سے کرتے ہیں۔ دیانت یا دھوکہ؟ اصول یا مصلحت؟ دیوار سے سر ٹکرانا ہے یا راستہ نکالنا ہے۔‘‘

’’‏انسان کا ایک بنیادی المیہ جسمانی اور ذہنی مزاحمت میں فرق ہے۔ انسانی جسم کمزور ہے، اذیت کے سامنے ہار مان جاتا ہے، انسانی ذہن کی مزاحمت کی کوئی حد نہیں۔ ذہن انسانی کو تشدد نہیں، صرف دلیل سے قائل کیا جا سکتا ہے۔ تشدد اور انصاف میں ناقابل سمجھوتہ تضاد ہے۔‘‘

’’ایف اے ٹی ایف کی خبر کچھ یوں دی گئی ہے کہ بھارت ہمیں بلیک لسٹ کروانے میں ناکام ہو گیا۔ گویا ہمارا ہدف گرے لسٹ سے نکلنا نہیں، بلیک لسٹ سے بچنا تھا۔ دراصل کہنا چاہیے: اہل محلہ کو مبارک۔ ہمارا ہونہار حماد اظہر میٹرک میں فیل ہونے سے بال بال بچ گیا کیونکہ اس نے امتحان ہی نہیں دیا۔‘‘

’’‏پچھلی صدی کی سب سے بڑی کامیابی نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ تھی۔ اس صدی کی خبر یہ ہے کہ بیرونی غلامی سے آزادی پانے والے قومی خود مختاری کے نام پر ہر جگہ داخلی استعمار کے چنگل میں ہیں اور یہ لڑائی کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔‘‘

’’‏غیر نمائندہ، غیرجوابدہ اور غیر شفاف حکومت قوم کو جو معاشی و سیاسی نقصان پہنچاتی ہے، اس سے کہیں زیادہ تمدنی زیاں کرتی ہے۔ آمریت ایسی عفریت ہے کہ قوم کے ہر فرد کا ضمیر لازماً داغدار ہوتا ہے۔ اس خسارے کا تخمینہ آنے ٹکے میں نہیں لگایا جاتا۔ اس کا اندازہ تو سفر کی رائیگانی سے ہوتا ہے۔‘‘

‏’’کچھ لوگ عورت کی عزت کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ احساس کمتری نے انہیں شدید ذہنی عدم تحفظ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ خوف یہ ہے کہ اپنی مسلمہ نالائقی اور اخلاق باختگی کے باوجود ایک مسخ معاشرے میں جو ناجائز رسوخ حاصل کر رکھا ہے، اس سے محروم نہ ہو جائیں۔‘‘

’’‏تربیلا کو سٹارٹ کر رہے ہں، تیل نہیں تھا، تھوڑا سا اوندھا کر کے دوبارہ کک ماری ہے۔ (روایت: حاجی عبدالرزاق پنڈی والے)‘‘

’’کوئی ملک سخاروف، ناؤم چامسکی، اروندھتی رائے، عاصمہ جہانگیر اور ملالہ یوسف زئی کے موقف سے بدنام نہیں ہوتا۔ فیض کی غزل اور پاسٹر ناک کا ناول ملک کی توقیر ہوتے ہیں۔ قومیں جمال خشوگی یا ڈینیئل پرل کے قتل اور لجین الھذلول یا علی وزیر کی اسیری سے بدنام ہوتی ہیں۔‘‘

‏’’بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ فرماتے ہیں کہ سیاست دانوں کو دو کا پہاڑا نہیں آتا۔ واقعی دو کا پہاڑا علم کی معراج ہے اور اعجاز شاہ اس معدن بے کنار کے شناور ہیں۔ سیاست دان دو کے پہاڑے کی بجائے اپنے ملک کی توقیر میں سر کھپاتا ہے تاکہ آسٹریلیا کی حکومت اس کے ہائی کمشنر کی تقرری مسترد نہ کرے۔‘‘

وجاہت مسعود صاحب سے ابھی تک ملا ہوں نہ ہی ان سے متعلق تفصیلات کا مجھے کچھ علم ہے، نہ کوئی مفاد وابستہ اور نہ ہی مجھے کسی کی تعریف کرنے کا شوق ہے ۔ روزنامہ جنگ کے توسط سے ادب اور صحافت کے ان کا قاری ہوں۔ اپنی ذات میں انجمن جناب وجاہت مسعود کی فکر سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

کیا ہی اچھا ہوں کہ وجاہت مسعود صاحب کسی چینل میں کوئی پروگرام کر کے کروڑوں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچائیں۔ (اگرچہ ’ہم سب‘ پر آج کل وہ عدنان کاکڑ کے ساتھ تجزیہ کاری کرتے ہیں)۔ لیکن کیا کوئی چینل ان کے تیکھے اور حقائق پر مبنی تجزیے نشر کرنے کی جرأت کر سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments