ماہ مارچ میں صرف فوجی مارچ


ابن انشاء کے نقش پا ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک دفعہ چین کا سفر بھی درپیش ہوا۔ جاپان والی لمبی مسافت سے ڈرتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ صاحب کی طرح ’منہ ول جاپان دے‘ کی نیت کر کے بنکاک ہی سے سفر کا رخ موڑ لیا۔

خوش قسمتی سے ساتھ والی سیٹ پہ ایک ایسے صاحب براجمان تھے جو بڑی بڑی کمپنیوں میں انتظامی امور کے صاحبان کی ٹریننگ کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ سارے راستے ان سے بہت ہی مفید اور سیر حاصل گفتگو رہی۔ وہ دوسرے شخص تھے جنہوں نے ہمت افزائی کی کہ اچھا خیال اور کمال کا آئیڈیا کسی کو بھی آ سکتا ہے۔

وہیں ان سے سوشل میڈیا پہ چلی ایک تصویر کا ذکر ہوا تو انہوں نے بات یوں آگے بڑھائی کہ اس نئی ’ڈیجیٹل ٹیکنالوجی‘ نے حقیقتاً اس دنیا کو ایک ’گلوبل ویلج‘ میں بدل دیا ہے۔ وہ تصویر جانے کہاں کس نے بنائی اور کہاں سے اس کا نقطۂ آغاز ہوا لیکن کم و بیش آدھے سے زیادہ انٹرنیٹ کے صارفین نے وہ دیکھ رکھی ہے۔ اس تیز رفتاری کے دور میں ہانپتے بھاگتے ہم اپنے آس پاس اور خصوصاً اپنی شناخت سے منسلک اہم چیزیں بھول رہے ہیں۔ آج سوشل میڈیا پہ چلنے والی ایک ویڈیو نے یہ یاد تازہ کر دی۔

فروری میں بہار کی آمد کو خوش آمدید کہنے کے لئے جشن بہاراں میں بسنت کا مزہ اب تو لاہوری کیا ، سب ہی بھول گئے ہیں۔ کبھی یار لوگ بسنت منانے لاہور آیا کرتے تھے لیکن اب گڈی اور ڈور کا مزہ جیل یاترا کے ذائقے میں بھی بدل سکتا ہے۔ ’رب نیڑھے کہ گھسن’ کے مترادف اب یار لوگ پنگے نہیں لیتے اور چھت کی بجائے گھر کے اندر ہی اپنے ‘گیجٹس’ کے ساتھ رہنے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن اس سارے ‘گھر بٹھائی’ کے عمل نے بہت کچھ بھلا بھی دیا ہے۔

مذکورہ ویڈیو میں ایک صاحب راہ چلتے لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ 23 مارچ کو کیا ہوا تھا؟ تو کسی نے اسے موٹروے کے افتتاح اور کسی نے اسے اسلام آباد میں مینار پاکستان کی تعمیر سے تعبیر کیا۔ کسی نے اسے ایٹمی دھماکوں سے منسوب کیا تو کسی نے اسے یوم آزادی سے جوڑ دیا۔ ایک نے تو صاف ہاتھ کھڑے کر دیے کہ ’پائین نہیں پتا کیا ہوا تھا‘ ۔ سب سے مزے کی بات ایک صاحب نے کی کہ اس دن فوجی پریڈ ہوتی ہے اور اسلام آباد کی سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔

یہ ہے اپنی شناخت ، اپنے ورثے اور اپنے ماضی سے دوری کہ 23 مارچ جیسا اہم اور بنیادی دن ہی ہمیں یاد نہیں۔ وہ تو شکر ہے اس وقت کے قائدین نے اسے خود پاکستان سے منسوب نہیں کیا تھا بلکہ ہندوؤں نے ہی اسے مذاقاً قراداد پاکستان کہہ کہہ کر پکا کر دیا ورنہ تو ان کی روح تڑپ جاتی۔ یہ سانحہ ایک دن میں نہیں ہو گیا ، یہ ویسے ہی کیا گیا ہے جیسے 50 سال کے عرصے میں اکھنڈ پنجاب کو تعلیم سے ایسا دور کیا کہ لوگ جگت بازی میں مہارت کو اصل ہنر سمجھنے لگے۔

ابھی بھی دو وقت کی روٹی کی دستیابی اس قدر مشکل ہے کہ پوری پڑ کے نہیں دے رہی اور حالات کو اس نہج پہ لایا جا رہا ہے کہ جو مرضی کرو ، جیسے مرضی کرو، جہاں مرضی کرو لیکن ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کا ایندھن کرنے کا سامان کرنے دو۔ تابناک ، درخشاں اور عالیشان ماضی کے قصوں کو قصۂ پارینہ بنانے کے لئے لازم ہے کہ ادھر ادھر کے لاحاصل کاموں میں ایسا الجھایا جائے کہ یہی پلے نہ پڑے کہ گتھی سلجھانی کون سی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments